اکیسویں صدی کے جنگی ہتھیار

عائشہ اقبال

برطانوی فلسفی ہابز کے مطابق دنیا ایک ایسا کھیل کا میدان ہے جس میں تمام شرکا ایک بے لگام، خود غرض اور غیر مہذب مقابلے میں خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ہر ریاست کے لیے جن مفادات کو حاصل کرنا ممکن ہوتا ہے، وہ اپنے مفاد کے علاوہ باقی نتائج کی پروا کیے بغیر حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ریاستیں اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر طاقت کے بغیر زندگی تنہا اور مختصر ہوتی ہے۔

کارل وان کلازوٹس ایک پروشین جرنیل تھا جس کی جنگ کے نفسیاتی اور سیاسی پہلووں پر لکھی گئی کتاب ”آن وار“ آج بھی دنیا کے کئی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہے۔ جنگ کی بابت اس کے نظریے کو اس مقولے میں سمیٹا جا سکتا ہے کہ ”جنگ ایک نئے زاویے سے سیاست ہی کا تسلسل ہے۔“ وہ کہتا ہے کہ جنگ ایک دلچسپ تثلیث ہے جس کی بیرونی ساخت تشدد، نفرت اور دشمنی سے بنی جاتی ہے، جو کہ ایک اندھی اور طاقتور قوت ہوتی ہے۔ دوسری تہہ موقع اور امکان سے بنتی ہے جو کہ تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔

آخر میں لوگوں کو اپنے نظریے کا ماتحت بنایا جاتا ہے جس کا دار و مدار کامیاب پالیسی پر ہوتا ہے۔ گویا جنگ کے دوران ہونے والے عسکری فیصلے سیاسی سمجھ بوجھ سے کیے جاتے ہیں۔ کلازوٹس کے مطابق حالات کی سنگینی اور زمانے کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے جنگ سیاسی، عسکری اور سماجی تینوں طور سے لڑی جا سکتی ہے۔ سیاسی اور سماجی جنگ کی صورت میں دشمن ریاست کی زیادہ سے زیادہ آبادی پر حملہ کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ بہرحال نتیجہ یہ ہے کہ اکثر صورتوں میں جنگ ریاست کی مطلوبہ پالیسی کے نفاذ اور دشمن پر اپنی پسند کی پالیسی مسلط کرنے کا ایک عسکری بہانہ ہوتی ہے۔ کبھی بھی کوئی ریاست محض نفرت میں جنگ نہیں کرتی۔

یونانی بادشاہ پیرہس نے روم کے خلاف ایک خون ریز جنگ جیتنے کے بعد کہا تھا، ”اگر ہم ایک اور جنگ اس قیمت پر جیتے تو ایسی فتح تو شکست سے بدتر ہو گی“ ۔ اکیسویں صدی میں ایٹم بم کی موجودگی میں جنگ کے لیے جو جانی، مالی اور سماجی قیمت ادا کرنا پڑے گی اس کو دیکھتے ہوئے ریاستیں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ روایتی جنگ لڑنا نہ صرف تقریباً ناممکن ہے، بلکہ عین حماقت ہے۔ آج کے زمانے میں روایتی جنگ میں فتح کے باوجود فاتح اتنا نقصان اٹھائے گا کہ اسے دنیا کے ساتھ دوبارہ ملنے میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔

اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اگر آپ جانی اور مالی نقصان کے بغیر جنگ جیت سکتے ہوں تو گولی چلانے کی کیا ہی منطق بچتی ہے؟ جنگ کے مقاصد آج بھی وہی ہیں لیکن لڑنے کا طریقہ بدل گیا ہے، ریاستیں ففتھ جنریشن وار فیئر کا رخ کر رہی ہیں۔ یہ جنگ کی ایک ایسی قسم ہے جو بظاہر کسی فوجی کارروائی کے بغیر لڑی جاتی ہے۔ نت نئے طریقوں سے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ سوشل انجینئرنگ، غلط معلومات کا پھیلاؤ، سائبر حملے، مصنوعی ذہانت اور خودکار مشینوں کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلانا وغیرہ۔ اسی تناظر میں ڈینیئل ایبٹ نے ففتھ جنریشن وارفیئر کو ”علم اور شعور کی جنگ“ قرار دیا ہے۔

2020 کے اختتام پر یورپی یونین کی ڈس انفو لیب نے ”انڈین کرانیکلز“ کے نام سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی، جس میں بین الاقوامی اداروں کو نشانہ بنانے اور ہندوستانی مفادات کو پورا کرنے کے لیے ایک بڑے خفیہ آپریشن کا انکشاف کیا گیا۔ 2005 میں شروع ہونے والا یہ آپریشن رپورٹ کی اشاعت کے وقت پندرہ سال سے مسلسل کام کر رہا تھا۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی جانب سے سند یافتہ دس سے زائد این جی اوز، 119 ممالک میں میڈیا کے ساڑھے سات سو سے زائد جعلی ادارے اور انٹرنیٹ پر ساڑھے پانچ سو سے زائد ڈومینز کا استعمال کرتے ہوئے جعلی خبروں کی اشاعت اور تشہیر کی جا رہی تھی۔

آپریشن کا مقصد بھارت کے ہمسایہ ممالک کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کرنا تھا۔ اس کا طویل مدتی مقصد بھارت میں پاکستان مخالف اور بھارت کے حق میں جذبات کو تقویت دینا تھا۔ مزید مقاصد میں بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے تاثر کو بہتر بنانا، دوسرے ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور ان دونوں جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کی مزید حمایت حاصل کرنا شامل تھا۔

ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اقلیتوں اور انسانی حقوق کی این جی اوز اور تھنک ٹینکس کو استعمال کیا گیا تاکہ یورپی پارلیمنٹ اور دیگر یورپی اداروں کو اقلیتوں کی حفاظت کا چورن بیچ کر ان کی معاونت حاصل کی جا سکے۔ اسی طرح پچھلے دنوں افغانستان سے چلنے والی ”سینکشن پاکستان“ کیمپین کے پیچھے بھی اسی طرح کے طاقتور خفیہ ہاتھ کارفرما تھے۔

2009 میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد بھارت نے ان ہی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اتنا ہنگامہ مچایا کہ اگلے دس سال تک پاکستان بین الاقوامی میچوں کی میزبانی نہیں کر پایا۔ دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنے کے باوجود پاکستان کے تاثر کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا گیا۔

سری لنکا کی ٹیم کے کسی بھی کھلاڑی کو آنچ تک نہ آئی لیکن پاکستان اپنی ہوم سیریز تک متحدہ عرب امارات میں کھیلنے پر مجبور ہو گیا۔ کئی سال کی مسلسل کاوشوں کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم اس سال پاکستان آنے پر آمادہ ہوئی لیکن ان کی آمد کی مقررہ تاریخ سے چند روز قبل مشکوک ذرائع سے محض ایک مضحکہ خیز ای میل موصول ہونے کی بنیاد پر دورہ منسوخ کر دیا گیا۔

کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کی تحریک کو کچلنے کے لئے بھی بھارت اسی تکنیک کا استعمال کرتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ کشمیری عوام بھارتی قبضے اور حکومت سے خوش ہے اور جھڑپوں اور احتجاجی مظاہروں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اس پروپیگنڈے کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کی بین الاقوامی قوانین کے مطابق آزادی کی تحریک کو بیرونی مداخلت کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب قومی دھارے سے کٹے ہوئے بلوچوں کے چھوٹے سے طبقے کو علیحدگی پسند تحریک کے طور پر ابھارا جا رہا ہے۔ ان بلوچوں کی ریاست سے شکایات سو فیصد جائز ہیں لیکن ان کے قانونی حل موجود ہیں۔ اگر وہ علیحدگی پسند تحریک ہوتی تو حالیہ الیکشن میں بلوچستان سے ووٹوں کا تناسب باقی ملک کے برابر نہ ہوتا۔ ان کا ووٹ ڈالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کو ریاستی اداروں اور پاکستان کے سیاسی عمل پر پورا یقین ہے۔ اگر کشمیر میں آزادی کی حقیقی تحریک کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ ہر الیکشن کا بائیکاٹ کرتا ہے۔

بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی کسی تحریک کو علیحدگی پسند تحریک اسی صورت میں تصور کیا جاتا ہے اگر اس ملک کے قوانین میں تعصب موجود ہو یا کسی طبقے کے ساتھ قانون کا سہارا لے کر امتیازی سلوک برتا جا رہا ہو۔ لیکن بھارت ہر بین الاقوامی فورم پر ایک بلوچ طبقے کی ناراضی اور جرائم پیشہ گروہوں کی کارروائیوں کو آزادی پسند تحریک کا رنگ دینے کی مکمل کوشش کرتا ہے۔ یہ پاکستان کی بطور ایک آزاد ریاست خود مختاری پر حملہ ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کرنے کی تکنیک متعارف ہوئی۔ اس حکمت عملی کی بنیاد ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر جیوبلز کا ”جھوٹ کو اتنی مرتبہ دہراؤ کہ سچ بن جائے“ کا نظریہ ہے۔ عرب سپرنگ کی تحریک بھی سوشل میڈیا پر ہی شروع کی گئی تھی۔ اس نے دس سے زائد عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا اور کئی ممالک کی حکومتوں میں تبدیلی کا باعث بنی۔ میڈیا کے بطور ہتھیار استعمال کی ایک مثال آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں نئی دہلی کی جانب سے مواصلات کے تمام ذرائع پر مکمل پابندی ہے، تاکہ دنیا کے دارالحکومتوں تک صرف اور صرف بھارت کا سرکاری بیانیہ پہنچے۔

سائبر ٹیموں میں شامل ممبران خود کو زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ جیسا کہ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، صحافی اور پروفیسر ظاہر کر کے اور جعلی واقعات کو اپنی زندگی کے تجربات کے طور پر پیش کر کے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اگر دوسری جانب سے کوئی شخص ان کے ساتھ علمی بحث کرنے کی کوشش کرے تو کی بورڈ جنگجووں کا ایک تازہ دم دستہ مخالف کے نقطہ نظر کو دبا دیتا ہے۔ یوں تو ففتھ جنریشن وار فیئر پوری دنیا میں جاری ہے لیکن یہ تیسرے دنیا کے ممالک میں خطرناک حد تک موجود ہے کیونکہ یہاں پر سائبر جرائم پکڑنا مشکل ہے اور ان کے خلاف سخت قانون بھی موجود نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی ادارے قومی سلامتی کی پالیسیوں کی حفاظت کریں تاکہ ملک کو تمام داخلی اور خارجی خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ عوام کی شکایات سننے اور حل کرنے کے لئے قابل عمل طریقہ کار موجود ہو تاکہ وہ دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار نہ بنیں۔

ہم سب کے شکریے کے ساتھ  سنگت میگ میں شائع کیا جا رہا ہے 
عائشہ اقبال انگریزی ادب اور لسانیات کی شاگردہ ہیں. انسانی حقوق خاص طور پر خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے لکھتی اور آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ فراغت کے اوقات مصوری، شاعری اور کتاب بینی سے کاٹتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close