نیکی کر، دریا میں ڈال (افسانہ)

ڈاکٹر ابوبکر بلوچ

استاد خدابخش انجمن کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، گاؤں کے تمام معززین اجلاس میں شریک تھے۔ اس انجمن کو استاد خدابخش نے بڑی محنت اور جانفشانی کے بعد بنایا تھا۔ انجمن کی کوششوں سے گاؤں میں ایک لائبریری بھی قائم کی جا چکی تھی، اس کے علاؤہ استاد خدابخش شام کے اوقات میں بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ ساتھ ناخواندہ بالغ لوگوں کو بھی لکھنا پڑھانا سکھاتے تھے۔علاقے میں کھیل کی سرگرمیوں کو فروغ دینے بھی استاد پیش پیش رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی گاؤں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

جہاں استاد کے فلاحی کاموں کے قدرداں موجود تھے، وہیں ان کے مخالفین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو استاد کے سامنے کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتے تھے مگر پسِ پشت استاد کے خلاف انہوں نے نفرت انگیز پروپیگنڈے کا ایک محاذ کھول رکھا تھا، جس کی نہ کوئی منطق تھی اور نہ کوئی دلیل۔۔ بلکہ اس کا سبب صرف اور صرف ان کا حسد تھا۔۔ مگر استاد کی سوچ سود و زیاں سے بہت بالاتر تھی، وہ ان کی پرواہ کیے بغیر ہر وقت اپنے کام میں مگن رہتے تھے۔

ایک دن ان کے ایک پرانے دوست غلام حیدر ان کے پاس تشریف لائے، استاد نے بڑی گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔

”استاد! ان لوگوں نے آپ کے خلاف انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔آپ کو ان کے خلاف جوابی اقدام کرنا پڑے گا.“ غلام حیدر نے تشویش اور غصے کے عالم میں استاد سے کہا۔

”دیکھیے غلام حیدر! مجھے نہ کسی تعریف کی حاجت ہے اور نہ ہی بے جا تنقید کی کوئی پرواہ۔۔ ان کو اپنا کام کرنے دیجیے اور مجھے اپنا۔۔۔
اگر میں ان کا جواب دینے لگ جاؤں تو پھر میں اپنا مشن کیسے آگے بڑھا پاؤں گا۔۔؟“ استاد نے غلام حیدر کی بات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے بے فکری کے ساتھ جواب دیا۔

”میں بھی ابا جان سے یہی کہہ رہا ہوں کہ یہ گاؤں قدرناشناسوں کی بستی ہے، آپ ان لوگوں کے لیے اتنا کچھ کیوں کر رہے ہیں؟“ محفل میں شریک استاد کے منجھلے بیٹے عبداللہ نے مایوس لہجے میں کہا۔

”بیٹا! میں جس مقصد کے لیے یہ کام کر رہا ہوں، میرا رب ہی اس کو بہتر جانتا ہے۔۔ میرا ماننا ہے مخلوق سے صلے کی امید رکھے بغیر پیہم نیکی کرتے رہنا۔۔۔“ استاد خدا بخش نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

یہ روز کا معمول تھا استاد کا کوئی خیراندیش آتا اور استاد کو لوگوں کی مخالفت سے آگاہ کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہنے کی تجویز دیتا اور استاد کے بیٹے بھی اس کی ہمنوائی کرتے، مگر استاد پر اس کا کچھ اثر نہ ہوتا۔

اس شام انجمن کے اجلاس کا ایجنڈا گاؤں میں منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت کی روک تھام کے لیے حکمت عملی وضع کرنا تھا۔ انجمن کے تمام شرکاء نے اتفاق رائے سے منشیات مافیا کے خلاف پولیس کو رپورٹ کرنے کی قرارداد منظور کرتے ہوئے استاد کا بھرپور ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔

اجلاس کے بعد استاد خدابخش نے اپنے ہاتھ سے ایس ایس پی اور ایس ایچ او کے نام ایک درخواست لکھی جس میں منشیات مافیا کے خلاف کاروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

درخواست پر استاد خدابخش اور ان کے دیرینہ دوست غلام حیدر نے دستخط ثبت کیے جو انجمن کے بالترتیب صدر اور جنرل سکریٹری تھے۔ درخواست ایس ایس پی اور ایس ایچ او کے دفاتر میں جمع کروائی گئی۔

رات کو پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی اور منشیات مافیا کے ایک اہم کارندے بخشو کو گرفتار کرلیا۔ منشیات مافیا کا سرغنہ فقیرا اور اس کے دوسرے ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

رات کے آخری پہر منشیات مافیا کے کارندوں نے انجمن کے تمام عہدیداروں اور سرگرم اراکین کے گھروں پر دہاوا بول دیا۔

حیرت انگیز طور پر ان تمام عہدیداروں اور اراکین نے قسم کھا کر انجمن کی قرارداد اور پولیس کاروائی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو استاد خدابخش اور غلام حیدر کی کارستانی قراردیا۔۔ حالانکہ انجمن کے اجلاس میں یہی لوگ مافیا کے خلاف کاروائی پر زور دے رہے تھے۔

اس کے بعد ان کارندوں نے استاد خدابخش اور غلام حیدر کے گھروں کا رخ کرلیا۔ غلام حیدر پر انہوں نے اس قدر تشدد کیا کہ بے چارہ بے ہوش ہوگیا۔

استاد خدابخش کو بھی انہوں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا، پورا گاؤں خاموشی سے استاد پر ہونے والے تشدد کا تماشہ دیکھتا رہا۔۔ تماشہ دیکھنے والے وہی تھے، جو وقتاً فوقتاً استاد کو منشیات مافیا کے خلاف کاروائی پر اکساتے تھے۔

تشدد کے نتیجے میں استاد بری طرح زخمی ہوگئے، استاد کے بھائیوں اور قریبی رشتے داروں نے بڑی مشکل سے استاد کو ان کے چنگل سے نکالا، ورنہ وہ استاد کو جان سے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔

اگلے دن بخشو بھاری رشوت کے عوض رہا ہوکر گھر پہنچ گیا۔

کچھ دنوں کے بعد غلام حیدر کی طبیعت ذرا سنبھلی تو وہ استاد خدا بخش کے گھر پہنچے۔

”استاد! مجھے اپنے اور آپ کے اوپر تشدد کا کوئی رنج و غم نہیں ہے مگر مجھے گاؤں والوں اور خاص طور پر انجمن کے عہدیداروں اور اراکین کی منافقت اور بے حسی سے شدید صدمہ پہنچا ہے۔۔۔“ غلام حیدر نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ کہا۔

”مگر میں اس تشدد کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں، اس حملے سے میرے جذبوں کو اور زیادہ تقویت ملی ہے۔“ استاد نے عزم و یقین سے لبریز لہجے میں غلام حیدر کو تسلی دی۔

”مسئلہ تشدد کا نہیں ہے، لوگوں کی منافقت، جھوٹ اور بے حسی کا ہے۔“ غلام حیدر کے لہجے سے شدید مایوسی اور غم و غصہ چھلک رہا تھا۔

”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔۔ یہ سب کچھ غیر متوقع نہیں تھا۔۔۔میں جانتا ہوں کہ گٹر میں گلاب خوشبو نہیں دیتا اور نہ ہی گٹر کو گلاب سے مہکایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ مگر ہمیں اپنے حصے کا کام بہرطور کرتے رہنا چاہیے نتائج کی پرواہ کیے بغیر۔۔“ استاد نے بے پرواہی سے جواب دیا۔

”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر گاؤں والوں کے رویوں سے میرا دل ٹوٹ چکا ہے۔۔ میرا آپ کو بھی مشورہ ہے کہ آپ اپنی بہترین صلاحیتوں کو ان لوگوں پر ضائع مت کریں۔“ خدا بخش نے استاد کو مشورہ دیا۔

”میں ایسا نہیں کرسکتا ہے۔۔۔میرا اصول ہے، نیکی کر، دریا میں ڈال۔“ استاد نے دوٹوک لہجے میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔

ایک ماہ بعد صورتحال سے دلبرشتہ ہوکر غلام حیدر نے نقلِ مکانی کرتے ہوئے ٹھٹہ کے ایک پرسکون گاؤں میں رہائش اختیار کی۔

استاد خدابخش تن تنہا اپنے مشن پر کار بند رہے۔ مخالفت اور قدر نا شناسی کی پرواہ کیے بغیر وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ فلاحی سرگرمیوں میں انتہائی فعال کردار ادا کرتے رہے۔ چند برس کے بعد حرکت قلب بند ہونے کے باعث ان کا انتقال ہوگیا۔

کچھ دنوں کے بعد استاد کی یاد میں ایک تعزیتی پروگرام منعقد کیا گیا۔۔۔ جس میں وہ تمام لوگ ”اسمارٹ“ بن کر ان کو ”شاندار خراجِ عقیدت“ پیش کر رہے تھے، جو ان کی زندگی میں محض حسد کی بنا پر ان کی شدید مخالف اور قدر ناشناس تھے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button