اسلام آباد : لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر کو سات ماہ قبل ہی سعودی عرب میں پاکستانی سفیر لگائے جانے کے بعد اب اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم عمران خان انہیں واپس بلانے پر غور کر رہے ہیں
وزارت خارجہ کے ترجمان سے جب اس معاملے پر چند روز قبل سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا
سعودی عرب میں پاکستانی سفیر بلال اکبر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں شاید کچھ افواہیں زیر گردش ہیں
دوسری جانب ذرائع کے مطابق ریاض میں اُن کے متبادل کا نام بھی طے کرلیا گیا ہے اور اس بارے میں جلد اعلان متوقع ہے۔ تاحال بلال اکبر کو واپس بلانے کی اصل وجہ معلوم نہیں، لیکن غیر مصدقہ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں چیئرمین نیب لگانے پر غور جاری ہے
واضح رہے کہ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال فی الحال عہدے میں توسیع لیے ہوئے ہیں اور ان کے عہدے کی مدت 8 اکتوبر کو ختم ہونے کے بعد انہیں توسیع دی گئی تھی ، اگر بلال اکبر کو واپس بلانے کی اطلاعات درست ثابت ہوئیں تو حالیہ عرصہ کے دوران وہ دوسرے سفیر ہونگے، جنہیں عہدے کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی واپس بلایا جا رہا ہے. اُن سے قبل راجہ علی اعجاز کو ان کی رٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل ہی معطل کرکے قلیل مدتی نوٹس پر واپس طلب کرلیا گیا تھا
وزیراعظم نے اُن سے ملاقات میں ناراضی کا اظہار کیا تھا اور اس بات کا ذکر روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ایک ایونٹ میں کیا تھا۔ علاوہ ازیں، ڈپلومیٹک، کمیونٹی ویلفیئر اور قونصلر ونگ کے 6 دیگر افسران کو بھی واپس بلایا جا چکا ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ انہیں واپس بلانے کا فیصلہ پاکستانی کمیونٹی کی سفارتی عملے کے خلاف بڑھتی شکایتوں کی وجہ سے کیا گیا تھا
تاہم، وزارت خارجہ کی بیوروکریسی کے حلقوں میں اس فیصلے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا اور کچھ رٹائرڈ سفیروں نے اسے توہین قرار دیتے ہوئے احتجاج بھی کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلال اکبر چاہتے تھے کہ وہ کچھ عرصہ کے لئے سعودی عرب میں قیام کریں لیکن اُن سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ تیار رہیں کیونکہ واپسی کا نوٹس کسی بھی وقت جاری ہو سکتا ہے
یاد رہے کہ بلال اکبر دسمبر 2020ع میں فوج سے ریٹائر ہوئے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت وہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کے چیئرمین تھے
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب میں سفیر کا عہدہ اکثر ریٹائرڈ فوجی افسر کو دیا جاتا ہے، جس سے دونوں برادر ممالک کے تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے جو زیادہ تر دفاعی نوعیت کے ہیں
تاہم ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ ممکن ہے کہ اس مرتبہ بلال اکبر کے متبادل کے طور پر کسی ریٹائرڈ فوجی کے بجائے پیشہ ور سفارت کار کو مقرر کیا جائے.