ٹوکیو : ایک نئی جاپانی کمپنی اے ایل آئی ٹیکنالوجیز نے ہیلی کاپٹر کی طرح ہوا میں اڑنے والی موٹر سائیکل ”ہوور بائیک“ کا افتتاح کر دیا ہے
کمپنی کے مطابق فی الحال اس کے محدود پیمانے پر بنائے جانے والے ماڈل ’ایکس ٹروسیمو‘ کی نقاب کشائی کی گئی ہے
کمپنی نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ کار استعمال کرنے والوں کو کار کی جگہ چھ لاکھ 80 ہزار ڈالر کی اڑنے والی موٹر سائیکل لینے پر قائل کر لے گی
ٹوکیو میں قائم اس نئی کمپنی کو ٹیکنالوجی کی دنیا کی مشہور کمپنی مِٹسبوشی اور جاپانی فٹبالر کیسوکے ہونڈا کی تعاون حاصل ہے
اڑنے والی ہوور بائیک کے بارے میں اے ایل آئی ٹیکنالوجیز کا کہنا ہے کہ ان کی یہ جدید ترین موٹرسائیکل ایک مرتبہ چارج کرنے سے چالیس منٹ تک ایک سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑان بھر سکتی ہے
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اگلے سال کے وسط تک اس ماڈل کی تین سو کلوگرام وزنی دو سو موٹر سائیکل بنا لے گی
اس موٹر سائیکل پر ایک شخص ہی سوار ہو سکتا ہے اور اس میں موٹر سائیکلوں والے روایتی انجن کے علاوہ بیٹری سے چلنے والی چار موٹریں لگی ہوئی ہیں
کمپنی کے چیف ایگزیکٹِو ڈیسوکے کٹانو نے بتایا کہ اب تک ہمارے پاس دو ہی طریقے تھے، زمین پر حرکت کر لیں یا آسمان پر چڑھ جائیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم حرکت کرنے کا ایک نیا طریقہ متعارف کرا رہے ہیں
ٹوکیو کے ایک کروڑ 50 لاکھ رہائشیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ سڑکوں پر ٹریفک کی بھیڑ ہے. اگرچہ جاپانی دارالحکومت یہ شہر جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہے، لیکن دنیا کا گنجان ترین بڑا شہر ہونے کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے
واضح رہے کہ موجودہ قوانین کے تحت ہوور بائیک کو جاپان کی مصروف سڑکوں کے اوپر نہیں اڑایا جا سکتا، تاہم مسٹر کٹانو کو امید ہے کہ مشکل مقامات تک رسائی کے لیے امدادی اداروں کے کارکن یہ موٹر سائیکل استعمال کریں گے
اس جدید بائیک کے حوالے سے ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں قانونی مشاورت فراہم کرنے والی برطانوی کمپنی پِنسینٹ میسنز سے منسلک بین گارڈنر کا کہتے ہیں کہ ایسی گاڑیاں جو کبھی محض تصوراتی تھیں، وہ اب ہر آنے والے سال میں حقیقت بنتی جا رہی ہیں. ہمیں بھی امید کرنی چاہیے کہ آخر کار یہ اُڑنے والی موٹر سائیکل یہاں برطانیہ میں بھی آ جائے گی
اگرچہ موجودہ قوانین کے تحت برطانیہ میں بھی اس ہوور بائیک کو سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں ہوگی، لیکن گارڈنر کا خیال ہے کہ حالیہ برسوں میں نئی نئی ٹیکنالوجیز پر جس قدر زور دیا جا رہا ہے، اس سے تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ ڈرائیور کے بغیر کاروں، خودکار روبوٹس، ڈرونز جیسی جدید ٹیکنالوجیز کی حالیہ بھرمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے پاس نئی اقسام کے ذرائع آمد و رفت کا ایک ماڈل آ گیا ہے، جس کی مدد سے ہم ان چیزوں کو سائنس فِکشن سے اب حقیقی دنیا میں لا سکتے ہیں
نئے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری والے کاروباری افراد، فضائی کمپنیاں اور حتیٰ کہ اُوبر جیسی کمپنیاں ہوا میں اڑنے والی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی صنعت سے بہت امیدیں لگائے بیٹھی ہیں اور ماہرین کہتے ہیں کہ سنہ 2040ع تک اڑنے والی گاڑیوں کی صنعت کی کل مالیت ڈیڑھ کھرب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے.