واپسی (افسانہ)

مشتاق رسول

مہران کئی برسوں بعد لندن سے ماسٹرز کی ڈگری لے کر وطن واپس آ رہا تھا۔ جہاز کی کھڑکی سے باہر پھیلے بادلوں کے اُس پار وہ بار بار اپنے گاؤں کی مٹی، کھیت، اور بچپن کی یادوں کو محسوس کر رہا تھا۔ اُس کے ذہن کے پردے پر وہی کچے راستے، وہی مٹی کی خوشبو اور وہی چھوٹی سی دنیا ابھر رہی تھی، جہاں وہ اپنی پہچان چھوڑ کر آیا تھا۔

ایئرپورٹ پر اس کا بڑا بھائی منتظر تھا۔ گلے ملنے کے بعد وہ خاموشی سے گاڑی میں سوار ہو گئے۔ گاڑی شہر سے نکل کر گاؤں کی طرف بڑھنے لگی۔ مہران ہر منظر کو آنکھوں میں جذب کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کچھ بھی ویسا نہ تھا، جیسا وہ یادوں میں لے کر آیا تھا۔

جب گاڑی نے مرکزی شاہراہ چھوڑ کر دیہی راستہ اختیار کیا تو مہران چونک گیا۔ جہاں پہلے کھیت ہوتے تھے، وہاں اب سوسائٹیوں کے بورڈ، بلند عمارتیں اور آہنی دروازے نظر آ رہے تھے۔

”ہم کسی نئے راستے سے جا رہے ہیں کیا؟“ اُس نے حیرانی سے پوچھا۔

بھائی نے تلخی سے جواب دیا، ”نہیں، راستہ تو وہی ہے، بس کھیت اجڑ چکے ہیں۔ لوگوں نے زمینیں بیچ ڈالیں، حرص ایسی کہ اپنی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں۔“

راستے میں شاندار بنگلوز، وسیع مسجدیں، اور چمکتی ہوئی سڑکیں مہران کے لیے اجنبی تھیں۔ وہ بچپن کی پہاڑی، ندی اور بارشوں کے بعد بننے والا چھوٹا سا تالاب تلاش کرتا رہا، مگر سب کچھ مٹ چکا تھا۔

”اور ہماری زمینیں؟“ اُس نے آہستہ سے پوچھا۔

”ابا اب تک زندہ ہیں، اسی لیے بچی ہوئی ہیں۔۔ مگر چچازاد دعویٰ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں بیچ دو، ریٹ اچھے مل رہے ہیں۔ ابا انکار کرتے ہیں، کہتے ہیں بزرگوں کی نشانی ہے۔ مگر کب تک؟ شاید ہماری زمینوں کا بھی وہی حال ہو جو دوسروں کا ہوا۔“

گاؤں پہنچ کر مہران نے سکھ کا سانس لیا۔ کم از کم کچھ لوگ، کچھ دیواریں، کچھ درخت ابھی ویسے ہی تھے۔ گھر کی دیواروں پر وقت کی جھریاں تھیں، مگر وہ دیواریں ابھی کھڑی تھیں۔ والد کی آنکھوں میں خوشی چھپی ہوئی تھی، مگر ان کے انداز میں ایک روایتی سختی اب بھی موجود تھی۔

کچھ دن بعد، ایک شام مہران نے دل کی وہ بات کہہ ہی دی، جسے وہ برسوں سے دبائے بیٹھا تھا، ”ابا، میں جس لڑکی سے محبت کرتا ہوں، وہ ہمارے ہی گاؤں کی ہے۔ غریب ہے، مگر ایماندار، باوقار اور تعلیم یافتہ۔ میں اسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“

والد کا چہرہ سخت ہو گیا، ”وہ ہمارے برابر نہیں ہے۔ میں نے تمہارا رشتہ زمیندار خان محمد کی بیٹی سے طے کیا ہے۔ تمہاری عزت، مقام اور خاندان کا نام ہے، یونہی نہیں دے دیں گے اسے کسی گمنام لڑکی کے ہاتھ۔“

مہران کی آواز قدرے بلند ہو گئی، ”تو ہم جو غریبوں سے دکھاوے کی ہمدردی کرتے ہیں، وہ کیا ہے؟ اپنی سیاسی تصویروں میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اپنا کام نکالنے کے لیے ان کے جھونپڑیوں میں چائے پیتے ہیں، مگر جب دل کی بات آئے تو ہمیں اُن کا طبقہ یاد آ جاتا ہے؟“

خاموشی چھا گئی۔ باپ کی ضد روایتوں سے بنی تھی، اور روایتیں کبھی دل کی آواز سے نہیں ہارتی تھیں۔ کچھ ہی مہینوں بعد، مہران کی شادی زمیندار خان محمد کی بیٹی سے ہو گئی۔ شاندار تقریب، سونے کے زیورات، اور بینڈ باجے کی گونج میں مہران کی محبت دفن ہو گئی۔

جس لڑکی سے مہران کو سچا پیار تھا، زہرہ، اس کی شادی ایک نیک، تعلیم یافتہ استاد سے ہو گئی۔ وہ مرد محض شوہر نہیں، ایک رہنما نکلا۔ اُس نے زہرہ کو جینے، سیکھنے اور دنیا کو سمجھنے کا موقع دیا۔ اُس کی صحبت میں زہرہ محض ایک بیوی نہ رہی، بلکہ ایک باوقار انسان بن گئی۔ وہ گاؤں کی لڑکیوں کو پڑھانے لگی، ایک چھوٹا سا اسکول بنایا، اور وہ سب سکھانے لگی جو خود اُس نے سیکھا تھا۔۔ عزت، خودداری، اور تعلیم۔

مہران کے لیے وقت چلتا رہا، مگر دل میں وہی خلا باقی رہا۔ زمیندار کی بیٹی اچھی تھی، خوبصورت بھی، مگر دونوں کے درمیان وہ گہرا تعلق نہ بن سکا جو مہران کی خواہش تھی۔ وہ اکثر خاموش رہنے لگا، کتابوں میں چھپ گیا، یا کسی اجڑی پہاڑی کے کنارے بیٹھ کر خود سے باتیں کرنے لگا۔

ایک دن گاؤں میں ایک تعلیمی فنکشن رکھا گیا۔ مہمانِ خصوصی ایک استاد اور ان کی بیوی تھے، زہرہ اور اس کا شوہر۔ مہران نے زہرہ کو برسوں بعد دیکھا۔ اُس کے چہرے پر وقار تھا، آنکھوں میں اعتماد، اور لبوں پر وہی مسکراہٹ، جو برسوں پہلے صرف اس کے لیے ہوا کرتی تھی۔

زہرہ نے بھی اُسے دیکھا، ایک لمحہ رکا، مگر پھر نگاہیں جھکا لیں۔ وقت نے دونوں کو نئی شناختیں دے دی تھیں، مگر دل کی گہرائی میں کچھ چیزیں وقت کے قابو میں نہیں ہوتیں۔

مہران نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں کے لیے کچھ کرے گا۔ اُس نے زمینیں بیچنے کے بجائے اس کے ایک حصے پر ایک اسکول اور ایک چھوٹی سی لائبریری بنانے کی تجویز دی۔ والد شروع میں ناراض ہوئے، مگر بیماری اور بڑھاپے نے اُن کے رویے کو نرم کر دیا۔ آخرکار وہ مان گئے، ”شاید یہی تمہاری واپسی کا اصل مقصد ہے۔“

سال گزرتے گئے۔ اسکول بن گیا، بچے آنے لگے۔ لائبریری میں کتابیں رکھ دی گئیں۔ زہرہ بھی کبھی کبھار کسی تقریب میں مہمان بنتی، مہران خاموش بیٹھ کر اُسے سنتا، اور دل میں یہ تسلیم کرتا کہ کچھ رشتے اگر پورے ہو جاتے، تو شاید کچھ خواب ادھورے رہ جاتے۔

زندگی چلتی رہی، گاؤں بدلتا رہا، زمینیں بکتی رہیں، اور محبت۔۔۔ وہ کسی کونے میں خاموش ہو گئی، جیسے کسی اجڑے کھیت کی سوکھی مٹی میں دفن کوئی بیج، جو برسوں بعد بھی بارش کی دعا مانگتا ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close