کراچی میں اگر ٹک ٹاکرز کے لیے کوئی سب سے زیادہ پرکشش مقام ہے تو وہ ہے فریئر ہال۔ یہاں اتوار کو نوجوان تو نوجوان، بعض فیملیز بھی ٹک ٹاک بناتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
اس تاریخی ہال کی دوسری وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ڈیٹنگ پوائنٹ بھی ہے اور یہ سلسلہ صبح سے لے کر شام تک جاری رہتا ہے۔
کراچی کے شہریوں کے لیے فریئر ہال سیر و تفریح کا وسیلہ آج سے نہیں، بلکہ گذشتہ ڈیڑھ صدی سے ہے جب شہر کا یہ پہلا ’ٹاؤن ہال‘ بنایا گیا تھا۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اسی کی کئی نشانیاں بھی یہاں تک مٹ گئی ہیں کہ اس عمارت کی چھت کا سرخ رنگ بھی پچھلے دنوں سبز کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اس شاندار عمارت میں باغیچے، بینچوں، ایک لائبریری، صادقین گیلری کے سوا کچھ موجود نہیں۔
فریئر ہال کس کے نام پر ہے؟
یہ ہال سر ہینری بارٹل فریئر کی یاد اور خدمات کے اعتراف میں بنایا گیا تھا، انھیں سندھ کے چیف کمشنر اور بعد میں بمبئی کا گورنر بنایا گیا تھا۔
بارٹل فریئر کی پیدائش 19 مارچ 1815 کو ویلز میں ہوئی تھی اور وہ والدین کے نو بچوں میں سے چوتھے نمبر پر تھے۔
برٹینکیا کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے کالج سے گریجوئیشن کے بعد انھوں نے انڈیا میں سول سروسز میں ملازمت کا آغاز کیا، انھیں انڈیا کے شہر پونا میں جونیئر کلرک تعینات کیا گیا۔ جس کے بعد دیگر شعبوں اور عہدوں سے ہوتے ہوئے انھیں سندھ کا چیف کمشنر تعینات کر دیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 34 برس تھی۔
یاد رہے کہ سندھ کے فاتح چارلس نیپیئر کے جانے کے بعد گورنر کے منصب کو منسوخ کیا گیا اور اس کا نام چیف کمشنر رکھا گیا تھا۔
فریئر کو یہ بھی اعزاز دیا جاتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں سندھ میں صورتحال مجموعی طور پر کنٹرول میں رہی تھی، سندھ سے انھیں بمبئی کا کمشنر بنایا گیا اور وہاں سے جنوبی افریقہ تبادلہ کیا گیا جہاں ان کے کردار اور لڑائیوں کے وجہ سے وہ یہاں کے برعکس متنازع رہے۔
فریئر نے سندھ کے ٹھہراؤ میں ہلچل پیدا کر دی
بارٹل فریئر کی زندگی اور خط و کتاب کے مصنف جان مارنینو کو فریئر نے بتایا تھا کہ سندھ میں 1851 میں ایک بھی بیراج یا پکی سڑک نہیں تھی، کوئی دھرم شالا، ڈاک بنگلا، سرائے، عدالت، تھانہ، ہسپتال اور سکول کی عمارت تک نہیں تھی۔ اور ڈاک یارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بحری جہازوں کو مرمت کے لیے بمبئی بھیجا جاتا تھا۔
اس صورتحال میں ان کی پہلی توجہ کراچی کی بندرگاہ تھی جہاں برطانیہ نے قبضہ کے بعد ایک جیٹی اور ایک چھوٹے لائٹ ہاؤس بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا۔
ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو اپنے والد کی زندگی پر مرتب کی گئی کتاب ‘محمد ایوب کھوڑو جرات مندانہ سیاسی زندگی’ میں لکھتی ہیں کہ ذہین منتظم فریئر کی تعیناتی سے یہاں ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل پیدا ہو گئی تھی۔ وہ مشکل حالات ہونے کے باوجود سڑکوں میں بہتری لائے، نیپیئر کی جانب سے نافذ لگان میں کمی کی کیونکہ نیپیئر کی جانب سے نافذ کیا گیا نظام ظالمانہ تھا۔’
فریئر نے سندھی زبان کو حروف تہجی دیے
بارٹل فریئر کی زندگی اور خط و کتابت کے مصنف جان مارنینو کو فریئر نے بتایا تھا کہ ’سندھی زبان تحریری شکل میں موجود نہیں تھی، اسی کے حروف تہجی یا اشکال نہیں تھے۔
تاجر جو خط و کتاب کرتے ہیں وہ ایک شارٹ ہینڈ جیسی زبان استعمال کرتے ہیں، یہ زبان ہر بڑے شہر اور طبقے میں مختلف ہو جاتی ہے جس سے کسی کے لیے بھی یہ زبان سیکھنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ آبادی کی اکثریت مسلمان تھی جو فارسی کا استعمال کرتی جبکہ پنجاب سے آنے والے ہندو بھی یہ ہی زبان استعمال کیا کرتے حالانکہ یہاں سندھی سرکاری زبان ہونی چاہیے جو نہ صرف مقامی بلکہ انگریز افسران کو بھی آنی چاہیے۔’
بارٹل فریئر کے زیر پرستی کیپٹن سٹیک نے سندھی زبان کی گرائمر اور ڈکشنری بنائی، وہ دیوناگری سے متاثر تھے جبکہ رچرڈ برٹن عربی کی شمولیت چاہتے تھے۔ فریئر نے اس کو کورٹ آف ڈائریکٹرز آف ایسٹ انڈیا بھیجا جہاں عربی رسم الخط کے حق میں فیصلہ کیا گیا۔
حمیدہ کھوڑو لکھتی ہیں کہ ’فریئر نے سندھی زبان کا درجہ تعلیمی نظام کے ذریعے تسلیم کیا، اس کو کاروباری اور عدالتی زبان بھی سمجھا گیا۔ انھوں نے سرکاری امداد سے چلنے والے سکولوں کی بنیاد ڈالی۔ روایتی مذہبی مدارس بھی جاری رہے جن میں بنیادی سائنسی مضامین اور سماجی مضامین پڑھائے جاتے تھے۔‘
کراچی شہر بن گیا
فریئر کے چیف کمشنر کراچی بننے سے قبل شہر میں کوئی شہری نظام نہیں تھا۔ انھوں نے انگریزوں کے معاون سیٹھ ناؤں مل سے مشورہ کیا کہ گجرات کے علاقے سورت کی طرح یہاں بھی میونسیپل نظام ہونا چاہیے کیونکہ وہاں کے حالات اس طرح بہتر ہوئے ہیں۔
ناؤں مل اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ ’کراچی تاریخ کے آئینے میں‘ کے مصنف محمد عثمان دموہی لکھتے ہیں کہ میونسپل نظام سے اس شہر کی کایا پلٹ گئی۔
’انھوں نے شہر میں پینے کے پانی کے لیے مزید پانچ کنویں کھدوائے، نکاسی آب کا نظام شروع کیا، شہر کی سڑکوں کی تعمیر ہوئی، پہلا انگریزی سکول قائم کیا اور اس کے ساتھ ایک اخبار بھی شائع کروایا جس میں شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے سرکاری اقدامات کا ذکر کیا جاتا۔‘
مواصلاتی رابطوں کے لیے بھی فریئر کا اہم کردار نظر آتا ہے وہ کئی جدید رجحانات کے خالق بنے۔ مصنف محمد عثمان دموہی کے مطابق انھوں نے کراچی سے کوٹڑی تک 105 میل ریلوے لائن بچھائی، اس کے علاوہ کراچی سے ملتان تک سفر کے لیے دریائے سندھ میں تجرباتی بنیادوں پر آگبوٹ (سٹریمر) سروس شروع کی گئی۔
اسی طرح انھوں نے ڈاک پیدل پہنچانے کے نظام کو ختم کر کے گھوڑوں اور اونٹوں کے ذریعے ڈاک کراچی سے حیدرآباد اور دیگر علاقوں تک پہنچانے کا انتظام کیا۔ انھی کے دور میں کراچی سے پہلا ڈاک ٹکٹ جاری ہوا، جو پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
فریئر ہال کیسے بنا اور اس کا ڈیزائن کہاں سے آیا؟
’انگریز دور کی عمارتیں‘ کے مصنف گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں ترقی کی ابتدا بارٹل فریئر کے زمانے سے ہوئی تھی اس لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں یہاں عمارت بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
فریئر ہال کی تعمیر کا کام اگست 1863 میں شروع کیا گیا تھا جس کے لیے 12 ڈیزائن پیش کیے گئے جن میں کرنل کلیئر ولکنز کے ڈیزائن کو پسند کیا گیا۔
گل حسن کلمتی کے مطابق ’اس ڈیزائن میں بیک وقت وینس، گوتھک اور انڈین طرز تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے، یہ کراچی کی پہلی عمارت ہے جو گوتھک طرز تعمیر پر بنائی گئی۔ یہ عمارت چونکہ شہریوں کے لیے بنائی گئی تھی لہٰذا اس کو ٹاؤن ہال کہا جاتا ہے۔‘
ہال کے اوپر چرچ سے مشابہ ایک مینار تعمیر کیا گیا ہے جس پر برطانوی تخت کی نشانی کے طور پر تاج بنایا گیا ہے جبکہ دوسرے کونے پر ایک لمبی آہنی سلاخ پر ایک بادنما لگایا ہوا تھا، جس پر بیٹھا ہوا مرغ ہوا کا رخ بتاتا تھا۔
فریئر ہال کی تعمیر میں گذری کا پیلا، بولھاڑی جامشورو اور جنگشاہی ٹھٹہ کا سفید اور بھورے رنگ کا پتھر استعمال کیا گیا جبکہ چھت کے لیے لندن سے لوہا منگوایا گیا تھا۔
تعمیر کا افتتاح 10 اکتوبر 1865 میں کمشنر مسٹر سیموئل منیسفیلڈ نے کیا تھا، اس ہال کے تعمیر پر ایک لاکھ 80 ہزار روپے خرچہ آیا جس میں سے 22 ہزار 500 روپے کراچی کے شہریوں کا چندہ، حکومت نے 10 ہزار اور کراچی میونسپل نے ایک لاکھ 47 ہزار 500 روپے دیے تھے۔
کراچی میں جن دنوں فریئر ہال کی تعمیر ہو رہی تھی ان ہی دنوں لندن میں سینٹ پنکراس سٹیشن کے قریب ہوٹل کی تعمیر کے لیے ڈیزائن کے مقابلے کا اعلان کیا گیا تھا جو نامور گوتھک ماہر تعمیرات جارج گلبٹ نے جیتا تھا۔
ایک رائے یہ تھی کہ کرنل کلیئر نے اس ڈیزائن کے اثر کو قبول کیا ہے۔ گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں تھی کہ انھوں اس سے قبل اس قسم کی عمارت کا نقشہ نہیں بنایا تھا۔
ہال کے چاروں اطراف میں ایک باغ موجود ہے جس میں کسی زمانے میں ناریل کے درخت ہوتے تھے۔ گل حسن کلمتی کے مطابق سنہ 1887 میں کراچی میں رہنے والے ایک یہودی بینجمن فلنچ نے اس کو ڈایزائن اور تعمیر کرایا تھا۔ سنہ 1963 میں اس باغ کا نام جناح باغ رکھ دیا گیا۔
فریئر ہال میں ایک لائبریری بھی موجود ہے جس کو گل حسن کلمتی کے بقول لیڈیز کلب سے یہاں منتقل کیا گیا تھا۔ سنہ 1990 سے یہاں پاکستان کے نامور مصور صادقین کے فن پاروں کی نمائش کی جاتی ہے۔
باغ کے گیٹ نمبر ایک پر دوسری عالمی جنگ کی ایک یاددگار موجود ہے جو 1921 میں تعمیر کی گئی جس میں ان فوجیوں کے نام تحریر ہیں جن کا جہاز کراچی آتے ہوئے تباہ ہو گیا تھا۔
فریئر ہال کی لاپتہ خوبصورتی
کراچی کی تاریخ اور مقامات پر کتاب ‘ایسا تھا میرا کراچی’ کے مصنف محمد سعید جاوید لکھتے ہیں کہ فریئر ہال کی عمارت کے قریب ایک بڑا ہی خوبصورت تین منزلہ فوارہ لگا ہوا تھا اس کے عین نیچے ایک حسین تالاب بنا ہوا تھا جس کے چاروں طرف بینچ لگے ہوئے تھے۔
فوارے میں سب سے اوپر ایک دلکش خاتون مغربی طرز کے سرخ لباس میں کھڑی تھیں جس نے فوارا اپنے سر پر اٹھایا ہوا تھا اور اسے ایک ہاتھ سے تھام رکھا تھا، اس کے نیچے والی منزل پر مختلف سمتوں کی طرف تکتے ہوئے بگلے نصب تھے جو فوارے سے گرتے پانی سے بھیگتے تھے۔
جبکہ سب سے نیچے والے اور نسبتاً چھوٹے دائرے میں کچھ فرشتے نما بچے اور بچیاں ہاتھوں میں کوئی مشعل نما چیز اٹھائے کھڑے تھے اور اس کے نیچے تالاب تھا۔
‘انگریز دورِ حکومت کی عمارتیں’ کے مصنف گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریا کا مجمسہ 1906 میں نصب کیا گیا تھا جس کی نقاب کشائی 1906 کو کراچی کے دورے پر آنے والے پرنس آف ویلز البرٹ ایڈورڈ نے کی تھی جبکہ ایڈورڈ سیون کا مجمسہ 1916 میں نصب کیا گیا تھا۔
ان دونوں مجسموں کو 1961 میں ہٹایا گیا۔
‘ایسا تھا میرا کراچی’ کے مصنف محمد سعید جاوید لکھتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ ایسا تھا کہ جیسے وہ پتھر کے ایک اونچے چبوترے پر کھڑی ہوں، اس کے نیچے دو اطراف میں تانبے کے بنے ہوئے شیر تھے اور دوسری اطراف میں کچھ اور انسانی مجسمے تھے جو اس وقت سمجھ میں نہیں آئے۔
ایسا ہی ایک مجمسہ برطانوی بادشاہ جارج کا بھی تھا وہ بھی اوپر اس شان و شوکت سے قریبی چبوترے پر اپنا تاج پہنے کھڑے تھے اور اس کے نیچے دو رومن سپاہیوں کے علاوہ ہندوستانی سپاہیوں کے تانبے کے بنے ہوئے مجسمے بھی تھے جو ہاتھوں میں بندوقیں تھامے چوکس اور ہوشیار کھڑے دکھائی دیتے تھے۔
یہ دونوں مجسمے پتھریلے چبوتروں پر نصب کیے گئے تھے اور انھیں فولادی جنگلوں سے محفوظ کیا گیا تھا۔
گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ ’بینجمن فلنچ نے باغ میں ایک چھپرا بھی بنایا تھا جس میں ہر جمعہ کو برطانوی فوج کا بینڈ موسیقی بجاتا تھا۔ یہ سلسلہ 1930 سے جاری رہا اور سنہ 1968 میں اس چھپرے کو ہٹا دیا گیا۔
قیام پاکستان سے قبل بیرون ممالک سے جو بھی وفود یا سربراہان آتے تھے انھیں یہاں استقبالیہ دیا جاتا اور شہر کی چابی پیش کی جاتی تھی۔
جب ہال کے دروازے بند ہو گئے
فریئر ہال کے آس پاس چین، جاپان، امریکہ اور انڈیا کے سفارتخانے ہوا کرتے تھے اور یہاں اتوار کو پرانی کتابوں کا میلہ بھی لگایا جاتا تھا لیکن پاکستان میں دہشت گردی کی لہر کے باعث یہ سلسلہ معطل ہو گیا۔
نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی جنگ کے بعد امریکی سفارتخانے کی طرف جانے والی سڑک حفاظتی اقدامات کے لیے بند کر دی گئی اور اس دوران یہاں دھماکے بھی ہوئے نتیجے میں فریئر ہال اور اس کا باغ نوگو ایریا بن گیا تھا۔
صورتحال معمول پر آنے کے بعد 2011 میں اس کو دوبارہ کھولا گیا اس وقت تک امریکی سفارتخانہ ایم ٹی خان روڈ (کوئینز روڈ) منتقل ہو چکا تھا۔
برطانوی ورثے کی بحالی امریکہ کرے گا
فریئر ہال کی عمارت اور ڈھانچہ وقت گزرنے اور موسم کی شدت کے باعث زبوں حالی کا شکار ہوا ہے۔
کراچی میں امریکی قونصل خانے نے حال ہی میں کراچی میونسیپل اور سندھ ایکسپلوریشن اینڈ ایڈونچر سوسائٹی کی اشتراک سے اس کے تحفظ و بحالی کے منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔
امریکی قونصل جنرل مارک سٹرو کا کہنا ہے کہ تاریخی فریئر ہال عمارت کے تحفظ کا یہ منصوبہ عمارت کے اصل اجزا کو بحال کرے گا اور اس کی روایتی شان میں بحال کرنے میں مدد کرے گا۔
اس منصوبے کے تحت ہال کی پرانی سیڑھیوں کی مرمت، پہلی منزل پر ساگون لکڑی کے فرش کی بحالی، داخلی ہال کی بحالی، ماضی میں بم دھماکوں سے نقصان زدہ دروازوں اور کھڑکیوں کی بحالی، بارش کے پانی سے بچاؤ کے اقدامات، چھت کی خراب واٹر پروفنگ کی مرمت، بجلی کی نئی وائرنگ اور تباہ شدہ برج اور مینار کی بحالی اور تحفظ شامل ہوں گے۔