باران و اشک (فارسی ادب سے منتخب افسانہ)

رضا بابا مقدّم

نوٹ: یہ فارسی زبان کے معروف شاعر اور ادیب رضا بابا مقدّم کے افسانے کا اردو ترجمہ ہے. مُقدّم کا اصل نام رضا بابا مقدم ہے. وہ 1875ع میں ایران کے شہر تہران میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن اور قانون کی تعلیم کے حصول کے بعد فوج میں ملازمت حاصل کی اور اعلٰی عہدے پر فائز رہے۔ ان کی مشہور کتابوں میں عقابِ تنہا، سلام برغم، فرانسہ است، مرد بی شناسنامہ اور اسب شامل ہیں. ان کی کہانیوں کے واقعات ایک بے چینی اور مایوسی کے ماحول میں رونما ہوتے ہیں۔ ان کی یہ کہانی جانوروں کے لیے ہمدردی کے گرد گھومتی ہیں.

 

سرما کی شام تھی. بندرگاہ پہلوی کے کہر آلود اور اُداس ساحل پر میں اور محمود چہل قدمی کر رہے تھے. لہروں کا شور تھا اور پرندوں کی آوازیں چاروں طرف گونج رہی تھیں، جو دور سمندر کی سطح سے ملے فضا میں پر مارتے چلے جاتے تھے. ہم مزید آگے بڑھے، تو سمندر تاریک ہو گیا. سیاہ بادل اس پر یوں جھک آئے کہ خیال ہوتا، وہاں آسمان اور سمندر مل کر ایک ہو گئے ہیں.
ایک بہت بڑی موج سفید چادر کے مانند ہمارے پیروں کے آگے بچھ گئی. کچھ دیر زمین پر سفید سفید جھاگ ٹِکا رہا، پھر وہیں جذب ہو گیا.. ہمارے پیروں تلے ریت دب کر سخت ہو گئی اور اس میں سمندر کا پانی اکٹھا ہونے لگا. ہمارے پیر ریت میں دھنس کر اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی کھینچ لیتے.. ہم پلٹے، مڑ کردیکھا، تو موجوں نے ہمارے قدموں سے پڑنے والے نشانوں کو بھر دیا تھا، گویا ہم تھے ہی نہیں اور وہاں کبھی ہمارے قدم پڑے ہی نہ تھے…

اسی دم محمود اپنی داستان سنانے لگا: ”عجیب دنیا ہے… چند سال پہلے تک میں اس شہر میں توپ خانے کا افسر تھا. جنگ چھڑی، تو سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا. میں روسی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اسی شہر میں سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا.. روسیوں نے توپوں پر قبضہ کیا اور افسروں کو جیل میں ڈال دیا. سپاہی بھی اِدھر اُدھر چلے گئے، بس گھوڑے باقی رہ گئے.. میرا گھوڑا ابلق تھا، بڑا خوش رنگ، جوان اور شوخ، خوب گردن اکڑا کر چلتا.. اس کی آنکھوں کی رنگت بھی انوکھی تھی، نیلی نیلی سی معلوم ہوتی.. فوجی بیرکوں میں اس کا نام ”کاسی“ پڑ گیا تھا..“

قصہ سناتے ہوئے محمود نے مزید بتایا ”کاسی میری سواری کا گھوڑا تھا. جوانی کے دن تھے.. اِس پر سوار ہوتا تو مزہ آ جاتا.. افسر کا گھوڑا تھا، اسی لیے اس کا خیال بھی بھی دوسرے گھوڑوں سے زیادہ تکھا جاتا اور وہ ہمیشہ چاق چوبند رہتا.. میں جیسے ہی اس پر سوار ہوتا، وہ گردن اکڑا کر اگلی ٹاپوں پر دُلکی چال چلنے لگتا. راستے کی پتھریلی زمین پر اس کے نعل پڑنے کی آواز سے فضا گونجنے لگتی. لوگ کاسی کی مستانہ چال دیکھنے کے لیے چلتے چلتے رک جاتے. میں بھی اس پر سینہ تانے بیٹھا گردن اکڑا لیتا اور ترنگ میں آ کر جھومنے لگتا..“

محمود نے اپنی بات جاری رکھی ”میں اور کاسی شہر بھر میں مشہور تھے. کاسی مجھ سے اتنا مانوس تھا کہ اگر میں دور سے اُسے پکارتا، تو وہ فوراً گردن گھماتا اور جواب میں ہنہنا کر مجھے دیکھنے لگتا. جب میں جیل میں قید ہوا، تو سب سے زیادہ فکر مجھے کاسی ہی کی تھی، سوچتا تھا کہ معلوم نہیں کسی نے اس کے دانے پانی اور گھاس کی خبر گیری کی بھی ہوگی کہ نہیں…“

”اور بھی ہزاروں فکریں تھیں.. مثلاً یہ کہ خود میرا کیا بنے گا؟ ہمیں یہیں قید رکھا جائے گا یا سائبیریا یا کسی اور علاقے میں بھجوا دیا جائے گا؟ جنگی قیدیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے میں آ رہی تھیں، مختصراً یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں تھیں.. مجھے کہا گیا کہ میں نے تو لڑائی میں توپیں استعمال کی تھیں اور اپنا سارا گولا بارود دشمنوں پر جھونک دیا تھا، اس لیے میرا انجام بہت برا ہونا ہے.. لیکن کسی کو ٹھیک سے کچھ معلوم نہیں تھا. کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہمارا معاملہ کس کروٹ بیٹھے گا. جیل میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا. میں ایک کونے میں جا بیٹھتا اور سوچتا رہتا.. دل چاہتا تھا آزاد ہو جاؤں اور جا کر کاسی کو دیکھوں، اس کی گردن تھپتھپاؤں، اس کی تھوتھنی پر ہتھیلی رکھ کر سانس کی گرمی محسوس کروں.. یہ سارے خیالات سارا دن مجھے گھیرے رہتے، مگر راتیں…. راتیں وحشت ناک ہوتیں… سارے قیدیوں کے سونے کی اپنی ہی عادتیں تھیں.. کچھ زور زور سے خراٹے لیتے. بعض نیند میں پوری آواز سے بولے جاتے، حکم دیتے اور کبھی رونا شروع کر دیتے.. ان کی فریادیں اور بولیاں سن کر طبیعت میں عجیب مایوسی اور افسردگی پیدا ہو جاتی. وہاں قیدی کیا کیا ارمان لے کر سونے لیٹتے اور خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر کابوس سے دو چار ہو جاتے.. چلاتے، گالیاں بکتے اور گھگیاتے.. کبھی کسی بات کا اعتراف کرتے، کبھی کسی تمنا کا اظہار اور کبھی بہکنے لگتے..“

”میرے خوابوں کی دنیا کے زیادہ حصے پر کاسی حاوی تھا.. مجھے اس کی نیلگوں آنکھیں نظر آتیں، جو اندھیرے میں چمکتے ہوئے میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہتیں.. ان نگاہوں میں التجا ہوتی اور ملامت بھی..“

”ایک دن جیل میں خبر پھیل گئی کہ کل توپیں اور گھوڑے روسی جہازوں میں لے جا رہے ہیں.. میرا دل ڈوبنے لگا.. کاسی کا کیا ہوا؟ اسے بھی لے کر جا رہے ہیں؟ اگر یہی ہوا، تو میں اکیلا رہ جاؤں گا.. کاسی کو پھر سے دیکھنے کی آس بھی ٹوٹ جائے گی.. وہ میرا دوست تھا. ہم دونوں ہی جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے. اب وہ اسے لے کر جا رہے تھے.. اگر یہ خبر صحیح ہے، تو کاش میں بھی اس کے ساتھ چلا جاتا.. میں نے ساتھی قیدیوں کے سامنے توپوں اور گھوڑوں کا ذکر چھیڑا اور کاسی کے بارے میں ان کا خیال دریافت کیا. سب قیاس آرائیاں کرنے لگے.. آخر ایک قیدی نے کہا کہ ‘کاسی سواری کا گھوڑا ہے، توپ گاڑی کھینچنے کے کام کا نہیں.. پھر لڑائی کا زمانہ ہے، رسد کی یوں بھی کمی ہے، اس لیے یقینی ہے کہ کاسی کو کھا لیا جائے گا۔’ …گویا کاسی کو ذبح کر کے اس کا گوشت فوجیوں کو کھلا دیا جائے گا..!! پھر وہ فوجی بھی محاذوں پر مارے جائیں گے، بے چارے…!“

”اسیر ہونا اور جیل میں پڑنا بہت ہی بری چیز ہے۔ قید میں آدمی کا مزاج عجیب سا ہو جاتا ہے۔ خود پر اس کا بس نہیں چلتا اور وہ ایک فضول شے بن کر رہ جاتا ہے۔ ہر دن، ہر ساعت اس کے دماغ میں ہزارہا خیالوں کے بلبلے اُبھرتے اور ایک ایک کر کے پھوٹ جاتے ہیں.. رات آئے، تو خوابوں کی کہریلی دنیا کے آسیب اس پر حملہ کر دیتے ہیں.. دوسرے دن پھر وہی فکریں، خیالات، خوف، مایوسی اور وہی جیل کے بد ذائقہ پتلے شوربے کے ساتھ سخت روٹیاں نگلنا اور سوچتے رہنا…“

”جب یہ خبر اُڑی کہ کل گھوڑوں کو لے جائیں گے، مجھے سارا دن کاسی ہی کا خیال آتا رہا. رات کو بھی بڑی بے چین نیند سویا. دوسری صبح ہم سب قیدی وقت سے پہلے جاگ اٹھے، تاکہ جیل کی کھڑکیوں سے توپیں اور گھوڑے جانے کا منظر دیکھ سکیں۔ یہ دیکھنا بھی تماشا ہی تھا۔ آدمی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ہے اور دیکھتا ہے کہ لوگ اس کا مال لُوٹے لیے جا رہے ہیں، مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا…“

”ہم کھڑکیوں کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ وہاں سے بیرکوں کا احاطہ اور اصطبل دکھائی دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بارش کی ہلکی دُھند میں دور سے گھوڑوں کے سر نظر آنے لگے۔ ایک ایک روسی سپاہی دو گھوڑوں کو دہانوں سے پکڑے کھینچتا ہوا لا رہا تھا۔ اُنہیں دیکھ کر مجھ پر عجیب مایوسی سی چھا گئی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا، ٹانگوں میں دم نہ رہا اور منہ خشک ہو گیا… پھر بھی میں نے گردن آگے بڑھائی کہ اِن میں کاسی کو تلاش کروں۔ ہماری فوج کے سب گھوڑے گہرے رنگ کے سرخ اور کمیت تھے، صرف کاسی کے رنگ میں سفیدی اور اجلا پن تھا. اس کے بدن پر چھوٹی چھوٹی بھوری اور کتھئی چتیاں تھیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید رنگ پر ان دو رنگوں کا چھینٹا دیا گیا ہو۔“

”آخر میں نے اس کا چتکبرا رنگ دیکھا۔ میرا دم گھٹنے لگا۔ یہ وہی تھا…. اس کے تیوروں کا تیکھا پن اور گردن کا کھنچاؤ رخصت ہو چکا تھا۔ سر لٹکا اور کنوتیاں گری ہوئی تھیں.. چھل بل اور طراروں کا کہیں نشان نہ تھا۔ میلا چکٹ ہو رہا تھا۔ ٹانگوں پر کیچڑ اور لید کے تھکے جم گئے تھے۔ہفتوں سے ملائی دلائی ہوئی تھی، نہ کھریرا پھیرا گیا تھا.. وہ جیل کے سامنے پہنچا، تو میری زبان کو قفل لگ گیا۔ چاہتا تھا پکاروں، اُسے بلاؤں، چوکیداروں سے کہوں کہ اسے ذرا میری طرف گھما دیں.. میں نے کسی طرح خود کو سنبھالا اور سوکھے گلے سے دو تین بار صرف ایک لفظ نکال پایا: ‘کاسی ! کاسی! کاسی!’ یہ آواز سن کر ابلق گھوڑے میں جان سی پڑ گئی۔ یقین کرو، اس نے گردن تان لی۔ پھر سر گھمایا اور جہاں سے میں نے اسے پکارا تھا، اس طرف دیکھنے لگا اور زور سے ہنہنایا.. نہیں معلوم قیدیوں کے جھرمٹ میں کھڑکی کے پیچھے میں اُسے دکھائی دیا کہ نہیں، مگر چند لمحوں کے لیے اس کے پیروں میں وہی رقص کی سی چال پھر عود کر آئی۔ پھر سپاہی نے اس کے دہانے کی آہنی ڈنڈی کو منہ کے اندر زور سے کھٹکھٹایا۔ تکلیف کی شدت سے اس کی حالت پھر پہلے کی طرح ہو گئی..“

وہ کاسی کو لے گئے۔ دوسرے گھوڑوں کے ساتھ اسے بھی جہاز پر چڑھا دیا گیا۔ ہم بس دیکھتے ہی رہ گئے کہ وہ دور ہوتے جا رہے ہیں..“

ہم دونوں سنسان پشتے پر چل رہے تھے۔ سمندر کی جانب سے تیز ہوا کے جھونکے آ رہے تھے۔ موجیں پشتے سے ٹکرا ٹکرا کر پانی اُڑا رہی تھیں ۔ ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑ رہی تھی۔ میں نے محمود کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں کے نیچے اور رخساروں پہ نمی تھی۔ میں نے پوچھا: ”کیا روئے ہو؟“

اپنی کیفیت کو چھپاتے ہوئے وہ بولا: ”نہیں، ہماری عمر کے آدمی روتے نہیں، آنسو ہی نہیں نکلتے… بارش ہوئی ہے۔“

اندھیرا پھیل رہا تھا۔ سمندر سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ ہم واپس آنے لگے۔ راستے میں محمود کو میں نے یہ قصہ سنایا:
”میں فوج میں نیا نیا افسر لگا تھا.. روزانہ صبح اپنے گھر کی گلی کے آگے سڑک پر جا کھڑا ہوتا۔ میری رجمنٹ کی بس آتی اور میں اس پر کیمپ چلا جاتا۔ ایک دن میں ذرا جلد سڑک پر آ گیا، کچھ بس نے بھی دیر لگائی۔ اتنے میں میرا ایک دوست ادھر آ نکلا اور ہم وہیں کھڑے باتیں کرنے لگے۔ وہ بھی فوج میں افسر تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا، میرے پاس ایک خوبصورت سَمند (وہ گھوڑا جس کے جسم کا رنگ بادامی اور ایال اور دم و زانو سیاہ ہوں یا زانو اور اگلے پچھلے پایں کے بال سیاہ ہوں) گھوڑا ہے. وہ اُسے بیچنا چاہتا تھا۔ میں اس دوست سے بخوبی واقف تھا۔ وہ معاملات کا کھرا تھا اور سَمند گھوڑے مجھے پسند بھی تھے۔ لہٰذا میں نے دیکھے بغیر خرید لیا اور سودا وہیں کھڑے کھڑے طے پا گیا۔ دوست یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ اسی دن گھوڑے کو میری رجمنٹ میں بھجوا دے گا۔“

”ہماری رجمنٹ کا پڑاؤ شہر سے فاصلے پر تھا اور دوپہر کو ہم وہیں رہ جاتے۔ اُس دن میں کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی خبر لایا، گھوڑا آ گیا ہے۔ ہمارے کیمپ کے بیچ میں ایک لمبی سڑک تھی، جس کے دونوں طرف چنار اور سفیدے کے درختوں کی قطاریں تھیں۔ میں دفتر سے باہر آ کر سڑک پر کھڑا ہو گیا۔ دیکھا ایک سپاہی شوخ رنگ کے ایک گھوڑے پر بیٹھا آ رہا ہے۔ وہ بڑے قد کاٹھ اور بلند گردن والا گھوڑا تھا۔ جسامت ایسی کہ اس کے زین پر بیٹھا سپاہی چھوٹا سا معلوم ہوتا تھا۔ قریب آیا، تو دیکھا کہ عجب خوش انداز اور خوش رنگ گھوڑا ہے۔ اس کے رونگٹے سنہری مائل اور جھل مل جھل مل کر رہے تھے۔ چھوٹا سر، نرم چمکیلی آنکھیں، مضبوط جوڑبند اور بھاری سُم، اونچی گردن، کشادہ سینہ، چلنے رکنے میں سر کو تانے ہوئے… اس چھب کا گھوڑا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ خاص طور پر یکساں اور شوخ بادامی رنگ کا.. میں بے اختیار ہو کر اس کا سر اور کنوتیاں سہلانے لگا۔ وہ مزے سے کھڑا رہا، جیسے برسوں سے مجھ سے مانوس ہو.. سپاہی اس پر سے اترا اور میں وہیں آزمائش کے لیے اس کی رکاب میں پیر ڈال کر زین پر بیٹھ گیا۔ گھوڑا آگے بڑھا، تو میں نے اسے پویا چلایا پھر دُلکی چال… اس کے بعد کیمپ کی سڑک پر دور تک بڑے اطمینان کے ساتھ سرپٹ دوڑایا۔ اس کی سواری ایسی ہموار اور آرام دہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا، نرم گدے پر بیٹھا فضا میں تیر رہا ہوں.. میں نے اُسے اصطبل پہنچا دیا۔ وہاں سپاہی کو لوٹانے کے لیے اس کا زین اتارا گیا، تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے… اس کی کمر میں خم تھا… تو یہ خوبصورت گھوڑا زین پشت ہے! تم تو جانتے ہی ہو کہ گھوڑے کی کمر میں خم عیب سمجھا جاتا ہے.. کہتے ہیں، اس خم کے زیادہ ہونے سے گھوڑے کا دم کم ہو جاتا ہے۔ اس گھوڑے کی کمر میں زیادہ خم تھا۔ اس کی پیٹھ کا وہ حصہ، جہاں زین رکھتے ہیں، بلکل کمان کی طرح جھکا ہوا تھا…“

”لمحہ بھر کو مجھے خیال آیا کہ اسے واپس کر دوں، لیکن میرا دل نہیں مانا.. وہ بہت خوبصورت تھا۔ اس کی اصالت، تیور اور جمال سے کیونکر آنکھیں پھیر لیتا…؟
گھوڑے کو اصطبل میں باندھ دیا گیا۔ دوسرے دن سے وہ میری سواری میں رہنے لگا۔ تمہارے ابلق گھوڑے کی طرح ہم دونوں میں بھی عجب چاہت اور لگاؤ پیدا ہو گیا۔ میرا بلند قامت زین پشت سمند، جو گردن اٹھا کر چلتا اور بن بن کر زمین پر پاؤں رکھتا، بہت جلد مشہور ہو گیا۔ سرپٹ چال میں وہ صَرصَر کی طرح فضا کو چیرتا نکل جاتا۔ چونکہ اس کی کمر میں خم تھا، اسی لیے اس پر بیٹھنے میں بڑی راحت ملتی۔“

”دو سال گزرے تھے کہ توپ گاڑیاں پٹرول سے چلنے لگیں۔ پرانی چال کی گاڑیاں کباڑخانوں میں ڈھیر ہوتی گئیں۔ انہیں کھینچنے والے گھوڑے گلوں میں بھیجے جانے لگے.. فوج سے اصطبل اور گھوڑوں کا صیغہ ہی ختم ہوا، تو میں بھی مجبور ہوا کہ اپنے سمند کو وہاں سے ہٹا لے جاؤں۔ چونکہ میرے پاس رکھنے کا ٹھکانا نہیں تھا، لہٰذا اِسے بیچنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ دو تین ہفتے اسی الجھن میں گزر گئے۔ میرا دل اس کو الگ کرنے پر کسی طرح آمادہ نہ تھا۔ بالآخر جب سارے اصطبل خالی ہو گئے اور توپ گاڑیاں ہٹا دی گئیں، پھر میرا تبادلہ بھی ہو گیا۔ تب مجھے صبر کرنا پڑ گیا“

”میری رجمنٹ کا سائیس ایک خریدار کو لے آیا۔ اس نے گھوڑے کو دیکھا بھالا، پسند کر لیا اور پیسے بھی اچھے دیے۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ اس لاڈلے گھوڑے کو تکلیف نہ دینا۔ اگر اسے بیچنا چاہو، تو کسی ایسے آدمی کو بیچنا، جو اس کو فٹن یا چھکڑے میں نہ جوتے..“

”کئی مہینے گزر گئے۔ مجھے اپنے زین پشت سمند کی یاد آتی رہتی۔ جیسا کہ تم نے بتایا، میرا بھی دل چاہتا کہ کسی صورت اسے دیکھوں، تھپ تھپاؤں، اس بے زبان کے منہ کے آگے ہاتھ کروں اور گرم اور نرم سانسوں کو محسوس کروں. ایک دن خیابان شمیران کی چڑھائی پر مجھے ایک اونچا، لاغر سمند گھوڑا دکھائی دیا۔ آنکھیں بجھی بجھی، نڈھال بدن پسینے میں شرابور، مگر اُسی آن کے ساتھ جو مجھے اپنے سمند میں نظر آتی تھی، بوجھ سے لدے ایک کھڑکھڑے میں جتا اسے کھینچ رہا تھا۔ کوچوان نیچے اتر کر اس پر چابک برسا اور کھڑکھڑے کو دھکا لگا کر چڑھائی چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا… یہ وہی تھا! اس کا سنہرا بدن میل کچیل اور پسینے کے لیپ سے چکٹ کر کالا ہو چکا تھا۔ میرا بہت جی چاہا کہ قریب جا کر دیکھوں، اسے پکاروں اور اس کابدن سہلاؤں، لیکن مجھے شرم سی آ رہی تھی۔ وہ ایسے حال میں نہ تھا کہ میں اس کے سامنے جا سکتا۔ اس کی رگیں ابھر آئی تھیں۔ دائیں بائیں پٹھوں اور پیٹھ پر چابک کی مار سے نالیاں سی بن گئی تھیں… میں نے سوچا، کوچوان سے بات کر کے اِس کی کچھ سفارش کروں، لیکن اس سے کیا ہونا تھا….؟ وہ شکستہ حال قیدی، تھکا ہارا زین پشت سمند، جو اب میرا نہیں رہا تھا، اپنے مقدر کا لکھا پورا کر رہا تھا۔ میں خود سمجھ سکتا تھا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہو گا…“

بارش تیز برسنے لگی اور تاریکی پھیل گئی۔ میں اور محمود اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ بلب کی روشنی میں محمود نے مجھے دیکھا اور بولا:
”تمہارا چہرہ بھیگا ہوا ہے.. روئے ہو؟“

”اس عمر کو پہنچ کر آدمی نہیں روتا…“ میں نے کہا… ”پانی برس رہا ہے…“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close