پاکستان کا جوان کپتان سے چاہتا تھا کہ آندھی آئے یا طوفان کپتان ڈٹ کر کھڑا رہے، کپتان ڈٹ کر کھڑا ہے۔
آس پاس سے آنے والے ’آسان باش‘ کے مشورے بھی نہیں سن رہا۔
نوجوان چاہتا تھا کہ چوروں لٹیروں یعنی سارے سیاستدانوں کو جیل میں بند کر کے تالے کی چابی کسی گندے نالے میں پھینک دے۔
تو اپوزیشن والے سیاستدان یا تو جیل میں ہیں یا بستر باندھ کر جیل جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک آدھ اگر جیل سے سرنگ لگا کر لندن بھاگ گیا تو اس میں کپتان کا کوئی قصور نہیں۔
کیا کپتان نے اپنے ہاتھوں سے جیل کا تالا کھولا تھا؟
کپتان امریکہ سے کہتا تھا کہ تم چاہے جتنے مرضی جہاز ٹینک لے کر آ جاؤ، افغانستان میں نہیں جیت سکتے، امریکہ کو دم دبا کر بھاگتے ہوئے بھی اپنے فوجی مروانے پڑے۔
جوان چاہتا تھا کہ پاکستان کو امریکہ کو اڈے نہیں دینے چاہییں۔ کپتان نے کہا ’ایبسولیوٹلی ناٹ‘۔ امریکہ پہلے بھاگا اور اب کسی کونے میں کھسیانی بلی کی طرح بیٹھا اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔
کپتان کو کوئی فون کرے نہ کرے، پاکستانی جوان کو کوئی پرواہ نہیں۔ دنیا میں فون کرنے والے اور بھی بہت ہیں۔
غلامی کی زنجیریں توڑنے کے اس موسم میں جب کپتان نے اعلان کیا کہ وہ ربیع الاوّل کے مبارک دنوں میں نوجوانوں کو خوش خبری دیں گے تو پاکستان کا جوان سمجھا کہ عمران خان نے ’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘ والی جو نئی سیاست شروع کی تھی اس کا اصلی آغاز اب ہوا چاہتا ہے۔
تو مجھے وہ مصرعہ بھی یاد آ گیا جو کراچی میں ایم کیو ایم کے زمانے کے ستائے ہوئے ہمارے بزرگ دوست گنگناتے ہیں: ’تمہارا وقت آیا ہے، ہمارا دور آئے گا۔‘
جوانوں نے بھی کپتان سے کیے ہوئے اپنے وعدے نبھائے ہیں۔ کپتان نے کہا تھا کہ سب کو پھینٹا لگاؤں گا تو وہ دن رات اپنے سیاسی دشمنوں کی صحافت کے نام پر ضمیر فروشی کرنے والے لفافوں کو دن رات پھینٹا لگاتے رہتے ہیں۔
بلکہ کبھی کبھی کوئی دوسرا ہاتھ نہ آئے تو اپنے آپ کو ہی پھینٹا لگا کر عہدِ وفا نبھا لیتے ہیں۔
تو خان صاحب کے اعلان کے بعد پاکستان کے جوانوں کے دلوں میں خوابوں اور خواہشوں کا ایک سیلاب تھا، لیکن ہمارا نوجوان چاہے پسماندہ علاقے میں رہتا ہو، انٹرنیٹ تک رسائی اور سمارٹ فون کی وجہ سے خواب ہائی ڈیفینیشن میں ہی دیکھتا ہے۔
اس کے محلے میں بجلی گیس آئے نہ آئے، اسے بٹ کوائن کے بڑھتے دام اور ایلون مسک نے چاند گاڑی کیسے بنوائی، ان سب باتوں کا علم ہے۔
تو کپتان سے اُمید تھی کہ وہ نوجوانوں کو کروڑوں نوکریاں نہیں دے سکا، تو ستاروں پر کمند ڈالنے کی ترغیب ضرور دے گا۔
شاید ہر ضلعے میں کمپیوٹر اور آئی ٹی کے نئے سینٹر بن جائیں، کوئی آن لائن تعلیم و تربیت کا نیا پروگرام شروع ہو، شاید یہ ترغیب دی جائے، کہ سوشل میڈیا پر دشمنوں کو گالیاں دینے سے تھوڑا وقت نکال کر آن لائن معیشت میں حصہ ڈالا جائے۔
جن کو کھیل کود سے دلچسپی ہے ان کے لیے منصوبے بنیں گے، سنوکر کلبوں کو معاونت ملے گی، جو بھولے بسرے گراؤنڈ ہیں وہاں پر نئی گول پوسٹ لگائی جائیں گی، ہر گلی محلے میں فٹ بال اور بیٹ بال بانٹے جائیں گے۔
جو نوجوان دیسی مرغیاں اور کٹے افورڈ نہیں کر سکتے، اُنھیں شاید کوئی ترغیب دی جائے کہ حصے ڈال کر بکری خرید لو، دودھ پیو اور مینگنیوں سے گوبر گیس بنا کر گھر کا چولہا جلاؤ، کیونکہ گیس غائب ہوا چاہتی ہے۔
شاید یہ کہا جا سکتا تھا کہ گھر بیٹھ کر بزدار کا انتظار نہ کرو، گلیوں محلوں میں پھیل جاؤ اور ڈینگی کے مچھروں کے خلاف جہاد شروع کرو اور کچھ نہیں تو شاید نوجوانوں سے کہا جاتا کہ گھر میں چینی کے دانے گننے شروع کرو۔ ہر کپ میں نو دانے کم ڈلوا کر قوم کی تقدیر سدھارو لیکن کپتان نے ہمیشہ کی طرح سرپرائز دیا۔
شاید جوانوں کے لیے سرپرائز ہی ہو، لیکن ہماری عمر کے لوگوں نے دیکھا ہے کہ بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب حکمران یہی سرپرائز دیتے آئے ہیں کہ اگر اور کوئی کام سمجھ نہ آئے تو تھوڑا مذہب کا تڑکا تیز کر دو، صلوٰۃ کمیٹیاں بنا دو، سیرت کانفرنس کروا لو، علما اور مشائخ کے لیے ایک اور ادارہ بنا دو۔
نوجوانوں کو کیا ملے گا؟ کپتان خود اعتراف کرتے ہیں کہ اُنھوں نے جوانی گمراہی میں گزاری اور مذہب اور روحانیت کو جوانی گزرنے کے بعد دریافت کیا۔
کپتان اپنے جوانوں کو جانتے ہیں، اُنھیں مذہب اور روحانیت پرائمری اسکول میں ہی سکھا دی جاتی ہے.. پھر گلی محلے، مسجد، ٹی وی ڈراموں میں، واٹس ایپ یونیورسٹی میں پختہ کر دی جاتی ہے۔
کپتان کے جوانوں کی مذہبی اور روحانی تعلیم اتنی چھوٹی عمر میں مکمل ہو جاتی ہے کہ ہمارا ہر لڑکا اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے نام کے ساتھ علّامہ کا سابقہ لگائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
اگر کپتان کو یقین نہیں آتا تو وہ مذہب اور روحانیت پر قوم کے نوجوانوں کا ایک ٹیسٹ لے لیں۔ پھر شاید اُنھیں یقین آ جائے کہ اس معاملے پر ہمارے نوجوان واقعی کپتان کے استاد ہیں۔
باقی کپتان اپنی جوانی کی گمراہیوں کی سزا ہمارے جوانوں کو دینا چاہتے ہیں تو وہ بھی اُن کا حق ہے، کیونکہ آخر میں جب پوچھا جائے گا کہ ڈٹ کر کون کھڑا تھا تو نام کپتان کا ہی لیا جائے گا!