انسانیت سوز مظالم کے حوالے سے بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے کے ایک پاکستانی نژاد قیدی نے عدالت میں پہلی بار امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے تشدد کے ان طریقوں کو کھلے عام بیان کیا ہے، جو نائن الیون کے حملوں کے بعد گرفتار کیے گئے افراد پر استعمال کیے گئے اور جنہیں سی آئی اے دنیا سے چھپا رہی ہے
تفصیلات کے مطابق امریکی شہر بالٹی مور کے سابق رہائشی ماجد خان القاعدہ کے لیے پیغام رسانی کے الزام میں گرفتار ہوئے اور حکومت کے ظالمانہ تفتیشی پروگرام سے گزرے. انہوں نے جمعرات کو ایک عدالت میں بتایا کہ سی آئی اے نے ان پر ایسا گہرا اثر چھوڑا کہ وہ شدید طور پر خوفزدہ رہنے لگے، یہاں تک کہ اسے ہیلوسینیشن ہونے لگی یعنی مختلف شکلیں دکھائی دینے اور آوازیں سنائی دینے لگیں
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ماجد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے میں سزا مقرر کرنے کے لیے سماعت کے دوران انہوں نے جیوری کے ارکان کو تفصیل سے بتایا کہ کیسے ان پر سی آئی اے کی خفیہ جیلوں، جنہیں ’بلیک سائٹس‘ کہا جاتا ہے، میں کئی دن تک تشدد جاری رہا اور تفیش کار ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے
امریکا اسے ”تفیش کا بہتر“ طریقہ کہتا ہے، مگر زیادہ تر دنیا میں اسے تشدد ہی تصور کیا جاتا ہے
یہ پہلی بار تھا کہ کیوبا میں قائم امریکی بیس میں رکھے گئے کسی ہائی پروفائل قیدی کو اس طرح کھلی عدالت میں خود پر ہونے والے تشدد کے بارے میں گواہی دینے کا موقع ملا ہو
اکتالیس سالہ ماجد خان نے عدالت میں کہا کہ مجھے لگا میں مر جاؤں گا. مجھے چھت سے کئی دنوں تک برہنہ لٹکایا گیا اور کئی دنوں تک جگائے رکھنے کے لیے مجھ پر بار بار برف والا پانی پھینکا گیا
انہوں نے کہا کہ ان کا سر پانی میں ڈبوئے رکھا گیا یہاں تک کہ وہ سانس پھولنے سے مرنے کے قریب پہنچ گئے اور پھر سر باہر نکالتے ہی تفتیش کار ان کے منہ اور ناک میں مزید پانی ڈال دیا کرتے تھے
ماجد کا کہنا تھا کہ مجھے مارا گیا، کئی بار زبردستی انیما (پیٹ خالی کرنے کی دوا) دیا گیا، جنسی تشدد کیا گیا اور بھوکا رکھا گیا اور یہ سب کچھ ایسی بیرون ملک جیلوں میں ہوا، جن کا پتہ خفیہ رکھا گیا
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میں ان سے التجا کرتا رہا کہ رک جاؤ. میں نے قسمیں کھائیں کہ مجھے کچھ نہیں پتہ۔ اگر میرے پاس کوئی معلومات ہوتیں تو میں پہلے ہی دے چکا ہوتا، میرے پاس اور کچھ نہیں تھا
واضح رہے کہ ان کے خلاف مقدمے میں سزا تعین کرنے سے متعلق عدالت کی سماعت گوانتاناموبے میں دو دن تک جاری رہے گی
جمعرات کو سماعت کے پہلے روز انہوں نے اپنی گواہی 39 صفحات پر مشتمل ایک بیان سے پڑھ کر سنائی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے فورٹ میڈ، میری لینڈ میں وڈیو فیڈ کے ذریعے یہ سماعت سنی
فوجی افسران کا ایک پینل، جسے کنویننگ اتھارٹی کہتے ہیں، انہیں پچیس سے چالیس سال تک کی قید سنا سکتا ہے، مگر ممکنہ طور پر ہوسکتا ہے کہ انہیں اس سے کم ہی وقت جیل میں گزارنا پڑے کیونکہ انہوں نے حکام سے کافی تعاون کیا ہے
حکام سے کیے گئے معاہدے کے تحت جیوری کی جانب سے ماجد خان کو دی جانے والی قید کی سزا کو کنویننگ اتھارٹی گیارہ سال تک کم کر سکتی ہے اور 2012ع سے ان کے قید میں گزرے وقت کو بھی اس میں شمار کیا جائے گا، جب انہوں نے مجرم ہونے کا اعتراف کیا تھا
اس کا مطلب ہے کہ انہیں اگلے سال تک رہائی مل سکتی ہے اور کسی تیسرے ملک میں ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ پاکستان واپس نہیں جا سکتے
ماجد خان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی کچھ تفصیلات 2014ع میں شائع ہونے والی ایک سینیٹ انٹیلیجنس کمیٹی کی رپورٹ میں بھی موجود ہیں، جس میں سی آئی اے پر الزام لگایا گیا کہ اس نے القاعدہ سے منسلک قیدیوں پر اپنے قانونی حدود سے زائد تشدد کیا اور قوم سے بھی اپنے حربوں کے بارے میں جھوٹ بولا
سماعت میں ماجد خان نے اس رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میں جتنا ان سے تعاون کرتا اور بتاتا، مجھ پر اور بھی زیادہ تشدد کیا جاتا
ماجد گوانتانامو میں اس انسانت سوز تشدد پر مبنی تفتیشی پروگرام سے گزرنے والے ان ہائی پروفائل قدیوں میں سے پہلے قیدی ہیں، جنہیں بیس پر قائم فوجی ٹریبیونل کی جانب سے مجرم قرار دے کر سزا سنائی جائے گی.