بلوچستان کی ”میڈ ان چائنا“ حکومت اور جام کمال کے کمال کا زوال

امر گل

نیا کچھ نہیں، بلوچستان کی سیاست بس اپنے معمول کو دہرا رہی ہے.. اور معمول یہی رہا ہے کہ یہاں وزارت اعلیٰ کا منصب وہ محبوبہ ہے، جس کے کئی عاشق ہیں، سو یہ ہرجائی بھی کسی ایک کی ہو کر نہیں رہتی۔ اکثر ڈھائی سال کے بعد اس کی نیت بدل جاتی ہے. یہ حیران ہونے کی بات ہر گز نہیں ہے!

موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال کے کمال کو زوال میں بدلنے کی آج کل چل رہی کوششیں نئی نہیں، بلکہ شروع دن سے جاری ہیں، کیونکہ سابق وزیراعلیٰ اور انہی کی پارٹی کے اسپیکر قدوس بزنجو بھی وزارت اعلیٰ کے منصب کی محبوبہ کے پرانے عاشق ہیں۔ اسپیکر صاحب کی نجی محفلیں ہوں یا میڈیا گفتگو، وہ اب تک کھل کر جام کمال کا رقیب ہونے کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن جام کمال کو وہ تاحال کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو پائے

اب لیکن معاملہ کچھ مختلف اور جام کمال کے ہاتھ سے کھسکتا ہوا نظر آ رہا ہے اور لگ ایسا رہا ہے کہ جام کمال کو وزیراعلیٰ بنوانے میں اصلی تے وڈا کردار ادا کرنے والے یا تو کسی اور کو وزیراعلیٰ لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں، یا کم از کم منڈا پٹواری کا بن کر دوروں دوروں اکھیاں مارنے کے موڈ میں ہیں

جام کمال کے خلاف سیاسی ہلچل کا آغاز تو 14 ستمبر کو ہوا تھا، جب اپوزیشن جماعتوں کے سولہ اراکین نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی، لیکن اسے گورنر نے اعتراض لگا کر جام کمال کو ” تسی لگے رہو“ پر لگا لیا تھا

لیکن سامنے بھی عشقِ ہوسناک تھا، سو انہی کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی المعروف باپ کے ناراض اراکین اسمبلی اور اپوزیشن کی اٹھکیں بیٹھکیں اور پھر اسلام آباد میں بھی میل ملاقاتیں جاری رہیں، ‎جس کے دباؤ میں دو اکتوبر کو یہ خبر تک پھیل گئی کہ جام کمال ”چل اڑ جا رے پنچھی، کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ“ گاتے ہوئے اب گئے کہ تب گئے… لیکن تاحال فلم ڈائریکٹر نے اس گانے کو فلم میں شامل نہیں کیا

لیکن جام کمال خان کی اپنی کابینہ کے تین وزراء، وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی، وزیر خوراک عبدالرحمان کھیتران، وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ، اور چار مشیروں کے احتجاجاً مستعفی ہونے کی پیش رفت نے تو طے کر دیا ہے کہ”جی کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا کہ شام گیا…“ بشرطیکہ ڈائریکٹر صاحب کا موڈ چینج نہ ہو…

اپوزیشن کے علاوہ ان کی اپنی جماعت کے 14 اراکین نے اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد پیش کر کے جام کمال کے زوال کی رہی صحیح کسر بھی پوری کر دی ہے

سیاسی میمن بن کر اگر ناپ تول اور گنتی کی جائے، تو بات آتی ہے حساب کتاب کی.. سو جمع تفریق کے مطابق جام کمال کے خلاف اپوزیشن اراکین کی تعداد 23 ہے، جام کمال کی اپنی جماعت کے منحرف اراکین اور بی این پی عوامی کا نمبر 16 تک جا پہنچا ہے جبکہ جام کمال کے حمایتوں کی تعداد 24 ہے یعنی نمبر گیم سے یہ نتیجہ اخذ ہو رہا ہے کہ جام کمال اپنی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ تحریک عدم اعتماد کا وہ نتیجہ ہے، جو بظاہر نظر آ رہا ہے… حکومتی حلقوں کی طرف سے تو ”استعفیٰ نہیں دیا جائے گا“ کے بیانات داغے جا رہے ہیں، لیکن بہت ممکن ہے کہ یہ واضح صورتحال ”نا نا کرتے پیار میں کر گئی رے“ کے انچاہے انجام تک پہنچ ہی جائے

زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ”مقابلہ  تو دلِ ناتواں نے خوب کیا“ حتیٰ کہ جام کمال صاحب نے اپنی وزارت کو دوام بخشنے کے لیے وہ گر بھی آزما لیے، جو شاید ان سے پہلے قبل از وقت گھر جانے والے وزراء اعلیٰ میں سے کسی نے نہیں آزمائے تھے

یہاں تک کہ مرکزی حکومت کی نفرت کی حد تک ناقد جماعت جمعیت علمائے اسلام کے رہنما غفور حیدری سے بھی جام کمال نے ملاقات کر کے مدد کی درخواست کر ڈالی، لیکن اس سے سوائے ان کی کمزوری سے پردہ اٹھنے کے، اور کچھ نہ حاصل ہو سکا

دوسری جانب ”باپ“ کے مرکز میں مائی باپ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے بھی جام کمال کو بچانے کے لیے ہنگامی دورے کیے، ناراض اراکین کو رام کرنے کے لیے ہرممکن اور سر توڑ کوششیں کیں، تاہم فی الحال نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہے… ناراض اراکین کا لچک سے تہی رویہ بتا رہا ہے کہ بات پکی ہو چکی ہے

اپوزیشن تو شروع سے ہی جام کمال کی وزارت اعلیٰ کی مکھی گرنے کی وجہ سے بلوچستان حکومت کی چائے نہیں پی رہی تھی،  خود ان کی حکمران جماعت باپ کے 14 اور اتحادی پی ٹی آئی کے ممبران نے  شکایاتی بریانی کی مشترکہ دیگ الگ سے چڑھا رکھی ہے.. گلہ ‎یہ ہے کہ جام کمال ایک ’مطلق العنان‘ حکمران ہیں، جو کسی کی نہیں سنتے اور کوئی ایسی وزارت نہیں، جس میں وہ براہ راست مداخلت نہ کرتے ہوں

اس کی وجہ تو خداہی جانے، لیکن ایسا کون ہے، جو ان سے شکوہ کناں نہ ہو… صالح بھوتانی ہوں، اسپیکر قدوس بزنجو ہوں یا وزیر خزانہ ظہور بلیدی جیسے کابینہ کے سینیئر اراکین… سبھی جام کمال پر تپے بیٹھے ہیں…ان میں سب سے اہم نام تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند کا ہے..

سو یارانِ نکتہ داں و ساقی مزاج آشنا! آپ ہی کہیے، کہ جب ”رند“ ہی روٹھ جائے، تو ”جام“ کب تلک چھلکے گا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close