اسے اس قوم کی ایک اور بدقسمتی کہیں گے جب ان کے 56,664 ووٹ لے کر کامیاب ہونے والا رکن قومی اسمبلی اقتدار کے تین سال مزے لوٹنے کے بعد قومی لباس پہنے ایوان میں یہ کہتا دکھائی دے کہ وہ تو یہاں خود نہیں آیا بلکہ لایا گیا ہے اور جب کوئی صحافی اس معزز رکن سے چٹخارے لینے کےلیے پھر سے یہی سوال پوچھے کہ آپ کیسے آگئے؟ تو جواب دے ’’جو ہمیشہ لاتے ہیں وہی اہتمام کے ساتھ لائے ہیں‘‘
یہ کوئی طنز نہیں تھا اور نہ ہی کوئی گھسا ہوا مذاق، بلکہ یہ بیانیہ ہمارے اس سیاسی نظام کی سیڑھی کا ایک قدم تھا جس پر ہمارے وہ سیاستدان جن کا مقصد شہرت، پیسہ اور طاقت ہو، وہ قدم چڑھا کر چھت پر پہنچ کر ایک چھت سے دوسری اور پھر تیسری چھت پر چھلانگیں لگاتے نہ صرف اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں بلکہ اپنے انہی معصوم ووٹرز کو بھی لوٹتے ہیں جنہوں نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اس امید پر انہی ایوانوں میں بھیجا ہوتا ہے کہ وہ ان کی زندگی میں نہ صرف آسانیاں پیدا کریں گے بلکہ معیار زندگی کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورت حال میں بھی بہتری لائیں گے
اجلاس چاہے صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی یا سینیٹ کا ہو، اگر وہ بے مقصد اور طوفان بدتمیزی تک ہی محدود رہ جائے تو پھر بقول چوہدری سلیم سربلند ’’گیس چاہے آئے نہ آئے، بل تو ضرور آئے گا‘‘ کے مترادف رہ جاتا ہے اور یوں ہمارے ہی ٹیکس کا پیسہ ان کی نوک جھونک، طنز اور طوفان بدتمیزی کی مد میں ضائع ہوجاتا ہے
ہمارے معزز ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ٹھیک ڈھائی سال بعد ایک دم ہوش میں آتی ہے اور اپنے حلقے کا دورہ کرتی ہے اور ایک ہی فلم چلاتی ہے کہ ان کی حکمران جماعت تو ان کی اپنی نہیں سنتی۔ پھر چھ ماہ بعد یعنی تین سال پورے ہوتے ہی اس قسم کے معزز ارکان اسمبلی ایک طرف تو اپنی ہی حکمران جماعت کے مرکزی رہنما کو نہ صرف آنکھیں دکھانا شروع کردیتے ہیں بلکہ ان کے سابقہ عوامی بیانیے میں ایک سطر کا اور اضافہ ہوچکا ہوتا ہے کہ پہلے تو کوئی ان کی سنتا نہیں تھا اب ان کو کام بھی نہیں کرنے دیا جاتا، وہ تو خود تنگ ہیں
اس ساری صورت حال کا بہترین تجزیہ مجھے اپنے دوست اکرام عرف موٹو دادا سے ملا، جو مقامی کبوتر بازوں میں ماہر استاد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تعمیراتی شعبے سے منسلک وہ ایک اوسط درجے کا کامیاب سرکاری ٹھیکیدار بھی ہے۔ اس کی زندگی اگر دو حصوں میں تقسیم کی جائے تو ایک حصہ سرکاری محکموں کی راہداریوں میں گزر رہا ہے تو دوسرا حصہ کبوتری بازی میں
اس کے بقول ’’ یہ دہری نسل کے کبوتر ہیں۔ اگر ان کے پر کھلے رہیں گے تو یہ آپ کا دانہ پانی کھا کر اڑ جائیں گے۔ پر کاٹ کر رکھنے سے آپ کی طرف کا آسمان تو ان سے خالی دکھائی دے گا مگر لوگوں کو آپ کی چھت بھری ہوئی دکھائی دے گی۔ مفت میں باجرہ کھائیں گے۔ آپ انہیں اپنا سمجھیں گے کہ یہ آپ کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جائیں گے۔ پر ایسا نہیں ہوتا۔ ان کے نظام انہضام میں ایک بیماری کی وجہ سے معدہ اور طرح کی خوراک مانگتا ہے پھر یہ ادھر ادھر کوئی اور گھر اور مالک دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ دہری قسم جو ہوئی ان کی۔‘‘
مجھے موٹو دادا کے تجزیے سے کبوتروں کی اس قسم میں اور سیاستدانوں میں بہت مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے جمہوری نظام پر یہی قسم حاوی دکھائی دیتی ہے اور شاید یہ ہر سیاسی جماعت کے رہنما کی مجبوری بھی ہے کہ وہ ان ہجرتی پرندوں کے بغیر فقط اپنے کردار، صلاحیتوں اور خوبیوں کی بنا پر صاحب اقتدار بن ہی نہیں سکتے۔ ایک طرف یہ سیاسی جماعتیں ہیں جو تیر چلاتی ہیں، شیر بھگاتی ہیں اور بلا گھما گھما کر الیکشن میں کامیابی کے بعد پھر بالآخر عوام کو گھما کر رکھ دیتی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت ایک طرح کا چورن بیچ کر اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کےلیے انہیں ایسے دعووں، للکاروں اور خوابوں کی ضرورت پڑتی ہے جس سے یہ اپنے ووٹرز کو بہلا پھسلا کرپہلے پولنگ بوتھ تک لاسکیں اور پھر حسب ضرورت سڑکوں پر لاکر حکومت وقت کی مشکلات بڑھا سکیں۔ ان صلاحیتوں سے ہمارے تمام ہی رہنما اور ان کے بچے بچیاں بھی ماہر ہیں، جو بوقت ضرورت مہمان اداکاروں کی طرح فلم میں انٹری ڈال کر اسے ہٹ بناتے ہیں اور پھر منظرنامے سے اگلی انٹری تک ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ یہ مشق تواتر سے جاری تھی مگر اب سیاسی منظرنامے میں ایک ایسے گروہ کی انٹری ہوچکی ہے جو پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کےلیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ سیاسی منظرنامے میں یہ تیزی سے اپنا کردار بڑھا رہے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کا شکار ساری دنیا ہوئی ہے لیکن یہاں سیاسی عدم استحکام اور سیاست دانوں کا رویہ مزید حالات کو خلاف کررہا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح یہاں بھی جمہوری ادارے ریاست کے دوسرے انتظامی و دفاعی اداروں کے تعاون سے ہی نہ صرف پروان چڑھتے ہیں بلکہ عوام کی زندگیوں میں بہتری لاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اندرونی و بیرونی خطرات کا مل کر مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر اداروں میں بداعتمادی کا خلا پیدا ہوجائے تو ساری ریاست اوندھے منہ گر جاتی ہے اور اس خلا کو بھرنے کےلیے کبھی تیسری طاقت تو کبھی غیر ریاستی گروہ مذہب، لاقانونیت، عدم استحکام کی چادر اوڑھ کر عوام کے سامنے ایک آپشن بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور بے بس عوام انہیں اپنا مائی باپ سمجھ کر پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں
ہم بائیس کروڑ عوام کے ووٹ ابھی اتنے بے قیمت نہیں ہیں مگر ہمیں اپنی تذلیل محسوس ہوتی ہے جب ہمارے ہی معزز ارکان اسمبلی تین ساڑھے تین سال بعد یہ راگ الاپنے لگتے ہیں۔ خدارا اب بس کردیجئے! اگر نہیں تو باعزت طریقے سے سیاست چھوڑ کر بیرون ملک اپنے فلیٹس اور محلوں میں جاکر اپنی باقی کی زندگی سکون سے گزاریے اور ہمیں بھی سکون سے جینے مرنے دیجئے
نوٹ: یہ کالم ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ شایع کیا گیا. ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں. آپ اس تحریر کو ذیل میں دیے گئے لنکس پر شیئر بھی کر سکتے ہیں.