اسلام آباد : یہ سوال سر اٹھانے لگا ہے کہ کیا ملک میں سول سروس میں ایک نئی جنگ چھڑنے والی ہے، اس سوال کے یوں سر اٹھانے کے پیچھے موجودہ صورتحال کا بڑا عمل دخل ہے، اس حوالے سے صوبائی سول سروس ایسوسی ایشن نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو غیرمعمولی انتباہ بھی جاری کیا ہے
ملکی تاریخ میں ایسا شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو کہ آل پاکستان صوبائی سول سروس ایسوسی ایشن (اے پی پی سی ایس اے) کی جانب سے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو خبردار کیا گیا ہو کہ ان پر رفقا سمیت غداری کا مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے، جسے ایسوسی ایشن نے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے
واضح رہے کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تمام صوبائی چیف سیکرٹریز کو حال ہی میں لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس اور پولیس سروس آف پاکستان (پی اے ایس اینڈ پی ایس پی) کے افسران طریقہ کار کے خلاف مرکز سے دستبردار ہوجائیں۔ جس پر ردعمل دیتے ہوئے اے پی پی سی ایس اے کوآرڈینیٹر نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو لکھا جسے غیرمعمولی اور بےانتہا متنازعہ سمجھا جارہا ہے
27 اگست کو لکھے گئے خط میں سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا گیا کہ سرکاری مشینری بالخصوص اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبائی چیف سیکرٹریز کے دفاتر پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے افسران کے زیرِ اثر منظم مافیا کے ہیڈ کوارٹرز بن چکے ہیں جو کسی بھی حال میں اپنے گروہ کا تحفظ کرتے ہیں
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی سول ملازمین جو آئین کے تقدس اور بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، ان کے صبر کا پیمانہ آئین کی ہر خلاف ورزی پر لبریز ہورہا ہے، جس کا مرتکب آپ (اسٹیبلشمنٹ ڈویژن) کا دفتر ہو رہا ہے۔ اس مافیا کو ختم کرنے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کیے جائیں گے کیوں کہ یہ مافیا ہر روز آئین کا مذاق اڑا رہا ہے
خط میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ آئین کی خلاف ورزی روکیں اور ماضی کے تمام غیر آئینی اقدامات واپس لیں، ورنہ ہم آپ کے اور آپ کے رفقا کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کرنے اور پاکستان کو نوآبادیاتی دور سے باہر نا نکلنے دینے اور اسے انتظامی وفاقیت کی راہ پر لے جانے پر ہر ممکن اقدامات کریں گے
سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حالیہ خط کا حوالہ دیتے ہوئے ایسوسی ایشن کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے صوبائی حکومتوں کو آئینی ذمہ داریوں سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ آئین پاکستان کے تحت یہ صوبائی خودمختاری اور اتھارٹی کا غلط استعمال ہے کہ صوبے ان کے سامنے جھک جائیں اور اگر اسے نظرانداز کیا گیا تو یہ اتحاد پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے
ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا یہ رویہ وفاق کو ناکام کرنے کی ایک سازش ہے. ایسا کوئی بھی طریقہ کار جو نوآبادیاتی دور کی طرز کا ہو، نہیں مانا جا سکتا، اس پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خبردار کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ رویہ ناقابل قبول ہے اور طاقت کے ساتھ اا کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا
یاد رہے کہ 11 اگست کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تمام صوبائی چیف سیکرٹریز سے رابطہ کیا تھا اور انہیں صوبائی حکومت کی جانب سے پی اے ایس / پی ایس پی افسران کو یک طرفہ طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیجے جانے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا ماننا تھا کہ یہ موجودہ طریقہ کار اور رولز کی خلاف ورزی ہے
صوبوں کو بتایا گیا تھا کہ پی اے ایس / پی ایس پی افسران کے کیسز میں صوبائی حکومت صرف وفاقی حکومت سے درخواست کرسکتی ہے کہ وہ کسی ٹھوس وجہ کی بنیاد پر کسی افسر کی خدمات سے دستبردار ہونا چاہتی ہے، جس کے بعد افسر کے ٹرانسفر کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کرتا ہے۔ صوبوں سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ 1993ع کے بین الصوبائی معاہدے اور رول پر عمل درآمد کریں
سرکاری ذرائع نے اے پی پی سی ایس اے کے خط کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں آل پاکستان سروسز (پی اے ایس/پی ایس پی) کے ارکان پر قواعد و ضوابط کا اطلاق صدر پر ہوتا ہے، جس پر وفاقی یونٹس کا اعتماد ہوتا ہے۔ ذرائع نے وضاحت کی کہ 12ستمبر،1993 کو ایک آئی پی سی جس کی صدارت اس وقت کے نگراں وزیراعظم نے کی تھی، جس میں اصولی طور پر چیف سیکرٹریز کمیٹی کی سفارشات کو منظور کیا گیا تھا۔
اگرچہ بڑے پیمانے پر اس پر عمل درآمد دیکھا گیا لیکن ان فیصلوں پر روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوا. بعد ازاں فروری،2014میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے صوبوں سے مشاورت کے بعد دو ایس آر اوز جاری کیے تھے، جنہیں متعدد عدالتوں میں چیلنج کیا گیا تھا۔ بہرحال اس تمام تر صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبائی سیکریٹریز کے مشترکہ پلیٹ فارم کے مابین اس رسہ کشی کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ باقاعده ایک جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے