فلسطین پر بدترین فضائی بمباری، الرمال کا علاقہ مکمل تباہ

ویب ڈیسک

منہدم عمارتیں، تباہ شدہ انفراسٹرکچر اور ہر طرف ملبے کے ڈھیر۔۔ اسرائیل کی بمباری نے غزہ شہر میں الرمال کے علاقے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے الرمال پر بمباری نے دیواروں، اپارٹمنٹس اور بلند و بالا عمارتوں کی چھتوں کو اُڑا کر رکھ دیا ہے۔ فٹ پاتھوں پر لگے درخت گر چکے ہیں، جبکہ سڑکیں بھی اُکھڑی ہوئی ہیں۔ مساجد اور یونیورسٹی کی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور غزہ کی اہم ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی اور بار ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں کے دفاتر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے

غزہ کی پٹی میں وزارت صحت کے انڈر سیکرٹری یوسف ابو الریش نے بدھ کو کہا کہ پٹی میں تمام ہسپتالوں کے بستر بھر گئے ہیں

دوسری طرف فلسطینی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں میں سے کم از کم 60 فیصد خواتین اور بچے تھے

وزارت صحت نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 22 فلسطینی خاندانوں کو اجتماعی طور پر شہید کیا گیا

انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیمیں ایسی راہداریاں بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں جن کے ذریعے غزہ کے لوگوں کے لیے امداد پہنچائی جا سکے

یہ تنظیمیں خبردار کر رہی ہیں کہ اسپتالوں میں گنجائش سے زیادہ زخمی ہیں اور اب اسپتالوں میں ادویات اور دوسرا ضروری طبی سامان ختم ہوتا جا رہا ہے

اسرائیل نے غزہ کے محاصرے کے دوران غذائی اشیا، ایندھن اور ادویات کی فراہمی بھی روک دی ہے

غزہ سے نکلنے کے لیے قائم تمام سرحدی گزر گاہیں بند ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی فورسز کے حملوں کا سامنا کرنے والے اس علاقے سے نکلنے کا واحد راستہ مصر کی سرحد پر قائم گزر گاہ تھی۔ لیکن یہ گزر گاہ بھی بند کر دی گئی ہے

مصر اور غزہ کے درمیان واحد راستےکو اس وقت بند کیاگیا جب سرحدی کراسنگ کے نزدیک کا علاقہ فضائی حملوں کا نشانہ بنا

غزہ میں امدادی کاموں میں مصروف رضا کاروں کا کہنا ہے کہ منہدم عمارتوں میں اب بھی بڑی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں

امدادی رضا کاروں کے مطابق ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے ضروری سامان اور ایمبولینس گاڑیاں متاثرہ علاقے میں نہیں پہنچ پا رہیں

اسرائیل نے 2021 کے حملے میں بھی الرمال کو نشانہ بنایا تھا، جو حماس کی حکومتی وزارتوں کا مرکز ہے تاہم اس طرح حملہ نہیں کیا تھا۔
فلسطینی تاجر علی الحیاک نے بتایا ”اسرائیل نے ہر چیز کا مرکز تباہ کر دیا ہے۔ وہ ہمیں توڑ رہے ہیں“

الرمال کی رہائشی تیس سالہ سمن اشور جو دھماکوں کی گرج سن رہی تھیں، نے اپنے پیغام میں لکھا ”یہ آوازیں مختلف ہیں، یہ بدلہ لینے کی آواز ہے“

رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے وارننگ میزائل فائر کیے بغیر عمارتوں کو نشانہ بنایا۔ شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے

غزہ کے صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ فضائی حملوں میں 800 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کی پانی کی سپلائی اور بجلی بھی منقطع کر دی ہے، جس سے علاقے کی پہلے سے ناگفتہ بہ انسانی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے

زیادہ تر فلسطینی شہری انخلاء سے قاصر ہیں، کیونکہ اسرائیل اور مصر نے غزہ پٹی کی سرحدوں کو سختی سے کنٹرول کر رکھا ہے اور کسی کو باہر جانے نہیں دیا۔ اقوام متحدہ کی پناہ گاہیں تیزی سے بھر رہی ہیں

دوسری جانب مصر غزہ کی پٹی سے اپنے جزیرہ نما خطے سینائی میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی آمد روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے

مصر کے دو سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے نے مصر میں خطرے کی گھنٹی بجادی ہے جب کہ اس اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ سے شہریوں کو جنوب مغرب میں واقع سینائی جزیرے کی جانب بھاگنے پر مجبور کرنے کے بجائے محفوظ راستہ فراہم کرے

سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ مصری فوجی طیاروں نے رات بھر پروازیں جاری رکھیں جس کے بعد بدھ کی صبح رفح بارڈر کراسنگ بند رہی

سینا فاؤنڈیشن فار ہیومن رائٹس کے احمد سالم نے کہا کہ فوج نے سرحد کے قریب نئی چوکیاں بھی سنبھال لی ہیں جہاں سے علاقے کی نگرانی کے لیے گشت کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ غزہ کے 23 لاکھ باشندوں کے لیے رفح واحد ممکنہ کراسنگ پوائنٹ ہے، جب کہ باقی گنجان آباد غزہ سمندر سے گھرا ہوا ہے اور غزہ کا مکمل محاصرہ کرنے والے اسرائیل نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ زمینی حملہ کر سکتا ہے

مصر اور اسرائیل کی جانب سے نافذ کردہ ناکہ بندی کے تحت غزہ کے اندر آنے اور وہاں سے باہر جانے والے لوگوں اور سامان کی آمدورفت کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے

مصر اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے والا پہلا عرب ملک ہے، اس نے غزہ میں گزشتہ تنازعات کے دوران اسرائیل اور فلسطینی دھڑوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے اور موجودہ جھڑپوں میں مزید اضافے کو روکنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا ہے

حماس کے زیر انتظام وزارت داخلہ نے کہا کہ پیر اور منگل کے روز ہونے والی بمباری میں رفح کراسنگ پر فلسطینی جانب داخلی دروازے کو نشانہ بنایا، مصری ذرائع نے بتایا کہ کراسنگ کو مصر کی جانب سے بھی بند کر دیا گیا ہے اور غزہ جانے کی منصوبہ بندی کرنے والے فلسطینی شمالی سینائی کے مرکزی شہر العریش کی طرف چلے گئے

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اسرائیل اب ماضی کی طرح حماس کو پسپا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسے تباہ کرنے کے درپے ہے

غزہ کی وزارت داخلہ کے ترجمان ایاد بوزوم نے کہا ’اس کے اختتام پر تعمیرِ نو کے لیے بھی کچھ نہیں بچے گا۔ یہاں رہنا ناممکن ہو جائے گا۔‘

اپنے تباہ ہونے والے گھر کے ملبے کے درمیان کھڑے ساٹھ سالہ عیسیٰ ابو سلیم نے روتے ہوئے کہا ”میرا پورا گھر کھو گیا ہے۔۔ سب سے خوبصورت علاقہ، انہوں نے اسے تباہ کر دیا“

رام اللہ میں رہنے والے باون سالہ کافی فروش فرح السعدی نے کہا ”میری پوری زندگی، میں نے اسرائیل کو ہمیں مارتے، ہماری زمینوں پر قبضہ کرتے اور ہمارے بچوں کو گرفتار کرتے دیکھا ہے۔“

اسرائیلی فوج نے غزہ کے قریب اور لبنان کے ساتھ شمالی سرحد پر 3 لاکھ ریزرو فوجیوں اور بڑے پیمانے پر ٹینک اور دیگر بھاری ہتھیاروں کو طلب کیا ہے

نادیہ، جو اپنا اصلی نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، سوموار کی صبح اپنے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹنے کی آوازوں سے بیدار ہوئیں۔ صبح آٹھ بجے شروع ہونے والی بمباری کسی وقفے کے بغیر رات دیر گئے تک جاری رہی۔ نادیہ کے مطابق ’ایک سیکنڈ کے لیے بھی بمباری بند نہیں ہوئی۔‘

نادیہ، جن کا ایک بیٹا تین ماہ اور دوسرا پانچ سال کا ہے، کے خاندان نے غزہ کی پٹی کے ساحل پر حال ہی میں فلیٹ خریدا تھا۔ اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھیں کیوں کہ ان کے شوہر، جو ایک بین الاقوامی تنظیم میں ڈاکٹر ہیں، زخمیوں کی مدد کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔

ان کے بڑے بیٹے نے سوال کیا: ’کیا ہو رہا ہے؟ یہ کب ختم ہو گا؟‘ نادیہ کہتی ہیں کہ ’اسے پُرسکون کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ اسے بتایا جائے کہ دھماکے کی آواز اصلی دھماکہ ہو جانے کے چند لمحے بعد آتی ہے۔‘

یہ ایسی معلومات ہیں جو شاید کوئی پانچ سال کا بچہ سمجھ نہیں پائے گا لیکن نادیہ کے لیے موجودہ لمحات میں بیٹے کو سمجھانے کا یہ سب سے بہترین طریقہ تھا۔

بمباری کے نتیجے میں ہونے والے دھماکوں کا تاہم گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ اُن کا تین ماہ کا بیٹا کھانا نہیں کھا پا رہا اور اسے دورے پڑ رہے ہیں۔

گذشتہ چند دنوں تک نادیہ نے اپنے گھر کو چھوڑنے سے انکار کیا کیوں کہ ’اس کے ہر کونے سے کوئی یاد جڑی ہے۔‘ لیکن سوموار کی رات ان کو ہمسائیوں کی چلانے کی آواز آئی جو سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے کہہ رہے تھے ’(گھر) خالی کرو، باہر نکلو۔‘

نادیہ چند سیکنڈز تک ہچکچائیں۔ ان سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھ گھر سے کیا لے کر جائیں۔ تب وہ مایوسی اور دہشت کے زیر اثر رو پڑیں۔

اپنے دونوں بچوں کے ساتھ عمارت سے باہر نکلنے پر انھوں نے دیکھا آس پاس کی تمام عمارات زمین بوس ہو چکی تھیں۔

اب وہ اپنے والدین کے گھر محفوظ طریقے سے پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’جب آسمان سے موت برس رہی ہو تو آپ کہاں چھپ سکتے ہیں؟‘

نادیہ اور غزہ کے دیگر رہائشیوں نے بتایا کہ اس بار ہونے والی تباہی کی ماضی سے نظیر نہیں ملتی

اے ایف پی کے فوٹوگرافر اور ایک این جی او نے بتایا کہ اس سے قبل اسرائیل کی جانب سے 24 گھنٹوں میں تیسری بار فضائی حملہ غزہ کی مصر کے ساتھ سرحد رفح کراسنگ پر ہوا

پرانے شہر میں ایک دکان کے مالک احمد کارکاش نے کہا کہ اسرائیلی لوگ عربوں سے ڈرتے ہیں اور عرب یہودیوں سے ڈرتے ہیں، ہر کوئی ایک دوسرے سے ڈرتا ہے

حماس کے ایک سرکاری اہلکار نے بدھ کے روز بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر رات گئے سینکڑوں فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے

حکومت کے میڈیا آفس کے سربراہ سلامہ معروف نے اے ایف پی کو بتایا کہ درجنوں رہائشی عمارتیں، فیکٹریاں، مساجد اور دکانیں متاثر ہوئیں

غزہ شہر میں سڑکوں پر جا بجا ملبے کا ڈھیر نظر آتا ہے اور ہر سو اسرائیلی بمباری سے ہونے والی تباہی کے آثار ہیں۔

مازن محمد اور ان کا خاندان اپنے اپارٹمنٹ کے گراؤنڈ فلور پر سویا ہوا تھا کہ انہیں اردگرد دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔

اگلے دن جب وہ بیدار ہوئے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا اور کچھ پہچان میں نہیں آتا تھا، 38 سالہ مازن محمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمیں ایسا لگا جیسے ہم کسی اجنبی شہر میں ہیں اور اس شہر میں شاید زندہ بچ جانے والی صرف ہم ہی ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 2 لاکھ 60 ہزار سے زیادہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ فلسطینیوں پر اسرائیل کی فضائی، زمینی اور سمندر سے بمباری جاری ہے

او سی ایچ اے نے فلسطینی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بمباری نے 1ہزار سے زائد مکانات کو تباہ کر دیا اور 560 کو اس قدر شدید نقصان پہنچا ہے کہ وہ ناقابل رہائش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بے گھر ہونے والوں میں سے تقریباً ایک لاکھ 75 ہزار افراد نے فلسطینی پناہ گزینوں کی حمایت کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے زیر انتظام چلنے والے 88 اسکولوں میں پناہ حاصل کی ہے

انہوں نے بتایا کہ 14 ہزار 500 سے زائد دیگر افراد دوسرے 12 سرکاری اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ 74ہزار افراد کی جانب سے قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ رہنے یا گرجا گھروں اور دیگر سہولیات میں پناہ لینے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ غزہ میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی یہ تعداد 2014 میں 50 دن تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد بے گھر ہونے والے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد کی نمائندگی کرتی ہے

او سی ایچ اے نے خبردار کیا کہ بے گھر نہ ہونے والے افراد کے لیے بنیادی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے

اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے، خوراک، پانی، ایندھن اور بجلی منقطع کر دی ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ اس اسرائیلی اقدام سے پہلے سے ہی سنگین انسانی صورتحال مزید ابتر ہو جائے گی

اسرائیلی جارحیت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کی حمایت کرنے والے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کو بھی یہ اپیل کرنی پڑ گئی ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات سے گریز کرے اور بھاگنے کی کوشش کرنے والوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر محفوظ راستے دے

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ ایسے محاصرے بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ممنوع ہیں

اقوام متحدہ نے کہا کہ غزہ کے اندر ایک لاکھ 87 ہزار 500 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close