سوات: خیبرپختونخوا میں سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تعلق رکھنے والی شگفتہ ( شناخت چھپانے کے لئے فرضی نام استعمال کیا گیا ہے) ڈیڑھ سال تک آئس کے نشے میں مبتلا رہیں، نشے کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ پاگل ہوجاتیں اور کئی بار انہوں نے خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن خوش قسمتی سے اب وہ ایک نئی زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں
جس طرح دنیا جدت کی طرف جا رہی ہے، اُسی طرح نشہ آور چیزیں بھی نت نئی شکلیں اختیار کر رہی ہیں۔ موجودہ دورمیں آئس نشہ انتہائی تیزی کے ساتھ نوجوانوں میں مقبول ہو رہا ہے. تشویشناک بات یہ ہے کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی اس نشے کی عادی ہو رہی ہیں. کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس نشے کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے
سوات کی بائیس سالہ نوجوان لڑکی شگفتہ کی کہانی بھی انتہائی افسوسناک ہے، جو آئس جیسے خطرناک نشے کا شکار ہوئیں۔ شگفتہ بتاتی ہیں کہ بُری صحبت اور برے دوستوں کی وجہ سے آئس نشے کی لت نے انہیں دنیا سے بیگانہ کردیا تھا
شگفتہ کہتی ہیں ‘میری ایک دوست تھیں، جو مختلف نشہ آور ادویات ، چرس، ہیروئن اور آئس کا ستعمال کرتی تھیں میرے ساتھ اس کی دوستی ہوگئی ،وہ میرے پاس آتی تھی اور مجھ سے آئس استعمال کرنے کا کہتی. کئی بار میں نے منع بھی کیا، لیکن ایک بدقسمت لمحہ ایسا بھی آیا، جب میں اس کی باتوں میں آگئی اور یہ نشہ شروع کردیا’
شگفتہ کے مطابق ”مجھے آئس نشے کی ایسی لت پڑ گئی، کہ تقریباً ڈیڑھ سال تک میں اس میں پوری طرح مبتلا رہی. اس نشے کی وجہ سے میرے رشتہ دار، والدین، مجھ سے کترانے لگے، کئی بار مجھے مارا پیٹا بھی گیا، لیکن نشے کی عادت سے جان چھڑانا مشکل تھا“
شگفتہ کہتی ہیں ”جب مجھے آئس نہیں ملتی تھی تو میں پاگل سی ہوجاتی ، میرے جسم میں درد دوڑنے لگتا تھا، جس کی وجہ سے میں نے کئی بار خودکشی کی کوشش بھی کی“
شگفتہ گزشتہ دو ماہ سے ’ نوے جوند‘ ری ہیب سینٹر میں زیر علاج ہیں، نوے جوند کا معنی ہے نئی زندگی، شگفتہ اب نئی زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں اور کافی حد تک ان کی حالت بہتر ہوچکی ہے
شگفتہ نے بتایا ”ری ہیب سینٹر میں میرا اچھے طریقے سے خیال رکھا جا رہا ہے اور بہتر طریقے سے علاج کیا جا رہا ہے۔ میں یہاں اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہوں، قرآن کریم کی تلاوت کرتی ہوں، بیڈمنٹن کھیلتی ہوں، حتیٰ کہ میں نے یہاں پر سلائی کڑھائی کا کام بھی سیکھ لیا ہے“
ری ہیب سینٹر کے چئیرمین کے مطابق اب تک انہوں نے نو سو سے زائد افراد کا علاج کیا ہے اور انہیں اس نشے سے نجات دلائی ہے، جس میں بہت کم تعداد ایسی ہے، جو دوبارہ نشے کی طرف لوٹی ہو
وی کہتے ہیں ”ہم اپنے سینٹر میں پہلے ادویات کے ذریعے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، بعد میں انہیں نئی زندگی کی طرف راغب کرتے ہیں، جس میں ان کے ساتھ سائیکالوجسٹ مختلف سیشن لیتے ہیں، انہیں کھیلنے کود کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور ان کی سوچ کو یکسر تبدیل کردیتے ہیں“
ری ہیب سینٹر کے چئیرمین ریاض حیران کے مطابق آئیس نشے سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے، ایسے مریضوں کی بحالی پر زیادہ محنت لگتی ہے، کیونکہ وہ زندگی سے مکمل مایوس ہوتے ہیں
ری ہیب سینٹر کی سائیکالوجسٹ حنا زبیر کے مطابق آئس کے نشے میں زیادہ تر مریضوں کو شک کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور دماغی توازن درست نہیں رہتا. آئس کے نشے میں مبتلا افراد کی سوچ منفی ہوجاتی ہے، وہ اپنی فیملی سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں، ہم یہاں پر نفسیاتی علاج کے ساتھ تھیراپی کرتے ہیں اور ان کی منفی سوچ کو مثبت میں تبدیل کرتے ہیں