واشنگٹن : امریکا نے ہائی پروفائل رینسم ویئر گینگ ’ڈارک سائیڈ‘ چلانے والوں کو تلاش کرنے میں مدد کے لیے ایک کروڑ ڈالرز کے انعام کا اعلان کیا ہے
واضح رہے کہ رینسم ویئر ایسے سافٹ ویئر کو کہا جاتا ہے، جس کے استعمال کے ذریعے ہیکرز مختلف اداروں اور کمپنیوں کی اہم معلومات اور ڈیٹا چوری کرلیتے ہیں
امریکا نے روس میں مقیم گروپ کو اس آن لائن حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جس کی وجہ سے مئی میں امریکا کے مشرقی حصوں میں تیل کی سب سے بڑی پائپ لائن بند ہو گئی تھی
سائبر بھتہ خوری میں کسی کمپنی یا ادارے کے ڈیٹا کو انکرپٹ کرنے کے لیے اس کے نیٹ ورک کو توڑا جاتا ہے، پھر تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے، عام طور پر اسے کھولنے کے لیے جو چابی درکار ہوتی ہے اسے حاصل کرنے کے لیے کرپٹو کرنسی کے ذریعے تاوان ادا کیا جاتا ہے
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس انعام کی پیشکش میں، امریکا دنیا بھر میں رینسم ویئر کے متاثرین کو سائبر مجرموں کے استحصال سے بچانے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کرتا ہے
امریکا نے ڈارک سائیڈ کے ساتھ حملے میں شامل ہونے کی کوشش کرنے والے کسی بھی ملک میں کسی بھی شخص کی گرفتاری یا سزا کا باعث بننے والی معلومات کے لیے بھی پچاس لاکھ ڈالرز کے انعام کی پیشکش کی ہے
انغامی رقم کے ممکنہ طور پر پُرکشش ہونے کے باوجود سائبر سکیورٹی کے تمام ماہرین کو یقین نہیں ہے کہ اس انعامی رقم سے ہیکرز کو بے نقاب کیا جا سکے گا
اس حوالے سے نیٹینرچ نامی آئی ٹی اور سکیورٹی آپریشنز کمپنی سے منسلک جان بامبینک کا کہنا ہے کہ ایک انعامی رقم حاصل کرنے کا خواہشمند، جو امریکیوں کے علاقے میں پہنچے اور اسے بے ہوش کرکے ایک تھیلے میں ڈال کر قریب ترین امریکی سفارت خانے کے پاس پھینک دیا جائے، مجھے شک ہے کہ اس کا زیادہ اثر پڑے گا
واضح رہے کہ سائبر کرائمز دنیا بھر میں عروج پر ہیں۔ اکتوبر میں سامنے آنے والے نئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف 2021ع کی پہلی ششماہی میں رینسم ویئر سے متعلقہ ادائیگیوں میں 590 ملین ڈالرز امریکی حکام کو رپورٹ کیے گئے ہیں
امریکی وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اعداد و شمار 2020ع کے تمام مالیاتی اداروں کی طرف سے بتائی گئی رقم سے بھی 42 فیصد زیادہ ہیں اور ایسے مضبوط اشارے موجود ہیں کہ حقیقی رقم اربوں میں ہو
کمپنیوں اور اداروں پر اپنے ڈیٹا کو انلاک کرانے کے لیے ادائیگیاں کرنے کا شدید دباؤ ہے
دنیا بھر میں سائبر حملوں کے باعث حکومتوں اور افراد کو مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس معاملے میں عالمی قوانین اور فورس بنانے کی تجویز بھی دی جا رہی ہے
پاکستان میں بھی گذشتہ دنوں مالیاتی اور انتظامی اداروں کی ویب سائٹس پر حملے ہو چکے ہیں
حال ہی میں نیشنل بینک آف پاکستان کی سرکاری ویب سائٹ پر گذشتہ ہفتے ہونے والے سائبر حملے کے باعث قومی بینک کے آپریشنز کئی گھنٹوں تک معطل رہے تھے، جس سے نہ صرف صارفین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اہم معلومات کے ضائع یا چوری ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہوا تھا۔
نیشنل بینک اس سلسلے میں واحد مثال نہیں ہے، ماضی میں بھی دوسرے کئی اہم اور حساس سرکاری محکموں اور اداروں کی ویب سائٹس پر سائبر حملے ہوتے رہے ہیں
اس ضمن میں پاکستان میں نیشنل ٹیلی کام اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی سکیورٹی بورڈ (این ٹی آئی ایس بی) نے ایڈوائزری بھی جاری کی ہے، جس کے ساتھ 75 ایسے محکموں اور اداروں کی فہرست بھی دی گئی، جن کی سرکاری ویب سائٹس سائبر حملوں کا شکار ہو سکتی ہیں
ان میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک)، پاکستان ملٹری اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ، ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، پرائم منسٹر انسپیکشن کمیشن، ریسکیو 1122، ایوان صدر، وفاقی وزارت دفاعی پیداوار، سروے آف پاکستان، پاکستان ریلویز، وزارت انسداد منشیات اور پرائیوٹائزئشن کمیشن جیسے کئی اہم اور حساس محکمے شامل ہیں.