بلوچستان کے سرحدی اضلاع افغانستان میں تیار کی جانے والی منشیات کی سمگلنگ کے بین الاقوامی روٹ کا حصہ ہیں, یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ان ملحقہ علاقوں میں منشیات کی وبا کا عام ہونا ایک عام سی بات ہے، بلیدہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے.. کچھ عرصہ قبل تک بلیدہ بھی اسی آگ میں جل رہا تھا، لیکن پھر وہ کچھ ہوا، جس نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی!
بلیدہ میں حال ہی میں جنم لینے والی ایک سماجی تحریک نے بلیدہ میں وہ کچھ کر دکھایا، جو ریاست بھی نہ کر سکی یا شاید کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ جی ہاں صرف کچھ عرصہ قبل منشیات فروشوں کی یہ جنت ان کے لیے اب ایک جہنم کا روپ دھار چکی ہے. یہاں نہ صرف سرعام منشیات فروخت کرنے والوں کے اڈے ختم کر دیے گئے، بلکہ مقامی لوگوں نے منشیات کے شکار افراد کی صحت کی بحالی کے کام کا بیڑا بھی اٹھا لیا ہے
منشیات کے خلاف یہ سماجی شعور کیسے پیدا ہوا اور اس نے ایک انقلابی تحریک کی صورت کیسے اختیار کی؟ یہ وہ سوال ہے جو حیرت سے جنم لیتا ہے، لیکن اس کے جواب سے خود حیرت جنم لیتی ہے!
”تنگ آمد بہ جنگ آمد” کے مصداق، منشیات کے شکار مردوں کے تباہ حال گھروں کی خواتین کا ایک گروپ، تب منشیات کے خلاف جہاد پر کمر بستہ ہوا، جب ان کی زندگی ان کے منشیات کے عادی مردوں کی وجہ سے جہنم سے بھی بدتر ہوگئی… اور پھر وہ لمحہ آیا جب انہوں نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے، منشیات کے خلاف جنگ کرنے کی ٹھان لی
انہی باہمت خواتین میں سے ایک گل بی بی ہیں، ایک ایسی ماں جس کے پانچوں بیٹوں کی زندگی کے پھول منشیات کی آگ میں جل رہے تھے، وہ بتاتی ہیں کہ ایک روز ایک خاتون نے مجھ سے سوال کیا کہ کب تک ہمارے والد، خاوند، بیٹے منشیات کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہیں گے اور ہم مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں یہ ظلم سہہ کر خاموش تماشائی بنی رہیں گی؟
گل بی بی بتاتی ہیں کہ ’میں نے پوچھا کہ ہم کیا کر سکتی ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہم باہر نکل کر ان منشیات کے اڈوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ ہم تو ویسے ہی چلتی پھرتی لاشیں ہیں، جو بھی ہو گا اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا!‘
گل بی بی نے بتایا کہ.. جب ہم خواتین باہر نکلیں تو خدا جانے ہم میں اتنی طاقت، جوش اور جذبہ کہاں سے آ گیا تھا کہ ہم نے منشیات کی فروخت کا ہر اڈہ جلا کر راکھ کر دیا
بلیدہ ہی کی ایک اور باہمت خاتون، رضیہ بی بی کا کہنا ہے کہ جب نشے کے عادی میرے شوہر اور بیٹے نے میری بیٹی کی ضرورت کے تین سو روپے بھی چھین لیے، تو اُسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس علاقے میں یا تو منشیات فروش رہیں گے یا پھر ہم”
وہ بتاتی ہیں کہ پھر انہوں نے برقعہ پہنا اور ہر اُس گھر گئیں، جو اپنے نشے کے عادی مردوں کی وجہ سے تباہ ہو چکا تھا، متاثرہ خواتین سے بات چیت کی۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ان متاثرہ خواتین نے مل کر اپنے گاؤں میں موجود منشیات کے تمام اڈے یا تو بند کروائے یا انہیں تباہ کر دیا
رضیہ بی بی نے اپنی کہانی کچھ یوں سنائی :
میری شادی 35 برس قبل ہوئی تھی، میرے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ دس سال پہلے تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، شوہر محنت مزدوری کرتا تھا، جب بڑا بیٹا کچھ بڑا ہوا تو وہ بھی اپنے والد کے ساتھ مزدوری پر جانے لگا. مگر دس سال قبل میرے شوہر اور کچھ عرصے بعد دو بڑے بیٹے، جن میں سے ایک شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ بھی ہے، نشے کی لت میں مبتلا ہو گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب میری زندگی کے کٹھن ترین دن شروع ہوئے۔ اُس وقت میرے بچے چھوٹے تھے اور سب سے چھوٹی بیٹی پہلی کلاس میں پڑھتی تھی، اب وہ فرسٹ ایئر کی طالبہ ہے. شوہر کے مزدوری چھوڑنے اور نشہ شروع کرنے کے بعد ابتدا میں، میں نے سلائی کڑھائی اور محنت مزدوری شروع کر دی، مگر مسئلہ یہ تھا کہ میری کمائی کا بڑا حصہ بھی شوہر اور بیٹا نشے کے لیے چھین لیتے تھے، جس کی وجہ سے روز مرّہ کا گزارہ کرنا مشکل تر ہو گیا تھا۔ باقی دنیا کا تو مجھے نہیں پتا مگر ہمارے بلوچ معاشرے میں اگر خاوند، والد یا بیٹا گمراہ ہو جائیں یا منشیات کے عادی بن جائیں تو اس کا سب سے بڑا خمیازہ گھر کی خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ میرے معاملے میں بھی یہی ہو رہا تھا۔ ایک طرف میں بچوں کو پال رہی تھی تو دوسری طرف نشے کے پیسے پورے کرنے کے لیے شوہر کے تشدد کا نشانہ بنتی تھی. ایک دن جب شوہر اور بیٹے نے کئی دن کی محنت سے جمع کیے ہوئے بیٹی کی ضرورت کے پیسے بھی مجھ سے چھین لیے تو یہ وہ لمحہ تھا، جب میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس طرح زندگی نہیں گزر سکتی۔ پھر میں نے سب خواتین، جن کے گھر کے مرد نشہ کرتے تھے، کو کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں، والد اور خاوندوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوں۔ اس مہم میں میری بیٹی اور ایک بیٹے نے ہمارا بہت ساتھ دیا تھا، وہ بینر اور چارٹ بناتے تھے۔ مجھے اچھے سے یاد ہے کہ جب ہم خواتین باہر نکلیں تو علاقے کے مرد حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ نے روکنے کی کوشش کی مگر ہمارے تیور دیکھ کر وہ بھی پیچھے ہٹ گئے”
علاقے کی ایک معزز شخصیت حاجی کفایت ﷲ کا کہنا ہے کہ بلوچ معاشرے کے اندر عام کیا خاص حالات میں بھی خواتین کا باہر نکلنا ممکن نہیں ہوتا، مگر جب ایک اچھے کام کے لیے خواتین باہر نکلیں تو پھر یہ بات بلوچ معاشرے کے لیے چیلنج بن گئی تھی کہ اگر خواتین یہ کام کر سکتی ہیں تو مرد کیوں نہیں؟ اسی لیے خواتین کی جانب سے جلوس کے بعد علاقے کے چند نوجوان خود ہی اکھٹے ہوئے اور مختلف اجلاس منعقد ہوئے جن میں حکمت عملی طے کی گئی۔ بلیدہ کوئی بڑا علاقہ نہیں ہے۔ سب لوگ ایک دوسرے اور منشیات کے کاروبار سے منسلک لوگوں کو اچھے سے جانتے ہیں۔ ہم لوگ جرگے کی شکل میں اُن کے گھروں میں گئے۔ ان لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اس کاروبار کو چھوڑ دیں۔ کئی ایک نے رضاکارانہ طور پر کاروبار ختم کر دیا جبکہ کچھ کو اُن کے گھر کی خواتین نے یہ کام کرنے سے روک دیا۔‘
حاجی کفایت ﷲ نے بتایا کہ اب علاقے بھر میں بیداری کی لہر ہے، نوجوانوں نے گروپ تشکیل دیے ہیں جو مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں نگرانی کرتے ہیں. اگر کوئی منشیات کا کاروبار کرتے ہوئے مل جائے تو اس کے حوالے سے قانون کی مدد لینے کے علاوہ قبائلی روایات کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔ اب ایسی اطلاعات بہت کم ہیں کہ کسی جگہ پر منشیات فروخت ہو رہی ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چند روپوں میں ملنے والا نشہ اس سرحدی علاقے میں ایک ہزار روپے فی گرام میں بھی دستیاب نہیں ہے۔
رضیہ بی بی کا کہنا ہے کہ یہاں منشیات کھلے عام دستیاب نہیں ہے۔ میرے خاوند اب علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ سُنا ہے کہ تربت میں کسی جگہ پر موجود ہیں جب کہ میرے بیٹوں کو منشیات کے خلاف قائم علاقہ کمیٹی علاج معالجہ فراہم کر رہی ہے، جس سے وہ بہت بہتر ہو چکے ہیں۔
حاجی کفایت ﷲ کا کہنا ہے کہ منشیات کے عادی لوگوں کو زندگی کی طرف لوٹانے کے لیے انہوں نے ایک بحالی سینٹر قائم کیا ہے، جب کہ کچھ لوگوں کو کوئٹہ اور کراچی بھی علاج کی غرض سے بھیجا جا رہا ہے۔