بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے چوالیس سالہ باشندے حارث الدین جب اپنے گھر سے مچھلیاں پکڑنے کے لیے قریبی جھیل کی طرف روانہ ہوئے تو بوندا باندی جاری تھی۔ ان کے پچپن سالہ برادر نسبتی مسلم الدین سکندر بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کا مکمل انحصار ان کے مچھلیوں کے شکار اور فروخت پر تھا، سو انہیں کام کے لیے اُن دنوں میں بھی جانا پڑا تھا جب بارش نو ستمبر کے مقابلے میں زیادہ تیز تھی۔
سکندر دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’جب آسمانی بجلی گری اس وقت حارث کشتی پر اکیلے تھے۔ بجلی گرتے ہی کشتی الٹ گئی اور وہ جھیل میں جا گرے۔‘ ایک رشتہ دار جو اس منظر کو دیکھ رہا تھا اس نے شور مچا دیا۔ ’انہیں ڈھونڈنے کے لیے ہم فوراً جھیل میں اتر گئے۔ پہلے ہمیں لگا کہ وہ زندہ ہیں سو انہیں جلدی سے ہسپتال لے گئے، لیکن ڈاکٹر نے دیکھتے ہی انہیں مردہ قرار دیا۔‘
بائیں جانب سے ان کا سارا جسم جل چکا تھا۔ پورے خاندان کا تنہا پیٹ پالنے والے حارث نے اپنے پیچھے چار بیٹیاں، ایک بیٹا، بیوی اور اپنی اسی سالہ ماں چھوڑی۔
حارث کے ایک اور رشتہ دار عطاءالرحمٰن ذہن پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’اس دن خطرے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ آسمانی بجلی گر سکتی ہے، لیکن اس دن کیا ہمیں تو کبھی بھی آسمانی بجلی سے متعلق پہلے سے کوئی وارننگ نہیں ملی۔‘
خاندان کا مزید ایک فرد اور اپنے گاؤں کے بہت سے دوست ماضی قریب میں آسمانی بجلی کے حادثات میں کھو دینے کے باوجود عطاءالرحمٰن کے بقول مقامی افراد اس بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ جب آسمانی بجلی گرے تو تب وہ کیا کریں۔
اگرچہ آسمانی بجلی پوری دنیا میں گرتی ہے، لیکن بھارت اور جنوبی ایشیا کی دیگر ترقی پذیر معیشتوں کو آسمانی بجلی کے ہاتھوں دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ جانی نقصان کا ممکنہ خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ فصلوں اور مال مویشیوں کے ساتھ لوگوں کا کھلے میدانوں میں رہنا ہے، لیکن آسمانی بجلی کے خطرات کے بارے میں ناقص معلومات اور کم علمی بھی ایک سبب ہے.
سابق فوجی اور بھارت میں آسمانی بجلی گرنے کے حوالے سے مہم (Lightning Resilient India Campaign) کے کنوینئر کرنل سنجے سری واستاوا کہتے ہیں ’آسمانی بجلی کے خطرے سے بچنے کے لیے پہلی چیز کھلے میدان میں نکلنے سے گریز ہے، لیکن اگر آپ پہلے سے باہر ہیں اور بجلی چمکنے کے دوران قریب کوئی پناہ گاہ نہیں، تو کسی نشیبی علاقے میں چھوٹے قد کاٹھ کے گھنے درختوں کی اوٹ تلاش کیجئے۔ البتہ ان کے بہت قریب کھڑے ہونے سے بھی گریز کیجئے۔‘
وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’اونچے درختوں اور پرچم لہرانے والے بانس جیسی الگ تھلگ بلند قامت چیزوں سے گریز کیجئے، کیونکہ آسمانی بجلی ہمیشہ تو نہیں لیکن اکثر و بیشتر متعلقہ جگہ پر موجود سب سے بلند قامت چیز کو نشانہ بنایا کرتی ہے۔‘
اس مہم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 21-2020 کے دوران ایک ہزار 697 افراد آسمانی بجلی گرنے سے ہلاک ہوئے۔ اگرچہ گذشتہ مالی سال کی درج شدہ ایک ہزار 771 اموات کے مقابلے میں یہ تعداد کم ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود بھارت میں دوسری قدرتی آفات کے مقابلے میں آسمانی بجلی سے ہونے والی اموات کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
اس بات کے شواہد دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں کہ بھارت اور دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گرم موسم کے نتیجے میں طوفان برق و باراں جیسے موسم کے شدید اثرات نمایاں ہوتے ہیں اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کی 2015 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق درجہ حرارت میں ایک ڈگری اضافے سے آسمانی بجلی گرنے کا تناسب 12 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
مارچ 2021 میں جیوفزیکل ریسرچ لیٹرز میں شائع ہونے والی ایک دوسری تحقیق نے موسمیاتی تبدیلی اور قطب شمالی میں بڑھتے ہوئے آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں گہرے ربط کی نشان دہی کی۔ اس خطے میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کی تعداد 2010 کے دوران 18 ہزار ریکارڈ کی گئی جبکہ ایک دہائی بعد یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ اس دوران خطے کے درجہ حرارت میں 0.3 سیلسیئس اضافہ ہوا تھا۔
گرج چمک کے دوران خود کو محفوظ کیسے رکھیں، اس کے لیے بہت سادہ سا رہنما اصول ہے لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پا رہا جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ترو واننتاپورم میں واقع لائٹنگ اویئرنس ریسرچ سینٹر (LARC) کے پروگرام ڈائریکٹر گوپا کمار کہتے ہیں: ’لوگوں کی بڑی تعداد اس لیے مر رہی ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ کسی محفوظ پناہ گاہ میں نہیں جاتے بلکہ ان کی اکثریت یہ تک نہیں جانتی کہ محفوظ پناہ گاہ ہوتی کیا ہے۔ جب آسمانی بجلی گرتی ہے اس وقت وہ کسی درخت کے نیچے کھڑے ہوتے ہیں یا کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘
کمار افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلند شرح اموات کے باوجود بھارت کی مرکزی حکومت آسمانی بجلی کو قدرتی آفات میں شمار نہیں کرتی جو ہلاکتوں کے سدباب کے لیے باقاعدہ فنڈز اور توجہ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اگر طوفان کی پیش گوئی اور غیر محفوظ لوگوں تک بروقت اس کی اطلاع پہنچانے کے لیے وسائل خرچ کیے جائیں تو یہ ہلاکتیں کم کی جاسکتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’اگر مرکزی حکومت اسے ایک قدرتی آفت قرار دے تو اس بارے میں زیادہ آگاہی، بہتر حکمت عملی اور تعاون کا راستہ ہموار ہوگا‘
اس صورت حال سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لیے کسی عملی نمونے کی خاطر بھارت کو کہیں اور دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اس کی اپنی بعض ریاستیں بخوبی یہ کام سر انجام دے رہی ہیں۔ ان میں جنوب مشرقی ساحلی ریاست اوڈیشہ بھی شامل ہے جہاں 21-2020 کے دوران کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے میں آسمانی بجلی گرنے کے سب سے زیادہ 1.4 ملین واقعات پیش آئے، جن میں 290 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ممکن ہے ہلاکتوں کی یہ تعداد بہت زیادہ نظر آئے لیکن 18-2017 کے دوران 472 افراد کی موت کے مقابلے میں یہ بہت تیزی سے کم ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اتر پردیش اور بہار جیسی گنجان آباد شمالی ریاستوں کے مقابلے میں یہ نسبتاً کہیں زیادہ بہتر ہے جہاں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات تعداد میں اس سے نصف لیکن ہلاکتوں کی تعداد دگنی ہے۔
اموات میں کمی کا سبب، 1999ع میں سمندری طوفان فانی میں تقریباً دس ہزار افراد کی افسوس ناک ہلاکتوں کے بعد ریاستی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اٹھائے گئے بہترین عملی اقدامات ہیں۔
اس ادارے کے ڈائریکٹر پردیپ کمار جینا کہتے ہیں: ’آپ جانتے ہیں 1999ع ہمارے لیے ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس وقت ہم نے ادارے کی ترقی اور صلاحیتوں میں اضافے کے لیے بھرپور سرمایہ لگایا۔‘
اس کا آغاز ضلعی سطح پر تمام آگ بجھانے والے اداروں کو آگ اور ہر طرح کی آفات میں خدمات مہیا کرنے والے اداروں میں تبدیل کرنے سے ہوا، ان کی خدمات مقامی سطح پر منتقل کر دی گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ سیلاب اور سمندری طوفان کے انتظامات کے دوران ’ایک بھی ہلاکت سے گریز‘ کا نظریہ اپنایا گیا۔
جیسے ہی اوڑیسہ میں سمندری طوفان کے خلاف انتظامات بہتر ہوئے، دیگر قدرتی آفات کے مقابلے میں سب سے زیادہ اموات آسمانی بجلی سے ہونے لگیں جس کے بعد 2015ع میں آسمانی بجلی کو ریاستی سطح پر آفت قرار دے دیا گیا۔ جس کا مطلب تھا کہ ریاست قدرتی آفات کے لیے مختص کیا گیا دس فیصد تک کا بجٹ اس پر خرچ کر سکتی تھی۔
اس ادارے نے دنیا بھر میں موسم کی صورت حال سے پیشگی آگاہ کرنے والے امریکی ادارے ارتھ نیٹ ورکس سے اشتراک کر لیا اور ریاست میں مختلف مقامات پر چھ ایسے آلات نصب کر دئیے جو آسمانی بجلی کے بارے میں تیس سے چالیس منٹ پیشگی خبردار کرتے ہیں۔ جینا کہتے ہیں: ’اپنی کثیر الزاویہ شکل سے یہ ہمیں نہایت درست معلومات فراہم کرتے ہیں کہ اس بیس کلومیٹر کے اندر آسمانی بجلی کے زمین پر گرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔‘
یہی نظام متاثرہ علاقے میں لوگوں کو پیغامات اور موبائل ایپس کے ذریعے خطرات سے آگاہ بھی کرتا ہے، جس کی بدولت وہ بروقت کسی محفوظ اوٹ میں ہو جاتے ہیں۔ مقامی حکام کے ذمے نہ صرف اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ پیغام لوگوں کو موصول ہو گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آسمانی بجلی کے سبب ہونے والی موت کی اطلاع کے بعد یہ معلوم کرنا بھی کہ متعلقہ افراد کو حفاظتی اقدامات سے آگاہ کر دیا گیا تھا یا نہیں۔
سری واستاوا کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک مرکزی حکومت آسمانی بجلی کو قدرتی آفت قرار نہیں دیتی، تب تک ملک بھر میں ایسے اقدامات نہیں اٹھائے جا سکتے۔
انہوں نے کہا: ’باقاعدہ آفت قرار دیئے جانے کے بعد (ہر ریاست میں) قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں کو اسے اپنی منصوبہ بندی میں شامل کرنا ضروری ہو جائے گا۔ (ایسا نہ کر سکنے سے) نہ صرف بھاری تعداد میں انسانی جانوں، جانوروں اور ذرائع معاش کا قتل ہو رہا ہے بلکہ بجلی کا بنیادی ڈھانچہ بھی بری طرح تباہ ہو رہا ہے۔‘
اس عدم مساوات کے سبب پورے بھارت میں لوگ مقامی سطح پر غیر محفوظ حل تلاش کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جھارکھنڈ میں کسانوں نے بانس کی بلند قامت چھڑی کے اوپر بغیر ٹائر بائیسکل کا پہیہ لگا کر کھڑا کر دیا اور نیچے سے اسے ایک تار کے ذریعے زمین کے اندر گاڑ دیا۔ یہ عارضی بندوست تقریباً پندرہ سو روپے (15 پاؤنڈز) کی لاگت سے تیار ہوا۔
سرائیکیلا، جھارکھنڈ میں انڈین ریڈ کراس ورکر دیا شنکر مشرا کہتے ہیں: ’جب بھی آسمانی بجلی چمکے وہ پہیے کے لوہے والے رِنگ کی طرف کھنچی آتی ہے اور پھر تار کے ذریعے زمین دوز ہو جاتی ہے۔ یہ اپنی چوٹی والے سرے کے اردگرد 45 ڈگری (تقریباً 10 فٹ) تک کے علاقے کو محفوظ بناتا ہے۔‘
لیکن ایشیائی ریجنل مینیجر فار ارتھ نیٹ ورکس کمار مارگساہائم کہتے ہیں کہ ’ایسا آلہ درست نہیں (اور) ممکن ہے کہ موت کا سبب بنے۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو