دو شامیوں نے وڈیو کی مدد سے کیسے اسد حکومت کے جنگی جرائم کا پردہ چاک کیا؟

ویب ڈیسک

تدامون قتل عام کا ثبوت اکٹھا کرنے کے لیے درس و تدریس سے وابستہ دو افراد کی مہم جوئی سچ سامنے لے آئی ہے۔ چھ منٹ دورانیےکی فلم میں دوشامی اہلکاروں کو بے دردی کے ساتھ عام شہریوں کو گولیاں مار کر قتل کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے

ایک شامی منحرف نے اپریل سن 2022ع کے اواخر میں تدامون قتل عام کی ایک وڈیو لیک کی۔ سینکڑوں شامی خاندانوں نے اس امید میں یہ وڈیو دیکھی کہ انہیں معلوم ہو سکے کے ان کے لاپتہ بیٹوں پر کیا بیتی؟

ایسے خانداوں میں سے ایک صیام خاندان نے بھی یہ وڈیو دیکھی۔ ان کا چونتیس سالہ نوجوان بیٹا وسیم صیام 14 اپریل 2013 کی صبح دمشق میں اپنے گھر سے نکلا تھا۔ اسے حکومت کی طرف سے شہر کے جنوبی حصے میں واقعہ تدامون کی ایک سرکاری بیکری کو آٹا پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن وسیم اس کے بعد کبھی گھر نہیں لوٹا

صیام خاندان اب جرمنی میں آباد ہے، وہ کئی برسوں تک اس بات پر یقین کرتا رہا کہ وسیم کو ایک چیک پوائنٹ سے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے، لیکن پھر ایک شامی منحرف کی طرف سے لیک کی گئی وڈیو نے وسیم کی گمشدگی سے جڑی سفاک تفصیلات افشاں کر دیں

اس وڈیو میں آنکھوں پر پٹی بندھے، سفید قمیض اور جینز کی پتلون میں ملبوس ایک شخص کو ایک خالی رہداری سےگزارنے کے بعد لاشوں سے بھرے ایک گڑھے میں پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

وسیم کی بہن تسنیم صیام کہتی ہیں ”سب سے پہلے میرے والد نے وسیم کی شناخت کی۔ میرے والد نے اپنے بیٹے کے چلنے کے انداز سے اسے پہچانا تھا۔ وہ بہت مختلف لگ رہا تھا۔ اسے پہلے ہی مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا تھا یا شاید یہ پھر خوف کا اثر تھا‘‘

انہوں نے وسیم کو اس لاشوں بھرے گڑھے میں کودنے کا کہا اور پھر اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا

تسنیم صیام کا کہنا ہے ”یہ بظاہر غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے، میں کس طرح اس حقیقت کو تسلیم کر لوں کہ وڈیو میں ہلاک کیا جانے والا شخص میرا بھائی ہے‘‘

یہ لیک ویڈیو 16 اپریل سن 2013ع کو وسیم کی گمشدگی کے چند روز بعد رکارڈ کی گئی تھی۔ اس وڈیو میں وردی میں ملبوس دو افراد کو منظم طریقے سے اکتالیس لوگوں کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ہر مرتبہ سفید رنگ کی ایک وین سے آنکھوں پر پٹی بندھے شخص کو جب ان دونوں افراد میں سے ایک کے حوالے کیا جاتا تو وہ اپنے شکار کو ایک ایسے گڑھے کی طرف لے جاتے، جو پہلے ہی لاشوں اور گاڑیوں کے ٹائروں سے بھرا ہوتا تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھے ہوئے افراد کو اس گڑھے میں دھکیلنے کےبعد گولی مار دی جاتی۔ اس کے بعد ان لاشوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جاتی تھی

شام کی جنگ اب گیارہویں سال میں داخل ہو چکی ہے، اس دوران شام بشار الاسد حکومت کی جانب سے ان گنت مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ تدامون قتل عام کی وڈیو، جو اس وقت حکومتی زیر کنٹرول دمشق میں فلمبند کی گئی تھی، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی سفاکیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس وڈیو سے عیاں ہے کے یہ دونوں جلاد نما شخص اپنے ‘کام‘ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ عام شہریوں کو دن دہاڑے انتہائی آرام و سکون کے ساتھ قتل کر رہے ہیں۔ یہ دونوں اپنے شکار کے ساتھ یہ کہہ کر ایک بھیانک کھیل کھیلتے ہیں کہ انہیں جس راہداری سے گزارا جارہا ہے، وہ چھپ کر بیٹھے بندوق بازوں کے نشانے پر ہے، یہ سننے کے بعد آنکھوں پر پٹی بندھے افراد دیوانہ وار بھاگنا شروع کر دیتے اور پھر سیدھے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ انہیں معلوم ہو سکتا کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ انہیں گولی مار دی جاتی ہے

اس وڈیو میں نظر آنے والے قاتل اپنے احتساب سے اس قدر بے خوف دکھائی دیتے ہیں کہ وہ اپنے ان جرائم کی اعلٰی معیار کی ریکارڈنگ کرتے تھے، جو یقیناً سرکاری سرپرستی کو واضح کرتا ہے۔ بعض اوقات وہ کیمرے کی طرف ہاتھ ہلاتے اور پھر مذاق اڑاتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہوں نے اپنے جرائم کو فلمبند کیوں کیا؟ کیا وہ اسے اپنے جنگی کارنامے کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے؟ یا پھر وہ اپنے اعلٰی سرکاری افسران کو دکھانا چاہتے تھے کہ وہ ان کے احکامات پر کس طرح بے رحمی کے ساتھ عمل درآمد کر رہے ہیں؟ ان کا مقصد جو بھی ہو

یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم میں ہولوکاسٹ اور نسل کشی سے متعلق تعلیم کے پروفیسر اوگرامیت اینگور ان اولین افراد میں شامل ہیں، جنہیں سن 2019ع میں اس وڈیو کلپ کی کاپی موصول ہوئی تھی۔ اپنے ساتھی انصار شہود کے ساتھ مل کر وہ اس وڈیو میں نظر آنے والے قاتلوں کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے

وڈیو میں نظر آنے والے سفاک قاتلوں میں سے ایک نجیب الحلبی اب مر چکا ہے۔ وہ شامی صدر بشار الاسد کی ایک وفادار ملیشیا کا حصہ تھا۔ جبکہ وڈیو میں سر پر ہیٹ پہنے دوسرا شخص امجد یوسف، شامی خفیہ سروس کا ایک افسر ہے

اوگرامیت اینگور کا کہنا ہے ”گزشتہ دو برس ہمارے لیے ایک جہنم کی طرح تھے۔ تصور کریں کہ آپ ایک بھیانک قتل عام کے بارے میں جانتے ہیں اور آپ کو اس کی وڈیو بار بار دیکھنی پڑتی ہے لیکن آپ کسی کو اس کے بارے میں بتا نہیں سکتے‘‘

اوگرامیت کہتے ہیں ”قاتلوں کی شناخت کے لیے وڈیو کا تجزیہ کرنا معمول کے تعلیمی و تحقیقاتی کام سے بالکل مختلف تھا“

ان تحقیق کاروں نے وہ کام سر انجام دیا، جو ابھی تک صرف چند ہی لوگ کر پائے تھے۔ انہوں نے اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کیا کہ شامی ریاست جنگ میں ڈھائے گئے چند بدترین مظالم کی براہ راست ذمہ دار ہے

اوگرامیت اور ان کے شامی ساتھی انصار شہود نے اپنی تحقیقات کے لیے غیر روایتی طریقوں کا استعمال کیا۔ انصار نے اپنی ایک آن لائن جعلی شناخت بنا کر شامی حکومت کے اہلکاروں کو پھانسا اور پھر اس قتل عام کے ذمہ داروں کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کیں

انصار نے ’اناش‘ نامی ایک علوی حسینہ کا روپ دھارا، جو ہومس شہر کی رہائشی اور صدر بشار الاسد کی زبردست حامی تھی

برطانوی اخبار گارڈین نے سب سے پہلے یہ خبر شائع کی تھی کہ کس طرح انصار نے دو سال تک اسد حکومت کے سینکڑوں اہلکاروں سے بات کی اور ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے

پھر ایک دن انصار یعنی ’اناش‘ کی اس وڈیو میں دکھائی دینے والے ایک قاتل امجد یوسف سے آنلائن ملاقات ہو گئی۔ جلد ہی ان دونوں میں دوستی ہوگئی اور پھر دونوں کی فون پر بات چیت بھی ہونے لگی تھی

امجد یوسف نے ’اناش‘ کو بتایا کہ وہ تنہا اور خود کو ذہنی دباؤ میں محسوس کرتا ہے۔ پھر مہینوں کی بات چیت کے بعد امجد یوسف نے رازداری سے بتایا ”میں نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا ہے۔‘‘

اس طرح اوگرامیت اور انصار نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ ان دونوں نے امجد یوسف سے ریکارڈ شدہ گفتگو ڈچ اور جرمن پراسیکیوٹرز کو فراہم کی اور اپنی تحقیق کے نتائج کو ”نیو لائنز میگزین ‘‘ میں بھی شائع کیے

چھ منٹ دورانیے کی یہ وڈیو بشارالاسد حکومت کے طویل اور سفاکانہ جنگی جرائم کا ایک ٹھوس ثبوت پیش کرتی ہے، کیونکہ اس میں ظلم کرنے والے اور ظلم سہنے والے دونوں کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ یہ تمام ہلاکتیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئیں

اس حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سے منسلک بین الاقوامی فوجداری قوانین کے ماہر االیگزینڈر شوارز کا کہنا ہے ”عام شہریوں پر ایک منصوبے کے ساتھ حملہ کرنا، جیسا کہ اس وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے، انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے فوجداری مقدمہ قائم کرنے کا ایک معیار ہے‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وڈیو میں ہونے والے جرائم کی نوعیت اس بات کی متقاضی ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اسد حکومت کے ساتھ اپنے معمول کے تعلقات نہیں رکھنے چاہیے

اسد ‌حکومت کے ہاتھوں مارے جانے والے وسیم صیام کی بہن اس جرم میں شریک مجرموں کو سزا ملنے کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں

تسنیم صیام کا کہنا ہے ”مجھے زندگی میں مثبت سوچ رکھنے کی اہمیت کا اندازہ ہے، لیکن ہم سب امیدیں کھو چکے ہیں‘‘

تسنیم کہتی ہیں ”میں چاہتی ہوں کہ لوگ سمجھ سکیں کہ ہم میں سے چند کو جرمنی میں گھر بسانے کے لیے کیوں مہینے یا سال درکار ہیں اور کچھ شاید کبھی بھی ایسا نہ کر پائیں کیونکہ انہیں شام میں ایسے بھیانک حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا کے ایک عام انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close