کراچی : چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعلیٰ سندھ سے استفسار کیا ہے کہ آپ ہر بات میں فیڈرل حکومت کی بات کر رہے ہیں، اگر وفاق یہاں آکر بیٹھ گیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل فاضل بینچ نے گجر ، اورنگی اور محمود آباد نالوں کے متاثرین کی بحالی سے متعلق کیس پر سماعت کی، سندھ حکومت کی جانب سے گجر نالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے وزیر اعلی سندھ کو فوری طلب کر لیا
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ عدالت کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ کیا رپورٹ پیش کی ہے آپ نے؟ اب تک کیا ہوا ہے؟ زمینی حقائق کیا ہیں، یہ بتائیں. بلائیں وزیر اعلیٰ سندھ کو ابھی ان سے ہی پوچھیں گے
دوران سماعت عدالت عظمیٰ نے گجر، اورنگی اور محمود آباد نالے پر تجاوزات سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے حکم امتناع کو معطل کرکے تینوں نالوں کے اطراف تجاوزات ختم کرانے کا حکم دے دیا
چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سے استفسار کیا کہ اتنے عرصے سے شہر کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر کوئی پیش رفت نہیں، کیا ہو رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کیسے بہتر ہوگا، کوئی ایک چیز نہیں جس میں بہتری آرہی ہو، سہراب گوٹھ سے جاتے ہوئے کیا حالات ہیں، بتائیں کہ لوگ شہر میں داخل ہوتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں، آپ کہیں گے یونیورسٹی روڑ بنا دی، یونیورسٹی روڈ پر سب رفاعی پلاٹوں پر قبضہ ہوچکا ، آپ قصبہ مافیا سے کسی قسم کی رعایت نہ کریں، ان پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے، آپ کا وزیر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتا
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بتائیں کراچی کون چلا رہا ہے، کیونکہ سبھی ادارے مفلوج ہیں، کے ڈی اے، کے ایم سی اور ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا، کیا کراچی خود ہی چل رہا ہے، سندھ حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے، آپ کا کام تو صوبے چلانا ہوتا ہے، آپ کے ماتحت شہری اداروں کا کام ہے جو وہ نہیں کر رہے، جس کو بلاتے ہیں سب یہی کہتے ہیں کوئی کام نہیں کرنا،شہر میں کثیر المنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، آپ دوسرا بڑا صوبہ ہیں، آپ حکومت ہیں، پیسے لانے کے سیکڑوں راستے ہوتے ہیں
اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ماضی میں سڑکوں پر دکانیں لیز کر دی گئیں، ماضی میں جو کچھ ہوا اس کو ٹھیک کر رہے ہیں، سیاسی ایشوز بھی ہیں، کراچی کے دیگر مسائل بھی ہیں، بڑا ایشو مالی وسائل کا ہے، ہم مالی ایشو کو بھی دیکھ کر چل رہے ہیں، یہ کہنا غلط ہوگا کہ سول اداروں کے پاس اختیارات نہیں، ہم نے اداروں کو اختیارات دے رکھے ہیں، ہمیں اکیس گریڈ کے افسران درکار ہیں، وفاق سے سولہ میں سے چار افسران تعینات ہیں، ایک ایک آفسر سے تین تین عہدے چلوا رہے ہیں، وفاق کو متعدد بار کہہ چکے کہ افسران تعینات کریں
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم بھی متاثرین کی بحالی چاہتے ہیں، وفاق سے چھتیس ارب روپے آباد کاری کے لیے مانگے، ہمیں وفاق کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا. پہلی بار ہوا تاریخ میں وفاق سے کم ریونیو ملا ہے. ریاستوں کے لیے وسائل کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، واقعی دس ارب روپے سندھ حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں. متاثرین کے لیے پی سی ون بن چکا، ایک ارب روپے شروع میں جاری کرنے کی کوشش کریں گے، دو سال میں متاثرین کو بحال کر دیں گے
چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سے استفسار کیا کہ آپ بھی تو طویل عرصے سے کراچی میں ہیں، آپ لاڑکانہ اور سکھر دیکھ لیں، ان علاقوں میں گیا تو بہت بری صورتحال ہے، آپ کے ادارے کام کیوں نہیں کرتے؟ آپ دیکھ لیں کہ سندھ کے عوام کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں، آپ ہر بات میں فیڈرل حکومت کی بات کر رہے ہیں، اگر وفاق یہاں آکر بیٹھ گیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟