کراچی میں کینٹ کی زمینوں پر کمرشل اور ہاؤسنگ منصوبے غیر قانونی ہیں: سپریم کورٹ

نیوز ڈیسک

کراچی – سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ کینٹونمنٹ بورڈ کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو زمینیں الاٹ کی ہیں، وہ صرف کینٹ مقاصد کے لیے ہیں اور وہاں کمرشل اور ہاؤسنگ منصوبے غیر قانونی ہیں

تفصیلات کے مطابق کراچی میں بدھ کو غیر قانونی تجاوزات اور فلاحی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی زمینوں کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے بعد چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے حکم نامے میں قرار دیا کہ کینٹونمنٹ کی زمینوں پر ہاؤسنگ اور کمرشل سرگرمیاں کینٹونمنٹ ایکٹ 1924ع اور لینڈ اکیوزیشن ایکٹ 1937ع کی خلاف ورزی ہیں

چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری ڈفینس، اٹارنی جنرل آف پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، کراچی کے تمام کینٹومنٹ بورڈز کو ایکٹ کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کر کے اگلی سماعت پر طلب کر لیا ہے

کراچی کینٹومنٹ بورڈ سمیت شہر میں چھ کینٹونمنٹ بورڈز ہیں جن میں، منوڑہ، کورنگی کریک، ملیر، کلفٹن اور فیصل کینٹونمنٹ بورڈ شامل ہیں

سماعت کے موقعے پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کینٹ کی زمین کسی کی ذاتی زمین نہیں ہے جو تقسیم کر دی، یہ ریاست کی زمین ہے کینٹ کے مقصد کے استعمال میں نہیں تو اس کو واپس کردیں

انہوں نے مسرور بیس، فیصل ایئر بیس کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ سینٹرل آرڈیننس ڈپو کی زمین پر کمرشل کامپلیکس بنائے گئے ہیں، شادی ہال بنے ہوئے ہیں، اسکول بنا لیے. ایئربیس ایک اسٹریٹجک جگہ ہے، وہاں سوسائٹیز بنادی گئی ہیں

وکلا نے نشاندہی کی کہ عدالت نے شادی ہال ختم کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن وہاں رات کو بتیاں بند کر کے تقریبات منعقد کی جارہی ہیں، جبکہ عسکری پارک بھی پبلک کے لیے نہیں کھولا گیا

ایک وکیل نے کہا کہ ڈی ایچ اے فیز ون مسجد طوبیٰ کے ساتھ پارک تھا، وہاں پہلے سلاخیں لگائی گئیں اس کے بعد پبلک کے لیے بند کر دیا گیا، اس پر چیف جسٹس نے کینٹونمنٹ افسر سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کا طریقہ واردات یہی ہے نا کہ پہلے دیوار بناتے ہیں اس کے بعد اندر ہی اندر پتہ نہیں کیا ہوتا ہے اور پھر عمارت بن جاتی ہے

انہوں نے افسر سے سوال کیا کہ کینٹونمنٹ کے اس پارک سمیت کتنے پارک ہیں اور ان کی صورتحال کیا ہے، اس سے عدالت کو آگاہ کریں

کراچی میں شہری حقوق کی تنظیم ’شہری‘ کی کارکن امبر بھائی نے عدالت کو شہر میں رفاعی پلاٹوں، پارکوں اور میدانوں پر مبینہ قبضے کی تفصیلات فراہم کیں اور الزام لگایا کہ سابق میئر نعمت اللہ خان نے کراچی کی انتیس سڑکوں کو کمرشل ایریا میں تبدیل کردیا، ان کا مقصد سرمائے کا حصول تھا، جس کی سول سوسائٹی نے مخالفت کی تھی

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی غیر مقبول ہوئی، اس کے بعد ایم کیو ایم آئی اس نے اس کو کاروبار بنا لیا، کمرشلائزیشن تو کی گئی لیکن شہری منصوبہ بندی کا خیال نہیں رکھا گیا

کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے دعویٰ کیا کہ شہر میں جو بگاڑ ہے، اس کی بڑی وجہ نعمت اللہ خان کا وہی فیصلہ تھا، جہاں چار سو گز کے پلاٹ پر ایک خاندان رہتا تھا، اب اس پلاٹ پر عمارت بننے کے بعد بیس پچیس خاندان رہتے ہیں

چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ اس کا حل کیا ہے، جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کیا کر رہی ہے، وہ کیسے نقشے پاس کرلیتی ہے؟

مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں سترہ ادارے کام کر رہے ہیں جن میں سے گیارہ وفاقی ہیں، ان میں تعاون کا فقدان ہے۔ امبر بھائی نے تجویز دی کہ ایک مشترکہ ادارے یا اتھارٹی قائم کی جائے

چیف جسٹس گلزار احمد نے مرتضیٰ وہاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے تو سیاسی مقاصد ہیں، آپ تو سیاسی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں یہ (ایڈمنسٹریٹر) ایک انتظامی منصب ہونا چاہیے

مرتضیٰ وہاب نے جواب میں کہا کہ وہ عوام کے لیے کام کر رہے ہیں اور یہ شہر ان کا ہے اس کے لیے کام کریں گے، جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ مشترکہ اتھارٹی بنانے کے لیے قانون سازی کریں

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کورنگی برج (جام صادق پل) کے ساتھ جو غیر قانونی تجاوزات اور عمارتیں بنی ہوئی ہیں، انہیں ہٹایا جائے اور وہاں رفاع عامہ کے لیے زمین مختص کی جائے

اس کے علاوہ انہوں نے گٹر باغیچہ میں کے ایم سی کوآپریٹو سوسائٹی کی الاٹمنٹ رد کرتے ہوئے، وہاں زمین پبلک پارک کے لیے مختص کرنے کی ہدایت بھی کی

امبر بھائی نے عدالت کو بتایا کہ 1161 ایکڑوں پر گٹر باغیچہ تھا، جہاں قیام پاکستان سے قبل پانی کی نکاسی ہوتی تھی، اس زمین پر تجاوزات کے خلاف وہ جدوجہد کرتے آئے ہیں اور یہ کہ ان کا ایک کارکن نثار بلوچ اس میں قتل ہو چکا ہے

انہوں نے کہا کہ اس پارک کے دو سو ایکڑ کے ایم سی نے خود کو ’گفٹ‘ کردی اور سوسائٹی کی الاٹمنٹ کر دی

جسٹس اعجاز الحسن نے حیرت کا اظہار کیا کہ کے ایم سی نے اپنی زمین خود کو تحفے میں دے دی، یہ کیسے ہوا؟ عدالت کے استفسار پر ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ اس زمین پر تعمیرات نہیں ہوئیں صرف چالان جاری کیے گئے ہیں، عدالت نے الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے

اس سے قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جیسے ہی سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نیسلا ٹاور کو منہدم کرنے کا کیا ہوا، کمشنر اقبال میمن نے انہیں بتایا کہ کام شروع کیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ فوری ہیوی مشنری لے کر جائیں اور کام مکمل کریں

یاد رہے کہ کراچی میں شاہراہ فیصل اور شاہراہ قائدین کے سنگم پر واقع پندرہ منزلہ نیسلا ٹاور کو سپریم کورٹ نے مسمار کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 1044 اسکوائر یارڈ میں سے 780 اسکوائر یارڈ غیر قانونی تجاوزات ہے، کیونکہ یہ سروس روڈ کا حصہ تھا

چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر سے سوال کیا کہ کتنی بلڈنگ گری ہے، کتنا کام ہوا ہے، اس کی تفصیل سے آگاہ کریں اور کمشنر کی سرزنش کے بعد چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ’جاؤ اور سارے شہر کی مشنری اور سٹاف لے کر نیسلا ٹاور گراؤ‘۔

اس حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے انتظامیہ نے عمارت کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور پہلے روز شام سات بجے تک گراؤنڈ فلور کی دیواریں گرائی گئیں

یاد رہے کہ بجلی، پانی اور گیس کنیکشن منقطع ہونے کے بعد رہائشی عمارت کو خالی کر چکے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close