مانسہرہ : صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے ہاں گزشتہ دنوں سات بچوں کی پیدائش ہوئی تھی، جن میں سے چھ بچے یکے بعد دیگرے چل بسے، جبکہ ایک بچہ تاحال زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے
اس حوالے سے متعلقہ ہسپتال کا کہنا ہے کہ سات بچوں کی پیدائش سے قبل خاتون نے حمل ٹھہرانے والی دوا استعمال کی تھی
ایبٹ آباد کے نجی میڈیکل کالج سے منسلک جناح ہسپتال جہاں سات بچوں کی پیدائش ہوئی، کے گائنی وارڈ کے مطابق بچوں کی پیدائش قبل از وقت یعنی اکتیسویں ہفتے میں ہوئی۔ جب کہ نارمل حالات میں یہ مدت چالیس ہفتے پر مشتمل ہوتی ہے
انڈپینڈنٹ میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہسپتال کے گائنی وارڈ کی سربراہ و گائناکالوجسٹ ڈاکٹر روبینہ بشیر نے بتایا کہ جڑواں اور متعدد بچوں میں یہ خدشہ ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ ’پری میچور‘ یعنی قبل از وقت پیدا ہو سکتے ہیں اور اسی لیے ان کا وزن بھی ایک کلو یا اس سے کم ہوتا ہے
ڈاکٹر روبینہ بشیر نے کہا کہ ایک نارمل بچے کا وزن پیدائش کے وقت 2.5 کلو گرام ہونا چاہیے، جب کہ ان بچوں کا وزن صرف ایک کلو کے لگ بھگ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیدائش کے فوری بعد وہ مختلف مسائل کا شکار ہوئے اور باوجود کوشش کے جانبر نہ ہو سکے
ڈاکٹر روبینہ نے مریضہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ ضلع ایبٹ آباد سے تقریباً 73 میل دور ایک گاؤں چھتر پلین سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم رہے ہیں
ڈاکٹر روبینہ کا کہنا تھا کہ بتیس سالہ اس خاتون کے دو بچے اس سے قبل بھی آپریشن سے ہوئے تھے، اور اب بیٹے کی خواہش میں وہ دوبارہ حاملہ ہونا چاہ رہی تھیں۔ اس کی خاطر انہوں نے حمل ٹھہرانے والی ایک گولی لی، تاکہ وہ جلد از جلد حاملہ ہوں سکیں
گائناکالوجسٹ روبینہ بشیر کا کہنا ہے کہ متذکرہ خاتون کے ہاں متعدد بچوں کے جنم لینے کی وجہ وہ گولی اور انجیکشنز دکھائی دیتے ہیں جس کا استعمال خواتین فرٹیلیٹی یعنی افزائش نسل کے لیے کرتی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ افزائش نسل کی یہ ادویات اکثر دو یا دو سے زائد حمل ٹھہرانے کا موجب بنتی ہیں، کیونکہ ان کو کھانے سے عورت کی بیضہ دانیوں میں زیادہ انڈے جنم لیتے ہیں
ڈاکٹر روبینہ بشیر نے کہا کہ بیضہ دانیوں میں زیادہ انڈے جنم لینے سے زیادہ انڈے خارج ہونے اور حمل ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ تاہم دو یا دو سے زائد حمل ٹھہرنے سے عورت کی صحت اور جان کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جن کو مکمل اور مستقل طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اتنا آسان نہیں ہوتا
اگرچہ جناح ہسپتال میں سات بچے پیدا کرنے والی خاتون کو بظاہر کوئی بڑی بیماری لاحق نہیں ہوئی اور ان کی جان بھی بچ گئی، لیکن متعلقہ گائنی وارڈ کے مطابق حاملہ خاتون ان سے مستقل چیک اپ نہیں کرواتی تھیں۔ لہٰذا جب آخری مرحلے میں وہ ان کے پاس پہنچیں تو ان کا بلڈپریشر خطرناک حدوں کو چھورہا تھا
ایبٹ آباد میڈیکل کمپلیکس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حسین نے بتایا کہ جب بھی دو یا متعدد حمل ٹھہرتے ہیں تو یہ ہائی رسک تصور کیا جاتا ہے
انہوں نے کہا کہ بچہ دانی میں بچوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی قبل از وقت ڈیلیوری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ متعدد حمل ٹھہرنے سے عورت کو شدید ہائی لیول بلڈپریشر رہتا ہے۔ خون کی کمی کے ساتھ انہیں ذیابیطس، اسقاط حمل، سی سیکشن، بچوں کی پیدائش کے بعد خون بہنے (بلیڈنگ) جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد حمل ٹھہرنے سے صرف ماں کو ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نومولود بچوں کو بھی کئی پیچیدگیوں اور خطرات کا سامنا رہتا ہے
طبی تحقیق پر مبنی ویب سائٹ ’ری پروڈکٹیو فیکٹس‘ کے مطابق دنیا بھر میں ’متعدد پیدائشیں‘ ماضی کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی ہیں۔ جس کی مختلف سماجی، جسمانی اور سائنسی وجوہات ہیں
ویب سائٹ کے مطابق قدرتی طور پر ہر ڈھائی سو میں سے ایک کیس جڑواں بچوں کا آتا ہے۔ جب کہ ہر دس ہزار میں سے ایک ٹریپلیٹ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر سات لاکھ میں ایک ’کواڈروپلیٹ‘ (چار بچے) کا کیس ہوتا ہے۔ تاہم آج کل متعدد پیدائشوں کی ایک بڑی وجہ فرٹیلیٹی کی ادویات کا استعمال ہے
ڈاکٹر روبینہ بشیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی دو سے زائد بچوں کی پیدائش کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ بھی ’خاص‘ ادویات کا استعمال ہے
گائناکالوجسٹ روبینہ بشیر نے مشورہ دیا کہ شادی شدہ جوڑوں کو ادویات کی دکانوں میں دستیاب فرٹیلیٹی کی ادویات ڈاکٹر کے مشورے پر ہی لینی چاہئیں.