قومی ادارہ برائے امراضِ خون (این آئی بی ڈی) میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ کراچی کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد میں ناول کورونا وائرس کے خلاف قدرتی طور پر مدافعت پیدا ہوچکی ہے جبکہ کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں یہ مدافعت سب سے زیادہ دیکھی گئی ہے
آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحقیقی مجلے "جرنل آف پبلک ہیلتھ” کے تازہ شمارے میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ، یہ تحقیق مئی سے جولائی تک این آئی بی ڈی میں کورونا وائرس کی جانچ پڑتال کے لیے موصول ہونے والے خون کے 1675 نمونوں پر کی گئی
خون کے ان نمونوں کے طبی تجزیئے کے بعد پتا چلا یے کہ ان میں سے 600 کے لگ بھگ نمونوں میں ناول کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں ، جو اس بات کا ثبوت تھیں کہ ان لوگوں میں قدرتی طور پر کووِڈ-19 کے خلاف مؤثر مزاحمت پیدا ہو چکی ہے اور وہ اس وائرس کو شکست دے چکے ہیں
اس تحقیق کی دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور طبقے کی سب سے زیادہ یعنی نصف تعداد (50.3 فیصد) میں کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز دیکھی گئیں، جب کہ عام لوگوں میں یہ شرح 34 فیصد اور طبّی عملے میں 13.2 فیصد دیکھی گئی
اس طرح کراچی کے تقریباً 36 فیصد شہریوں میں قدرتی طور پر کورونا وائرس کے خلاف مدافعت دیکھی گئی
این آئی بی ڈی کے سربراہ اور پاکستان کے مایہ ناز ماہرِ امراضِ خون ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا ہے کہ جولائی کے بعد سے اب تک کراچی کے شہریوں میں کورونا وائرس کے خلاف مدافعت کی مجموعی شرح 50 فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے جب کہ اس میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے
ڈاکٹر طاہر شمسی نے امید ظاہر کی کہ اگر کراچی کے شہریوں میں کورونا وائرس کے خلاف مدافعت میں اضافے کا یہی رجحان جاری رہا تو اس وائرس کی ویکسین دستیاب ہونے تک کراچی کی 75 فیصد سے بھی زیادہ آبادی قدرتی طور پر ہی کورونا وائرس سے محفوظ ہوچکی ہوگی۔