روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) سترہویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

❖ اچانک حملہ

آدم خوروں کا یہ حملہ کیا اس قدر اچانک اور زبردست تھا، کہ کچھ لمحوں کے لیے تو میں سچ میں بوکھلا گیا…

آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی.. میں حسبِ معمول گشت پر تھا.. دور بین سے آس پاس کا جائزہ لیا تو کوئی غیر معمولی چیز دکھائی نہ دی۔

میں واپس اپنے کیبن کی طرف آ رہا تھا کہ اچانک مجھے کچھ شور سا سنائی دیا۔ میں نے سمندر کی طرف دیکھا اور حیران رہ گیا!

آدم خوروں سے بھری ہوئی ہیں بیس پچیس کشتیاں ساحل کی طرف بڑھ رہی تھیں… آدم خور نیزے لہرا کر، شور مچاتے ہوئے ہمارے جزیرے کی طرف بڑھتے چلے آ رہے تھے….

فرائیڈے نے بھی یہ منظر دیکھ لیا تھا۔ وہ بھاگا ہوا آیا اور کہا ’’وہ آ گئے… ماسٹر! وہ آ گئے….“

میں نے اپنے حواس مجتمع کرتے ہوئے اسے تسلی دی ’’ہماری توپ ان کو ایسا مزہ چکھاۓ گی کہ… تم دیکھنا..“

ہم تیز تیز بھاگتے اپی توپ کے پاس پہنچے، گڑھے سے بارود اور سیسے سے بھری ہوئی بوریاں نکالیں۔ توپ میں بارود بھر کر میں نے اس کا منہ سیسے کی گولیوں سے بھر دیا۔ چقماق رگڑ کر آگ دہکا کر ان پر درختوں کی شاخیں ڈال دیں..

اب ہم دشمن کا زبردست استقبال کر سکتے تھے!

فرائیڈے توپ پر چڑھا بیٹھا تھا، میں نے اسے ہٹایا اور کہا ”جب میں توپ کو آگ دکھاؤں تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر زمین پر بیٹھ جانا‘‘

میں نے اپنے کانوں میں بکری کی اون کے پھاہے ٹھونس لئے تھے۔

دشمن کی کشتیاں ساحل پر رکی ۔ وہ سب کشتیوں سے اتر کر تیر کمان لئے ہمارے کیبن کی طرف بڑھنے لگے۔

ایک شخص سب سے آگے تھا.. اس نے سر پر کسی جانور کا سر باندھ رکھا تھا۔ سب سے آ گے چلتے ہوئے وہ چیخ چیخ کر نعرے لگا رہا تھا۔

فرائیڈے نے بتایا ”یہی وہ سردار ہے، جس نے میرے خاندان کو قتل کر دیا۔ اس وقت وہ ایسے نعرے لگا رہا ہے، جو مذہبی جنگ لڑنے کے لئے آ تے ہوئے لگاتے ہیں۔‘‘

توپ عمل کے لئے بالکل تیار تھی!

انتظار تھا، تو بس اس بات کا کہ وہ توپ کے نشانے میں آ جائیں.. یوں دلیری سے آگے بڑھنے والے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کتنی بڑی قیامت ان پر ٹوٹنے والی ہے۔ میں نے ان کا بھرپور جائزہ لیا۔ وہ ڈیڑھ سو سے کسی طور بھی کم نہیں تھے..

وہ سب مسلسل نیزے لہرا رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ جب ہمارے کیبن اور ان کے مابین آدھا فاصلہ رہ گیا، تو ان سب نے ہم پر تیروں کی برسات کر دی۔

ہم جلدی سے زمین پر بیٹھ گئے. فرائیڈے گھبرا گیا تھا،
”ماسٹر وہ سر پر آ گئے… اب تو توپ چلادیں۔‘‘

میں نے اسے کہا کہ وہ خاموش رہے۔ میں بہتر جانتا ہوں کہ توپ کب چلنی چاہیے۔

دوربین لگائے میں ان کو بغور دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے اپنے ننگے جسموں پر لال رنگ کی دھاریاں بنا رکھی تھی. چھرے ہاتھوں میں تھے۔ اب میں نے دوربین آنکھوں سے ہٹادی، کیونکہ وہ خاصے قریب آ رہے تھے..

فرائیڈے اتنا خوفزدہ ہوا کہ کیبن کے پیچھے بھاگ گیا۔ اب توپ کا کمال دکھانے کا وقت آ گیا تھا!

میں نے جلتی ہوئی آگ میں سے ایک لمبی شاخ اٹھائی اور بارود کو دکھا دی.. بارود کو آگ لگنے کی دیر تھی، کہ ایسا زبردست دھا کہ ہوا کہ سارا جزیزہ کانپ گیا۔ جیسے آتش فشاں پہاڑ پھٹ گیا ہو!

آدم خوروں کی پہلی قطار کے پرخچے اڑ گئے۔ ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ سکا۔

میں نے فرائیڈے کی طرف دیکھا، وہ اوندھے منہ لیٹے کانپ رہا تھا۔ میں نے بہت تیزی سے توپ میں پھر بارود بھرا۔ توپ کو آگ لگائی اور پھر قیامت خیز دھما کہ ہوا.. اور دوسری قطار کے سارے آدم خوروں کے لوتھڑے ہوا میں بکھر گئے۔

میں نے توپ کو تیسری بار بھرا۔ آدم خوروں کی طرف دیکھا۔ وہ آدھے سے زیادہ مر چکے تھے۔ باقی بوکھلائے ہوئے تھے۔ وہ تیر تک چلانا بھول گئے تھے اور ان میں سے کچھ سمندر کی طرف بھاگ رہے تھے۔

میں نے توپ کو آگ دکھا دی. وہ آدم خور جو کھڑے تھے، وہ بھی ہوا میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پھیل گئے۔ بھاگنے والے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور وہ جو کشتیوں تک پہنچے تھے، وہ حیران کن تیزی کے ساتھ چپو چلاتے سمندر میں دور تک اتر گئے ۔ اب وہاں ایک بھی آدم خور باقی نہ رہا تھا۔

کانپتے اور لرزتے ہوئے فرائیڈے کو میں نے زمین سے اٹھایا۔ وہ توپ کی طرف اشارہ کر کے عجیب لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
”ماسٹر آخر یہ کیا چیز ہے… موت کی دیوی….؟“
میں ہنس پڑا اور اسے تسلی دی کہ اب وہ آدم خور یہاں کبھی نہیں آئیں گے، وہ بے اختیار کہنے لگا۔
’’ماسٹر اس توپ سے تو آدم خوروں کے جزیرے کو فتح کیا جا سکتا ہے۔‘‘

سامنے میدان جنگ کا سا نقشہ تھا۔ آدم خوروں کی لاشوں کے ٹکڑے ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ کوئی بھی ایسی لاش نہیں تھی جو صحیح و سالم ہو..

میں نے فرائیڈے سے پوچھا ۔’’کیا تم اپنے جزیرے پر واپس جانا چاہتے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا، ’’ماسٹر، اب میرا وہاں کون ہے، وہاں جا کر میں کیا کروں گا..؟ میں اب آدم خوروں کی زندگی بسر کرنا نہیں چاہتا.. اب تو میں کسی بڑے شہر جا کر اپنی روزی کمانا چاہتا ہوں..‘‘
میں نے اس سے وعدہ کیا، ”اگر ہم جزیرے سے نکلنے میں کامیا ب ہوگئے، تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھوں گا۔‘‘
فرائیڈے نے سچے دل سے کہا۔ ”ماسٹر ، میں تمام عمر آپ کی خدمت کروں گا۔‘‘
میں نے اسے کہا.. ”اب ہمارے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کشتی مکمل کر کے جتنی جلدی ہو ، اس جزیرے سے نکل جائیں.. خدا نے چاہا تو ہم ایک نہ ایک دن ٹرینیڈیڈ کے ساحل پر ضرور پہنچیں گے.“

اس کے بعد ہم نے توپ کو اچھی طرح صاف کیا. جو بارود بچ گیا تھا، اسے محفوظ کر لیا۔ اس رات ہم چین کی نیند سوئے۔

دوسرے دن سے ہم نے پھر پوری محنت سے کشتی بنانی شروع کر دی۔ میرا اب اس جزیرے میں ایک پل بھی دل نہیں لگتا تھا ۔ شام تک کام کیا تو فرائیڈے کہنے لگا، ”ماسٹر اب چند دنوں میں کشتی مکمل ہو جائے گی اور ہم اس جزیرے کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں گے…‘‘

بےسہارا

میں بہت اداس رہنے لگا..
اس جزیرے میں میری جوانی بڑھاپے میں بدل گئی تھی.. میں نے سمندری جہازوں کے غرق ہونے کی کئی کہانیاں پڑھی تھیں. ایسے لوگوں کی داستانیں بھی میری نظر سے گزری تھیں جو جہاز کی تباہی کے بعد کسی ویران جزیرے میں جا نکلے تھے، لیکن پھر کسی جہاز نے انہیں اٹھایا اور ان کی دنیا میں واپس پہنچا دیا، لیکن میرے ساتھ جو کچھ ہواتھا، وہ اپنی جگہ ایک اکیلی مثال تھی اور ناقابلِ یقین واقعہ تھا!

ان طویل برسوں میں کوئی جہاز ادھر نہ آیا تھا، اب ساری امیدیں اس بڑی کشتی کے ساتھ وابستہ تھیں، جسے ہم بنا رہے تھے..

ہم سارا دن اس کشتی پر کام کرنے لگے۔ فرائیڈے کی ہمت اور محنت کی میں داد دیتا ہوں کہ اس نے کشتی بنانے میں میرا پورا ہاتھ بٹایا بلکہ مجھ سے بھی زیادہ محنت کی. ہم نے ضرورت کی ساری چیزیں اکٹھی کیں۔ لکڑی کے ایک بڑے ڈرم کو پانی سے بھرا۔ روٹی اور گوشت کے ٹکڑوں سے ایک صندوق بھر لیا۔ غرضیکہ ایک لمبے سمندری سفر میں ہمیں جس چیز کی بھی ضرورت پڑ سکتی تھی ، ہم نے کشتی میں جمع کر دی ۔

چونکہ بارشوں اور سمندر میں طوفان کا موسم شروع ہونے والا تھا، اس لئے ہم نے اس موسم کے ختم ہونے تک جزیرے میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا….
….اور پھر ایک دن ایک کشتی ہمارے جزیرے کے ساحل کی طرف آتی دکھائی دی… میں نے پستول نکال لیا اور مقابلے کی تیاری کرنے لگا..

کشتی میں آدم خور سوار تھے۔ کشتی ساحل پر رکی اور پھر ایک آدم خور اس میں سے اتر کر بھاگتا ہوا ہماری طرف آیا.. فرائیڈے نے اسے پہچان لیا اور کہا ”یہ میرے باپ کا ایک وفادار ساتھی ہے۔‘‘

وہ آدم خور میرے پاس آ کر قدموں میں یوں گر گیا، جیسے مجھے سجدہ کر رہا ہو. میں نے اسے اٹھایا اور پوچھا کہ وہ کیسے آیا ہے۔ اس نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا، ’’ظالم سردار نے اس عبرت ناک شکست کے بعد ان سب لوگوں کو قید کر لیا ہے، جو فر ائیڈے اور اس کے باپ کے وفادار ہیں.. اس نے ان کے بچوں اور عورتوں کو بھی قیدی بنا لیا ہے اور پورے چاند کی رات کو وہ سب کی قربانی دینے والا ہے.. میں بڑی مشکل سے جان بچا کر یہاں تک پہنچا ہوں.. ہماری اور ہمارے بچوں کی جان بچاؤ.. ظالم سردار سے ہمیں نجات دلوا دو۔‘‘
جب میں نے اس سے پوچھا کہ میں کس طرح ان کی مدد کر سکتا ہوں ، تو اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا، ’’تم جادوگر ہو.. تمہارے پاس آگ برسانے والا جادو کا پہاڑ ہے.. اسے لے کر ہمارے جزیرے کو فتح کر لو.. سردار کو ختم کر دو۔ ہم ساری عمر تمہارا احسان نہیں بھولیں گے.. دعائیں دیں گے.. ورنہ وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کر کے بھون کر کھا جاۓ گا۔‘‘

میں نے فرائیڈے سے پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چا ہیے، تو اس نے کہا، ’’ماسٹر، یہ میرے والد کے سچے اور وفادار ساتھی ہیں.. انہوں نے ہمیشہ میرے باپ کا ساتھ دیا۔ اب میں بھی ان کا ساتھ دوں گا.. آپ مجھے اجازت دیں کہ میں یہ توپ کشتی پر رکھ کر جزیرے میں جا کر ظالم سردار کو ختم کر دوں!“
میں نے جواب دیا، ’’توپ چلانا تمہارے اکیلے کے بس کا روگ نہیں، میں تمہاری زندگی خطرے میں نہیں ڈالوں گا.. میں تمہارے وفادار قبیلے کی مدد کے لئے خود تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘

فرائیڈے اور وہ آدم خور میرے فیصلے پر بہت خوش ہوۓ!!

اس آ دم خور کو مدد کا پورا یقین دلا کر ہم نے واپس بھجوا دیا… اب ہمیں ایک بار پھر فرائیڈے کے جزیرے پر جانا تھا…

(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close