امریکی محکمہ دفاع نے چین کی بڑھتی ہوئی جوہری صلاحیت پر اپنے گزشتہ برس کے تخمینے پر نظرثانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ہزار تیس تک چین کے اسلحہ خانے میں ایک ہزار کے لگ بھگ ایٹمی ہتھیار ہوں گے، جنہیں دورمار میزائیلوں اور بمباروں کے ذریعے کرہِ ارض پر کہیں بھی داغا جا سکے گا
اگرچہ اس وقت امریکا کے پاس ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں۔ اس کے باوجود اسے اپنے مقابلے میں چین کی ایک تہائی ایٹمی قوت سے اس لیے تشویش ہے کہ چین کی نیت کیا ہے۔ وہ آخر کیا ثابت کرنا چاہتا ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے؟ پینٹاگون کا یہ بھی اندازہ ہے کہ اسلحے اور تربیتی معیار کو جس تیزی سے بہتر بنایا جا رہا ہے، اس کے سبب دو ہزار پچاس تک چین عسکری اعتبار سے امریکا کے ہم پلہ ہو جائے گا
اگرچہ روس کے پاس چین سے زیادہ جوہری وار ہیڈز ہیں، مگر امریکا کو روس کے بارے میں اس قدر تشویش نہیں ہے۔ سیدھی سیدھی وجہ یہ ہے کہ چین محض ابھرتی ہوئی فوجی طاقت نہیں، بلکہ اگلے تیس برس میں اقتصادی طاقت کے اعتبار سے امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔اور اس دعویٰ کی تصدیق ہر سرکردہ عالمی مالیاتی و عسکری ادارہ کر رہا ہے۔روس کی توجہ کا مرکز سابق سوویت ریاستیں ہیں۔ اگر روس ان ریاستوں کو اپنی عسکری قوت سے دبا بھی لیتا ہے، تو امریکی اور مغربی گلوبل مفادات کو فی الحال کوئی براہ ِ راست خطرہ نہیں۔ ویسے بھی مغرب اور روس تاریخی اعتبار سے ایک دوسرے کی قومی و علاقائی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ البتہ چین اس اعتبار سے آج بھی مغرب کے لیے ایک معمہ ہے
تاہم چین اگر اگلے ایک ڈیڑھ عشرے میں امریکی دفاعی قوت کے مقابلے میں نصف بھی حاصل کر لیتا ہے، تو بحیرہ جنوبی چین کے امریکا نواز ممالک (جنوبی کوریا ، جاپان ، فلپینز ، انڈونیشیا اور آسٹریلیا) کو چین جغرافیائی سہولت کے سبب براہِ راست چیلنج کر سکتا ہے۔ جب کہ امریکا کو اس کے توڑ کے لیے ایک اور تین کے تناسب سے اپنی بحری ، بری اور فضائی افواج کو بحیرہِ جنوبی چین میں متحرک کرنا پڑے گا
امریکی دفاعی ساکھ کو اس وقت سب سے بڑا نفسیاتی خطرہ یہ ہے کہ اگر اگلے پانچ برس میں چین ساحل سے تقریباً چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تائیوان کو ساتھ ملانے کے لیے اپنی محض ایک تہائی فوجی قوت بھی جھونک دیتا ہے، تو کیا امریکا اور اس کے ایشیا بحرالکاہل کے اتحادی محض تائیوان کو بچانے کے لیے خود کو ایک تباہ کن غیر حتمی نتائج کی حامل جنگ میں جھونکنے کی ہمت کریں گے؟
تائیوان ہاتھ سے جانے کا مطلب امریکا کی سپر پاور حیثیت کا باضابطہ خاتمہ ہوگا۔ اس بحران کے نتیجے میں جو تزویراتی و اقتصادی بھونچال آئے گا، اس میں کون سا اتحادی بچے گا اور کون ڈوبے گا؟ اس بارے میں کوئی بھی حتمی اندازہ لڑائی شروع ہوتے ہی غتر بود ہو جائے گا
لیکن چین جو اس وقت عالمی فیکٹری ہے۔ صرف ایک جزیرے کے لیے بڑھتے ہوئے قوم پرستی کے جذبے کو بے لگام چھوڑ سکتا ہے؟ چینی عسکری نظریہ ساز سن زو کے بقول اصل تدبر یہ ہے کہ جنگ ہتھیار اٹھائے بغیر جیت لی جائے۔ ورنہ بربادی مشترک ہوتی ہے اور امن کی قیمت جیتنے والا بھی برداشت نہیں کر پاتا
گویا سارا کھیل توازنِ دہشت کا مہارتی استعمال میں پوشیدہ ہے۔ پینتالیس برس تک جاری رہنے والی سوویت امریکا سرد جنگ اس کی بین مثال ہے۔ اس میں براہِ راست ٹکرائے بغیر ایک سپر پاور نے دوسری سپر پاور کو محض اپنے اقتصادی وسائل کی طاقت سے کمر توڑ مقابلے میں گھسیٹ کر چت کر دیا۔ اگلی سرد جنگ میں ترپ کا اقتصادی پتہ امریکا کے بجائے چین کے ہاتھ میں ہے۔ اور کس پتے کو کب چل کے کون سے صغیر و طویل المیعاد نتائج حاصل کرنے ہیں، اس بابت ڈھائی ہزار برس کے تسلسلی تجربہ سے مالا مال مڈل کنگڈم (چین) سوا دو سو برس سے وجود پذیر امریکا سے تاریخی و جغرافیائی اعتبار سے کئی ہاتھ آگے ہے
چینیوں کو مستقبل کی کوئی بھی جنگ جیتنے کے لیے امریکا پر فزیکل چڑھائی یا حملے کی ضرورت نہیں۔ انہیں بس یہ کرنا ہے کہ دشمن کو اپنے میدان میں بلا کر پھنسانا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے چین کے پاس کئی اسٹرٹیجک اکے موجود ہیں
اس بابت خطے میں ایک اہم اکا بھارت ہے۔ امریکا براہِ راست سامنے آنے کے بجائے بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہے۔ چین کو بھارت سے جَم کر لڑنے کی فی الحال کوئی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔چینی ٹکنیک ”باکسنگ رِنگ“ والی ہے۔ حریف کو نچا نچا کے بنا کوئی پنچ مارے بے دم کر دیا جائے۔ بھارت کو ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر مصروف رکھنے کے لیے چین کو محض ایک تہائی فوجی طاقت سرحد کے آس پاس رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حریف کو مسلسل ذہنی و دفاعی دباؤ میں رکھنا اصل لڑائی سے بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے
بھارت کو دباؤ میں رکھنے کے لیے چین کی حکمتِ عملی اس مجرب اصول پر مبنی ہے کہ براہ ِ راست چُھرا گھونپنے یا گتھم گتھا ہونے کے بجائے پورے جسم پر ہلکے ہلکے کٹ لگاتے رہو۔ آہستہ آہستہ خون رستا رہے گا اور آخر میں حریف جھنجھلاہٹ یا خوف کے عالم میں کوئی نہ کوئی ایسی عظیم غلطی ضرور کر بیٹھے گا کہ اسے شہہ مات ہو جائے۔ دوسری ترکیب یہ ہے کہ دکھاؤ دائیں کی اور مارو بائیں کی
چین نے بھارت کو نفیساتی دباؤ میں رکھنے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ پختہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، تاکہ بھارت کو کسی بھی بھرپور حملے کے خدشے میں ایڑیوں کے بل پر رکھا جا سکے۔ لیکن گزشتہ برس اس انفرااسٹرکچر کے استعمال کی نوبت نہیں آئی۔ بلکہ چین نے مارشل آرٹس کے ماہر نوجوانوں کو سرحد پر پہنچایا اور دو بدو لڑائی میں بنا اسلحہ استعمال کیے، بیس بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ مگر دلی میں ان بیس ہلاکتوں کا نفسیاتی اثر بیس ہزار ہلاکتوں کے برابر محسوس کیا گیا۔چنانچہ بھارت نے بادلِ نخواستہ اپنے خزانے کا رخ جوابی انفرااسٹرکچر ، سڑکوں اور سرنگوں کی تعمیر پر جھونک دیا
اگر سادہ ریاضی کی روشنی میں اس گیم کو دیکھا جائے، تو یہ چوہے بلی کا دلچسپ کھیل ہے۔ مثلاً فرض کر لیتے ہیں کہ چین کے پاس ایک ہزار روپے کا بجٹ ہے، جس میں سے سو روپے اس نے دفاعی انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر صرف کر دیے، یعنی ہزار روپے کا دس فیصد ۔ بھارت کے پاس چین کی اقتصادی طاقت کے تناسب میں چار سو روپے ہیں۔ اور اس نے بھی ان چار سو میں سے سو روپے دفاعی انفرا اسٹرکچر پر لگا دیے، یعنی چین نے جو ہدف دس فیصد خرچے سے حاصل کیا، وہی ہدف حاصل کرنے کے لیے بھارت کو پچیس فیصد بجٹ خرچ کرنا پڑا۔ اب ریاضی کے اس کھیل کو اگر ہتھیاروں کی مسلسل دوڑ کے نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو آپ خود حساب لگا لیجیے کہ اس دوڑ میں کون سب سے پہلے ہانپے گا۔
تو کیا اس آڑے وقت میں چین مخالف چہار رکنی اتحاد ( امریکا ، آسٹریلیا ، جاپان ، بھارت ) بھارت کی مدد کو آئے گا؟ تینوں ممالک بھارت کو ایک بڑی منڈی کے طور پر تو دیکھتے ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی ملک یا تینوں بھارت کے لیے خون دینے والے مجنوں بنیں گے ؟ ایسا مستقبلِ قریب میں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اور یہ راز صرف ایک بڑا طاقت ور ہمسایہ ہی جان سکتا ہے اور اس ہمسائے کو کوئی عجلت بھی نہیں۔ کیونکہ دشمن ہو کہ دوست سب کو اقتصادی مجبوری کے تحت چین سے آنے اور جانے والی شاہراہوں سے ہی گذرنا پڑے گا۔ اسے کہتے ہیں اقتصادیات و تاریخ و جغرافیے کا جبر۔