مانچسٹر : پاکستان میں سیاست دانوں کے کبھی ’ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ تو کبھی ’لیاقت علی خان کی پیدائش و وفات کراچی‘ کی موشگافیوں پر کافی لے دے ہوتی رہتی ہے، لیکن اگر ملک کے ایک اہم معاشی عہدے پر فائز شخص معیشت کے انتہائی سنجیدہ پہلو پر ایک غیر سنجیدہ بات کرے تو یقیناً یہ سر پیٹنے کا مقام ہے
ایسا ہی ایک بیان پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کی طرف سے سامنے آیا ہے، جب انہوں نے انوکھی منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر مہنگا ہونے اور روپے کی قدر کم ہونے سے اگر کچھ پاکستانیوں کو نقصان ہورہا ہے، تو سمندر پار پاکستانیوں کے اہل خانہ کو فائدہ بھی ہورہا ہے!
ایک طرف وزیراعظم عمران خان ڈالر مہنگا ہونے کے نقصانات بتاتے ہیں کہ اگر ڈالر ایک روپے بھی مہنگا ہوجائے تو پاکستان پر قرضوں میں کئی ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں، وہیں دوسری طرف ڈالر کو کنٹرول میں ناکام گورنر اسٹیٹ بینک برطانیہ میں ڈالر مہنگا ہونے کے فوائد گنواتے پھر رہے ہیں
برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا کہنا تھا کہ ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خاندانوں کو فائدہ ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ یہاں محنت مزدوری سے کمائی رقم ملک واپس بھیجنے پر اس کی قدر بڑھتی جا رہی ہے۔‘
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ‘اب میں آپ کو اس کا کوانٹم بتانا چاہتا ہوں تاکہ آپ یہ اچھی طرح سمجھ جائیں کہ ایکسیچینج ریٹ کے اوپر جانے سے کچھ لوگوں کا نقصان ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال میں اگر مثال کے طور پر ہماری ترسیلات زر مثال کے طور پر تیس ارب ڈالر کی ہو جاتی ہے اور اگر ہماری کرنسی کی قدر دس فیصد بھی گرتی ہے، تو یہ تین ارب ڈالر اضافی اوورسیز پاکستانیوں کے خاندانوں تک پہنچ رہے ہیں
رضا باقر نے کہا کہ پانچ سو ارب اضافی پیسہ لوگوں کو پہنچ رہا ہے۔ ہر معاشی پالیسی میں کچھ لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے کچھ کو فائدہ نہیں ہوتا ہے، تو جب آپ بات کرتے ہیں کہ جن لوگوں کو فائدہ نہیں ہوا ہے، تو جن لوگوں کو فائدہ ہوا ہے، انھیں ہمیں نہیں بھولنا چاہیے
رضا باقر نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی مصنوعی اور عارضی ہے جس پر جلد قابو پا لیا جائے گا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات مثبت سمت میں چل رہے ہیں
سوشل میڈیا پر صارفین کی اس بیان کو سننے کی دیر تھی کہ اس حوالے سے شدید تنقید شروع ہو گئی۔ اس تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حالیہ عرصے میں پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے باعث ملکی معیشت اور اس حوالے سے کیے گئے فیصلوں پر پہلے ہی تنقید کی جا رہی ہے
اس حوالے سے اکثر سوشل میڈیا صارفین یہ سوال بھی پوچھتے دکھائی دیے کہ ‘کیا یہ مذاق ہے؟’ اس بیان کے حوالے سے جہاں اکثر صارفین معاشی اصولوں کے حساب سے اس کی منطق کے بارے میں سوال کر رہے ہیں وہیں کچھ صارفین یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان کے مرکزی بینک کے گورنر کو صرف بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کا خیال ہے، اور ملک کے باقی عوام کی فکر نہیں ہے
ماہر معاشیات عمار خان نے گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اپنے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے مرکزی بینک کا نام تبدیل کر کے اسٹیٹ بینک برائے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی رکھ دینا چاہیے۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے علاوہ اس کے پاس بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو خوش رکھنے کا قانونی حق بھی ہونا چاہیے
نورین حیدر نامی صارف نے لکھا کہ ’یہ ناقابلِ یقین ہے۔ یہ شخص گورنر سٹیٹ بینک ہیں؟ یہ بہت خوفناک بات ہے۔ اگر ان کی سمجھ بوجھ کا یہ معیار ہے اور یہ آئی ایم ایف سے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کریں گے تو پھر اللہ کی پناہ۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ہیں، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے نہیں۔ انھیں 20 کروڑ افراد کے لیے روپے کی قدر کو بہتر کرنا ہے نہ کہ کچھ ہزار افراد کے لیے اچھا ایکسچینج ریٹ یقینی بنانا۔‘
جویریا نامی ایک صارف نے سوال پوچھا کہ ’اوورسیز پاکستانی کتنا پیسہ بھیجیں آخر؟ مہنگائی کی شرح بھی تو دیکھیں دوسرا جس نے پاکستان میں ہی محنت کرکے کمانا اور کھانا ہے وہ مر جائے؟‘
سیاست اور معیشت پر تحقیق کرنے والے بلال غنی نے گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان کے جواب میں اعداد و شمار کی بنیاد پر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ‘اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے کہا کہ روپے کی قدر گرنے سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ بالکل ہوتا ہے، لیکن صرف پانچ فیصد گھرانوں کو! کچھ اندازوں کے مطابق سات فیصد کو۔ پاکستان کی 22 کروڑ آبادی تین کروڑ گھرانوں میں تقسیم ہے، یعنی ہر گھر میں لگ بھگ سات افراد، اس طرح ان تین کروڑ خاندانوں میں سے صرف 15 لاکھ خاندان ہی اس سے مستفید ہوں گے اور دو کروڑ 85 لاکھ گھرانے متاثر ہوں گے.