کابل : افغانستان کے اکثریتی علاقوں پر طالبان کے قبضے کے بعد اب وہ کابل سے محض چالیس کلو میٹر دور ہیں. اطلاعات ہیں کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر افغان صدر اشرف غنی استعفیٰ دے کر اہل خانہ سمیت بیرون ملک فرار ہونے ہونے کی تیاری کر رہے ہیں
بھارتی نشریاتی ادارے نیوز 18 نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے بعد وہ کسی تیسرے ملک اہل خانہ سمیت منتقل ہوجائیں گے
نیوز18 کا دعویٰ ہے کہ یہ انکشاف صدر اشرف غنی کے ایک اہم اور قریبی ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیا ہے۔ اشرف غنی جلد مستعفی ہونے کا باضابطہ اعلان کریں گے
ذرائع نے نیوز18 کو یہ بھی بتایا کہ صدر اشرف غنی کا حال ہی میں آنے والا وڈیو پیغام گزشتہ شب رکارڈ کیا گیا تھا اس لیے اس پیغام میں استعفی کا اعلان نہیں تاہم صدر سنجیدگی سے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں
تاہم ایرانی طلوع نیوز کے مطابق صدر اشرف غنی نے منظر عام پر آنے والے رڈیو پیغام میں ’’حالات قابو میں ہیں‘‘ کا دعویٰ کرتے ہوئے عہد کیا ہے وہ افغانستان میں مزید جنگ اور خوں ریزی نہیں ہونے دیں گے
لیکن ایک اور ایرانی خبر ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر غور شروع کر دیا ہے
ایرانی خبر ایجنسی کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے چند ہفتوں کی جنگ بندی کے لیے صدارت سے استعفیٰ دیا جا سکتا ہے
افغان صدر اشرف غنی کا افغان عوام کے نام رکارڈڈ پیغام سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان عدم استحکام کے شدید خطرے میں ہے
انہوں نے کہا ہے کہ قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ مزید عدم استحکام کو روکوں گا، افغان سیکیورٹی و دفاعی افواج کو دوبارہ متحرک کرنا ترجیح ہے
افغان صدر اشرف غنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے تیز رفتار مشاورت جاری ہے، افغانستان میں قتل و غارت گری اور عوامی املاک کی تباہی کی اجازت نہیں دوں گا
واضح رہے کہ صدر اشرف غنی کے مستعفی ہونے کی خبریں اس وقت آئی ہیں جب طالبان جنگجو افغان دارالحکومت کابل اور امریکی سفارت خانے سے محض چالءس کلومیٹر کی دوری پر ہیں
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت پہلے بھی متنازع ہو گئی تھی، اس سے پہلے عبداللہ عبداللہ نے بھی بطور صدر حلف اٹھایا تھا، حامد کرزئی نے دونوں میں معاہدہ کروایا تھا جس میں امن عمل عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں کمیشن کے سپرد کیا گیا تھا، افغانستان کی سیاسی قیادت اشرف غنی حکومت پر شک کررہی ہے، رشید دوستم اور استاد عطاء کو شمال میں شکوہ ہے کہ مرکز سے فوج کو نہ لڑنے کے احکامات ملے تھے. اسماعیل خان جیسی بڑی شخصیت نے بھی لڑنے کے بجائے طالبان کے سامنے سرینڈر ہونے کو ترجیح دے دی، اشرف غنی کسی بڑے گیم کا حصہ ہیں یا ان کی حکومت کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے.