ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ ایک کروڑ اسی لاکھ افراد اس موذی مرض کا شکار بنتے ہیں، جن میں سے آدھے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، جبکہ 1970ع کی دہائی کے بعد سے اس مرض کے علاج معالجے کے طریقوں میں کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔ ہم تاریخ کے ایک ایسے زمانے میں جینے پر ناز کرتے ہیں جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بے مثال ترقی کی منازل طے کرلی ہیں لیکن پھر بھی آج جسم میں پھیلنے والے کینسر کے لیے ٹھوس طریقہ علاج اور ادویات دستیاب نہیں ہیں
ڈاکٹر عذرہ رضا اپنی انقلابی تصنیف The First Cell: And the Human Costs of Pursuing Cancer to the Last میں کہتی ہیں کہ اب کینسر پر تحقیق کے روایتی طریقوں کو بدلنے کا وقت آگیا ہے
گزشتہ پچاس برسوں کے دوران کینسر کا علاج کچھ تبدیلیوں کے ساتھ سرجری، کیموتھراپی اور ریڈی ایشن پر مشتمل ہی رہا ہے، جو ڈاکٹر عذرہ رضا کے بقول، ‘چیر ڈالو، زہر بھردو اور جلا دو’ کی طرح ہے
اگرچہ چند اقسام کے کینسر، خاص طور پر مردوں میں پروسٹیٹ کینسر اور خواتین میں چھاتی کے کینسر، کے علاج کے روایتی طریقوں کے استعمال میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ پہلے سے بہتر تشخیصی طریقوں کی مدد سے کینسر کی جلد تشخیص ہے، جبکہ پھیپھڑے کے کینسر کے معاملے میں اس کی وجہ تمباکو نوشی میں کمی ہے اور جہاں تک کینسر کی دیگر اقسام کا تعلق ہے تو ایک بار اگر ٹیومر زدہ خلیے پھیلنے شروع ہوجائیں تو اس عضو سے بھی دُور نکل جاتے ہیں جو ان کا نکتہ آغاز ہوتا ہے، جسم میں شکار کا یہ کھیل جاری رہتا ہے جس میں بدقسمتی سے جیت کینسر کی ہوتی ہے
ڈاکٹر عذرا رضا کی کتاب The First Cell میں اس مرض سے متعلق ایک بڑے جھوٹ سے پردہ اٹھایا اور ان حقائق کو سامنے لایا گیا ہے کہ کینسر کی صنعت آپ کو اس بات سے لاعلم رکھنا چاہتی ہے کہ اس میں ملوث بڑی دوا ساز کمپنیاں، ہسپتال، ڈاکٹر اور محققین چوہوں میں کینسر کا علاج ڈھونڈ رہے ہیں اور باندی بنے ادارے انہیں مالی مدد فراہم کرتے ہی
ڈاکٹر عذرہ رضا کے مطابق اکثر مواقع پر کینسر کے ایڈوانس لیول پر مریضوں کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں: یا تو مرض سے مرجاؤ یا پھر علاج سے مرجاؤ، دونوں ہی موت کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود پوری دنیا میں کینسر پر ہونے والی اس روایتی تحقیقی کام پر اربوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں جو اب تک ایسا کوئی طریقہ علاج نہیں کھوج سکا جو کینسر کے مرض سے ‘شفا’ کی راہ ہموار کر سکے
ڈاکٹر عذرہ کے بقول اس وقت جاری 95 فیصد تجرباتی طبّی آزمائشیں (کلینکل ٹرائلز) برائے نام اہمیت رکھتی ہیں اور امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظوری پانے سے قاصر ہیں۔ جو پانچ فیصد کامیاب رہی ہیں وہ بہت تکلیف دہ اور مہنگی ثابت ہوئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ چند ایک مریضوں کی زندگی میں کچھ مہینوں کا اضافہ ہی کر پائیں
ڈاکٹر عذرہ رضا 1984ء سے علم سرطان کے میدان میں کام کر رہی ہیں اور وہ اپنے کینسر کے مریضوں کے ساٹھ ہزار ٹشوز کے نمونوں کا ایک بڑا ہی منفرد اور انمول ذخیرہ رکھتی ہیں۔ زیادہ تر نمونے انہوں نے خود ہی نکالے ہیں اور ان میں سے ایک بھی سیل کسی دوسرے ماہر علم سرطان سے نہیں لیا گیا۔ کینسر کی وجوہات، اس کے علاج اور اس سے نجات کے طریقوں کی تلاش میں جس طرح کوتاہی برتی جا رہی ہے اسے دیکھ کر وہ کافی حیران اور پریشان ہیں، کیونکہ اس تلاش کا محور صرف آخری سیل کو ڈھونڈنا اور اس کا خاتمہ بنا ہوا ہے۔ ٹھیک جس طرح ایک کتا اپنی ہی دُم کے پیچھے گول گول گھومتا رہتا ہے
کینسر کو مات دینے کا یہ ماڈل، چاہے ریسرچ لیبارٹری یا پھر آپریشن تھیٹر میں استعمال ہوتا ہو، انسانی جسم میں تیس کھرب خلیوں میں سے آخری خلیے کی لاحاصل تلاش پر مشتمل ہے۔ جب مریض کی موت ہوجاتی ہے تو تلاش بھی تمام ہوتی ہے
انسانی جسم کا پیچیدہ نظام متاثرہ خلیوں اور ان کی حرکات کو چھپانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ہم انسانی خلیوں کو چھپن چھپائی کے اس کھیل میں زیر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ جب تک جسم کے کسی حصے میں کینسر زدہ خلیے کی موجودگی کا پتا چلتا ہے تب تک اکثر اوقات وہ جسم کے دیگر حصوں تک سفر کرچکا ہوتا ہے۔ تلاش اور علاج پھر سے شروع ہوتا ہے اور ایک بار پھر دردناک موت کے گرداب پر آکر ختم ہوجاتا ہے، جس کسی شخص نے اسے ایک غیر معمولی سفر کہا ہے اس کا سامنا اس ہم سفر کے حیوان سے نہیں ہوا
ڈاکٹر عذرہ رضا نے اپنی تصنیف میں اس ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کرتے ہوئے ذاتی مفادات کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔ کینسر کے بڑھتے کیسوں میں کمی لانے یا کینسر سے نجات کے امکانات کو بڑھانے سے متعلق ان کی تجویز یہ ہے کہ ‘پہلے خلیے’ تک پہنچا جائے: یعنی جو خلیہ سب سے پہلے متاثر ہو اس کا پتا یا اس کے امکانات کا اندازہ لگایا جائے اور پھر اس سے نمٹا جائے۔ وہ مرض سے شفایابی سے زیادہ احتیاطی طریقہ عمل پر زیادہ توجہ دینے کی تجویز دیتی ہیں، کیونکہ اس میں کامیابی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں اور انسانی جسم و روح کو کم نقصان پہنچتا ہے۔ مالی اعتبار سے ان پر کم خرچہ ہوتا ہے اور مریض کو کم تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے
ڈاکٹر عذرہ رضا ڈاؤ میڈیکل کالج (جو اب ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز بن چکا ہے) کراچی کی سند یافتہ طالبہ، سائنسدان، علم سرطان کی ماہر اور ایک
علم سرطان کے ماہر کی بیوہ ہیں، جو بدقسمتی سے اسی موذی مرض کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے جس کا علاج ڈھونڈنے میں وہ مصروف تھے۔ اور اب ڈاکٹر عذرہ رضا نے یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے
اس موذی مرض کے درد سے گزرنے والے اپنے قریبی تعلق کو دنیا سے بانٹتے نہیں، مگر ڈاکٹر عذرہ نے اپنے مرحوم شوہر سمیت ان افراد کے تجربات کو دہرا کر قارئین کو کینسر کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے
اس کتاب میں ان حقیقی اور ڈراؤنی کہانیوں کو اس طرز سے قلمبند کیا ہے کہ جسے پڑھ کر گیبریئل گارسیا مارکیز کا ناول Chronicle of a Death Foretold یاد آجاتا ہے۔ اس ناول میں ایک جگہ لکھا ہے کہ، ‘گاؤں میں سب جانتے ہیں کہ سینٹیاگو نسر مارا جائے گا، فقط ایک وہی یہ بات نہیں جانتا۔ جب اسے پتا چلتا ہے تب تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے‘
ڈاکٹر عذرہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کینسر کے مریض کا علاج ایک مقدس پیشہ اور اخلاقی فریضہ ہے۔ مگر ان کے نزدیک یہ عزم موت کی طرف بڑھتے مریض کی نگہداشت تک ہی محدود نہ ہو بلکہ مریضوں کو کینسر کے ایڈوانس لیول سے بچانے کے لیے بھی اسی عزم کا مظاہرہ کیا جائے۔ وہ کینسر کے علاج کی تلاش میں نام نہاد ‘تخفیفی’ سوچ کو ملحوظ خاطر رکھنے کی شدید مخالفت کرتی ہیں کیونکہ گزشتہ پچاس برسوں سے تحقیق اور علاج کے لیے یہ ایک ناکام طریقہ عمل رہا ہے
ان کا کہنا ہے کہ میں یہ بات 1984ء سے کہتی چلی آ رہی ہوں اور جب تک یہ کسی کے سماعتوں تک نہیں پہنچتی تب تک کہتی رہوں گی کہ آخری خلیے کے پیچھے بھاگنے کے بجائے کینسر خلیے کے ابتدائی آثار کا پتا لگا کر کینسر سے لوگوں کو بچانے میں ہی ہم سب کا مستقبل چھپا ہے۔ ، یہی تو حقیقی جذبہ جہاد ہے’
وہ The Oncology Think Tank (TOTT) کے سائے تلے سائنسی برادری کے تیس بہترین ذہنوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب رہی ہیں، تاکہ وہ انہیں تحقیق میں سوچ کے نئے زاویوں کی تلاش کے لیے ایک ایسے پلیٹ فارم کے لیے راضی کرسکیں جہاں کینسر زدہ پہلے خلیے کے بجائے آخری خلیے کی تلاش کو تحقیق کا اہم مقصد بنایا جاسکے
وہ اور ان کے حامی کینسر سے متعلق تحقیق میں ترجیحات کے حوالے سے سرکاری پالیسی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ ان کے مطالبات یہ ہیں کہ،
▪️کینسر کی جلد تشخیص اور بچاؤ پر تحقیق کے لیے (موجودہ 5 فیصد سے) زیادہ بجٹ مختص کیا جائے
▪️اس سمت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی اور اس میں سائنسی کوششوں کو تیز کیا جائے
▪️اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تعلیم پر بھی زور دیا گیا ہے جو اس مرض کو تمام زاویوں کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد فراہم کر سکے.