
ملیر کی زمین پر سندھ حکومت کی جانب سے جو منصوبہ “ایجوکیشن سٹی” کے نام سے شروع کیا گیا ہے وہ ملیر کی زمینوں پر قبضے کی ایک نئی شکل ہے۔ یہ منصوبہ ریاستی و حکومتی اداروں اور کارپوریٹ مفادات کو ترقی اور علم جیسے خوبصورت الفاظ کے پردے میں ملیر کی زمینوں، ماحول اور انڈیجینس آبادیوں کے وجود پر حملہ آور ہیں۔ بظاہر تو یہ تعلیم کا ایک منصوبہ ہے لیکن حقیقت میں یہ ملیر کے وسائل، کھیتوں، باغات اور شناخت کی نجکاری و تباہی کا ایک خطرناک باب ہے۔ ملیر ایجوکیشن سٹی کراچی کے ڈسٹرکٹ ملیر میں وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ایک ایسا منصوبہ ہے جسے “انسانی سرمایہ کاری” اور “علمی و تعلیمی ترقی” کے نام پر متعارف کرایا گیا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ تعلیم کی آڑ میں ملیر کی زمینوں کو منڈی بنانے کا منصوبہ ہے۔ جہاں مقامی لوگوں کو “ترقی کے دشمن” قرار دے کر ان کے کھیت، گھروں اور تاریخ کو مٹایا جا رہا ہے۔ جو زمین کبھی کراچی کے دیہی نظامِ حیات، زراعت اور فطری توازن کا حصہ تھی آج وہ کارپوریٹ زونز، کمرشل بلاکس اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس میں تقسیم ہو چکی ہے۔
ریاستی بیوروکریسی اور سرمایہ دار طبقہ مل کر ملیر میں“ایجوکیشن سٹی” کے نام پر وہی کچھ کرنے جا رہا ہے جو کبھی نوآبادیاتی دور میں یورپی طاقتوں نے “تمدن” اور “ترقی” کے نام پر مقبوضہ مقامی لوگوں کے ساتھ کیا تھا۔ ملیر ایجوکیشن سٹی دراصل اُس عالمی نوآبادیاتی ماڈل کا مقامی چہرہ ہے جس میں علم، زمین اور فطرت تینوں کو منڈی کے ناپ تول پر پرکھا جاتا ہے۔ یہ وہی عالمی مالیاتی ماڈل ہے جو ترقی کے نام پر افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ میں زمین اور ماحول کی نجکاری کو جائز بناتا ہے۔ آج یہی اصطلاحیں “ہیومن کیپیٹل”، “اسمارٹ سٹی”، “زوننگ پلان” ملیر میں نیو کالونیل نظام کی زبان بن چکی ہے۔
ملیر کبھی کراچی کا گرین بیلٹ ہوا کرتا تھا ملیر جسے کراچی کا آکسیجن حب کہا جاتا تھا۔ یہاں سے شہر کو خوراک، تازہ سبزیاں، پانی اور تازہ ہوا ملتی تھی۔ ملیر کی وہ زمین جہاں کبھی سبزیاں اگتی تھیں اب وہاں کنکریٹ اور سیمینٹ کی دیواریں کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ کراچی کی غذائی خودمختاری کے دل پر وار ہے جہاں کھیتوں کی خوشبو کی جگہ تعمیرات کی گرد و دھول نے لے لی ہے۔ مگر آج انہی کھیتوں اور باغات پر ترقی کے بلڈوزر چل رہے ہیں۔
زیرِ زمین پانی کے ذخائر خشک کیے جا رہے ہیں اور کراچی کے مستقبل سے سانسیں چھینی جا رہی ہیں۔ تعمیراتی زونز اور سیمینٹ کے پھیلاؤ نے ماحولیاتی توازن کو تباہ کر دیا ہے۔ جن دیہات میں صدیوں سے مقامی برادریاں آباد تھیں وہاں اب “تعلیمی زون” اور “کارپوریٹ پارٹنرشپ” کے بورڈ لگے ہیں۔ مقامی عوام کی زمین کو قبضہ میں بدل دیا گیا ہے اور ملیر کی عوامی مزاحمت کو “غیر قانونی” قرار دیا جا رہا ہے بالکل اسی یورپی نو آبادیاتی ماڈل کی طرح۔ اکتوبر 2025 میں لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ کی جو سمری وزیراعلیٰ سندھ کو بھیجی گئی اس قبضے کی باقاعدہ منظوری ہے۔ یہ سب کچھ عوامی رائے کے بغیر خاموشی اور فریب کے پردے میں کیا جا رہا ہے۔ نہ کوئی ماحولیاتی رپورٹ نہ کوئی عوامی مشاورت نہ کوئی جواب دہی۔ ملیر کی 10 ہزار ایکڑ سے زائد زمین “ایجوکیشن سٹی بورڈ” کے نام منتقل کر دی گئی ہے جس کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین ہیں۔ یہ وہی ماڈل ہے جہاں ریاستی بیوروکریسی، سیاسی اشرافیہ اور کارپوریٹ مفادات ایک دوسرے میں مدغم ہو کر عوامی زمین کو “ترقیاتی پراجیکٹ” بنا دیتے ہیں۔ یہی طریقہ نوآبادیاتی دور میں برطانوی حکومت نے “ریونیو میپنگ” اور “زمین کی رجسٹریشن” کے ذریعے اپنایا تھا۔ آج وہی عمل پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام سے جاری ہے۔ ملیر ایجوکیشن سٹی کے نقشے میں تعلیمی اداروں کے ساتھ رہائشی اور تجارتی زونز بھی شامل کیے گئے ہیں۔ گویا علم کے پردے میں ایک کارپوریٹ رئیل اسٹیٹ کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ ایجوکیشن سٹی علم کے نام پر زمین کا سودا سرمایہ دارانہ قبضے کا نیا نصاب ہے۔ تعلیم کے نام پر ملیر کی زمین خاموشی سے مارکیٹ ویلیو میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کے حقوق، ماحول کی حفاظت اور دیگر خدشات و تحفظات کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ ملیر ایجوکیشن سٹی ایک کارپوریٹ کالونی ہے ایک ایسا منصوبہ جو ملیر کی روح، زمین اور شناخت پر قبضے کی جدید ترین شکل ہے۔




