پائی جان میں تے مذاک کر رہیا سی

وسعت ﷲ خان

بی بی سی میں ’’رپورٹنگ ان ہوسٹائل انوائرنمنٹ‘‘ (کشیدہ حالات میں رپورٹنگ کے گُر) نامی کورس کے دوران ایک ریٹائرڈ ایس اے ایس کمانڈو نے بطور انسٹرکٹر ہمارے ساتھ کچھ وقت گذارا۔

اس کا کہنا تھا کہ امریکیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیں بس ایک مشکل پیش آتی ہے۔ وہ دماغ کے بجائے بازو سے سوچتے ہیں اور جہاں چمٹے سے کام نکل سکتا ہو وہاں  ہتھوڑا دے مارتے ہیں۔ اس عادت سے فوری مطلوبہ نتائج تو برآمد ہو جاتے ہیں مگر کچھ نئے حل طلب مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔

امریکیوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ بے پناہ طاقت ور ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر حالت میں اسے استعمال کیا جائے۔بلکہ کچھ ایسا کیا جائے کہ استعمال کی نوبت آنے سے پہلے پہلے حریف کو سمجھ میں آجائے کہ پنگا لینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔

جب میں نے تنہائی میں اس انسٹرکٹر کی باتوں پر دھیان دینا شروع کیا تو چغد پن کا ایک جہان کھلتا چلا گیا۔

امریکا نے چھ اور نو اگست انیس سو پینتالیس کو جاپان پر یکے بعد دیگرے یہ سوچ کر دو ایٹم بم دے مارے کہ آج کے بعد پوری دنیا اس کے آگے با ادب باملاحظہ ہوشیار ہو جائے گی۔ مگر اس چھچور پن کا الٹا اثر ہوا۔ جس اسٹالن کو دراصل ٹرومین دبکانا چاہتا تھا وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا اور جاپان پر بم گرائی کے ٹھیک چار برس بعد انتیس اگست انیس سو انچاس کو پہلا ایٹمی تجربہ کر کے مغربی نظام سقے کی چار دن کی برتری کو برابر کر دیا۔

چلیے امریکا اور سوویت یونین کی سرد جنگ اور مقابلے بازی تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین نے اسٹالن گراڈ سے برلن تک اپنی تیز رفتار عسکری فتوحات کے سبب امریکا کو ہٹلر کے حتمی زوال کا مکمل کریڈٹ لینے سے محروم کر دیا اور خود کو اگلے چالیس برس کے لیے امریکا کا عالمی ہم پلہ ثابت کیے رکھا۔

مگر عوامی جمہوریہ چین اور امریکا کا تو دور دور تک کوئی موازنہ بنتا ہی نہ تھا۔کیمونسٹ چائنا کو انقلاب کے بعد کے اگلے بیس برس بھی اپنی اقتصادی و سیاسی بقا اور بین الاقوامی شناخت کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ مگر امریکا نے اس ترقی پذیر چین سے بھی اس قدر چھیڑ خوانی کی اور اس کی عالمی تنہائی کا اتنا سفارتی استحصال کیا کہ چین جیسی کمزور طاقت بھی طیشیا گئی اور اکتوبر انیس سو چونسٹھ میں پہلا ایٹمی دھماکا کرکے بین الاقوامی تھڑے پر ’’یہ لے کمینے‘‘ کہتے ہوئے اکا پھینک دیا۔

اس کا فائدہ یہ ہوا کہ امریکا نے پہلی بار چین کو مسخرے پن کی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے سنجیدگی سے لینا شروع کیا اور پھر اتنی سنجیدگی سے لیا کہ دھماکے کے سات برس بعد ہی نو جولائی انیس سو اکہتر کو ہنری کسنجر خود کو خود ہی مدعو کروا کے راولپنڈی سے بیجنگ جا پہنچا اور اگلے برس صدر رچرڈ نکسن عظیم عوامی ہال میں ماؤزے تنگ کے دائیں بازو بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا، آپ جانتے ہی ہوں گے۔ (آج کل امریکا پھر چین کو خطرہ تصور کر کے ’’خود حسدی‘‘ میں مبتلا ہے.)

دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے اپنی فوجی کمک کے ذریعے جنگ کا پانسہ جس طرح مغربی اتحادیوں کے حق میں پلٹا اور مارشل پلان کے ذریعے جس طرح تباہ حال اتحادی معیشتوں کو تیزی سے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی اور ایٹم بم پھینک کر جس طرح جاپان سے ہتھیار ڈلوائے۔ اس کے بعد ہر بین الاقوامی گلیارے میں امریکا نے کالر اونچے کر کے بطور ’’بھائی‘‘ گھومنا شروع کر دیا۔ ’’اپن کو نہیں جانتا بے، اپن امریکا ہے امریکا بھڑو ، جس نے ہٹلر ، ٹکلے مسولینی اور ٹوجو کو لٹالا تھا رے..‘‘

اسی نشے میں اس نے ویتنامیوں کے ہاتھوں فرانس کی ذلت آمیز نوآبادیاتی شکست کا بدلہ بنا کسی کے کہے اپنے گلے میں یہ سوچ کر ڈال لیا کہ یہ سالا چار فٹ کا بھوکا ننگا ابلے چاول چٹنی کھانے والا  چپٹا اپن کے آگے کتنے سیکنڈ ٹھہرے گا۔مگر امریکا کے لیے ویتنام آ بیل مجھے مار ثابت ہوا۔

ننگے پیر ڈھائی پسلی والے ویتنامیوں نے سوویت اور چینی کلاشنکوفوں اور بانس کے تیر کمان سے وہ مار لگائی کہ امریکا کو اگلے دس برس تک سمجھ میں ہی نہ آیا کہ اس نے اپنے ساتھ کیا ہاتھ کر لیا ہے.. اور پھر تیس اپریل انیس سو پچھتر کو دنیا نے  نظارہ دیکھا کہ سائیگون کے امریکی سفارت خانے کی چھت پر سے جو آخری ہیلی کاپٹر اڑا اس کے آہنی پیڈوں سے بھی لوگ لٹکے ہوئے تھے۔ ساری سپرپاوریت برابر ہو گئی۔ بقول شخصے چمار نے چوہدری کی تشریف دوڑا دوڑا کے لال کر دی۔

مگر چوہدری نے یہ کہتے ہوئے پھر دھوتی جھاڑ کر باندھ لی کہ ’’کی ہویا ، کجھ نہیں ہویا..‘‘ آج  دنیا کہہ رہی ہے کابل دوسرا سائیگون ہے اور چوہدری پھر تہبند کے دونوں سرے دانتوں میں دبائے بل دے رہا ہے۔

کہاں نائن الیون کے بعد بش نے افغانستان کو اکیسویں صدی کا مہذب ملک بنانے کے مقدس مشن کو مکمل کرنے کے لیے ڈیزی کٹر بموں کے ذریعے پہاڑ ہلا دیے اور طالبان راتوں رات ہوا میں غائب ہوگئے۔ بش نے یہ قسم بھی کھائی کہ اس دہشت گرد ٹولے کو دوبارہ کھڑے ہونے کا موقع کبھی نہیں ملے گا۔

اور ٹھیک بیس برس بعد وہی امریکا دو ٹریلین ڈالر اور ساڑھے تین ہزار سپاہیوں کے بلیدان کے بعد اس ’’دہشت گرد ٹولے‘‘ کے آمنے سامنے بیٹھ کر مطالبہ کر رہا تھا کہ بس ہمیں عزت سے نکل جانے دو۔ باقی تم جانو اور افغانستان جانے۔

ایک ہفتے پہلے تک جو بائیڈن کہہ رہے تھے کہ کابل میں طالبان فی الحال داخل ہونے کا رسک نہیں لیں گے اور چھ دن بعد امریکی سفارت خانہ کابل شہر سے ایرپورٹ منتقل ہو گیا۔ مگر شاباش ہے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کو جو آج بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکا کا افغان مشن کامیاب ہے۔

ارے ایک مثال تو رہ ہی گئی۔ کیوبا امریکا سے محض ستر میل کے فاصلے پر ایستادہ ہے۔ باسٹھ برس سے امریکا اس لوہے کے چنے کو جبڑوں میں دبانا چاہ رہا ہے۔ مگر چھوٹا سا کیوبا آج بھی دیو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے۔

گویا جس نے بھی امریکا پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا اسے دوبارہ آنکھیں کھولنا نصیب نہیں ہوا۔ اور جس بھی قوم ، ملک یا گروہ نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنج کیا امریکا نے آخر میں اسے بس ایک ہی بات کہی ’’پائی جان میں تے مذاک کر رہیا سی ، تسی تے سدھے ہی ہو گئے ، لؤ دسو ، ہا ہا ہا ہا…‘‘

نوٹ: یہ کالم ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا، ادارے کا اس کے مندرجات وسعت ﷲ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

یہ  بھی پڑھئیے: 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close