سیلیکون ویلی – لوسڈ موٹرز نے گاڑیوں کی تیاری کا کام رواں سال ستمبر میں شروع کیا اور اکتوبر کے اختتام تک اس نے صارفین کو صرف کچھ درجن گاڑیاں ہی ڈلیور کیں
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے ایک ماہ عمر رکھنے والی لوسڈ کمپنی، ایک صدی پرانی کمپنی فورڈ سے بھی آگے نکل گئی ہے. لوسڈ موٹرز کی مارکیٹ ویلیو پچاسی ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکی ہے
سیلیکون ویلی میں موجود لوسڈ الیکٹرک گاڑیوں کے دور میں ایک ابھرتی کمپنی ہے، حتیٰ کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، کہ یہ ٹیسلا کو بھی ٹکر دی سکتی ہے
کار میگزین ’موٹر ٹرینڈ‘ نے لوسڈ موٹرز کے پہلے ماڈل ‘لوسڈ ایئر ڈریم ایڈیشن‘ کو سال کی بہترین گاڑی ہونے کا اعزاز دیا ہے
امریکی ماحولیاتی ادارے کے شائع کردہ ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ لوسڈ کو ایک بار چارج کرنے کے بعد 520 میل (852 کلومیٹر) تک چلایا جا سکتا ہے، جو کہ کسی بھی الیکٹرک گاڑی کے لیے ایک چارج کے بعد سب سے زیادہ فاصلہ ہے
اور اس کمپنی کے پہلے ماڈل کی صرف پانچ سو گاڑیاں ہی مارکیٹ میں فروخت کی جائیں گی۔ اس ماڈل کی فی یونٹ قیمت ایک لاکھ 69 ہزار ڈالر ہے
اس کی لگژری گاڑیوں کی سیٹوں میں مساج کی سہولت بھی دی ہے، جبکہ ان میں سالڈ گلاس روف موجود ہے
صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ انہی کی بنائی ہوئی ایک اور گاڑی رفتار میں فراری کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے اور ان کے پاس کم قیمت والی گاڑیاں بھی ہیں۔ ایئر گرینڈ ٹوئرنگ نامی ماڈل ایک لاکھ 39 ہزار ڈالر، دی ٹوئرنگ 95 ہزار ڈالر جبکہ ایئر سیریز 77 ہزار ڈالر کی ہیں۔ لیکن آخر کی دو گاڑیاں 2022 کے اواخر میں مارکیٹ میں آئیں گی
لوسڈ نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کے پاس سترہ ہزار گاڑیوں کے آرڈر ہیں اور وہ بیس ہزار گاڑیاں ڈیلیور کر دیں گے
اگر ان اعداد و شمار کا موازنہ فورڈ کی فروخت سے کیا جائے تو فورڈ نے 2020 میں چالیس لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت کیں، حالانکہ اس سال کورونا کی وجہ سے کمپنی کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہا
لوسڈ کے سی ای او پیٹر رالنسن نے متعدد انٹرویوز میں یہ بتایا ہے کہ کمپنی کے پہلے ماڈل کو ایک اہم بنیاد کے طور پر دیکھا گیا، جس پر وہ اپنے برانڈ کو مارکیٹ میں قائم کریں گے
پیٹر رالنسن کہتے ہیں کہ ہمیں ٹیکنالوجی کا ایک شاہکار بنانا تھا اور میرے خیال میں ہم لوسڈ ایئر کی شکل میں اسے کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہم جس طریقے سے اپنے برانڈ کو پیش کریں گے، ہمارا مستقبل بھی اسی انداز میں نظر آئے گا
رالنسن خود بھی ایک بہت بڑی وجہ ہیں، جس کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ کار لوسڈ میں پیسہ لگاتے ہیں۔ چونسٹھ برس کے رالنسن مارکیٹ میں کسی تعارف کے محتاج نہیں
وہ ٹیسلا کے ماڈل ایس کی انجینیئرئنگ کے ذمہ دار تھے، لیکن کمپنی کے بانی ایلون مسک کے ساتھ اختلافات کے بعد انہوں نے ٹیسلا چھوڑ دیا۔ اس سے پہلے وہ جیگوار کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں، جبکہ لوٹس کمپنی میں وہ چیف انجینیئر تھے
لوسڈ نے الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹری کے بہت سے پیٹنٹ بھی رجسٹر کروائے ہیں. لوسڈ کی تیزی سے ترقی کی بڑی وجہ ان کی گاڑی کے وزن اور انجن اور آلات کا سائز کم کرنے پر توجہ ہے۔ اس سے نہ صرف گاڑی کے پاور آؤٹ پٹ میں اضافہ ہوگا، بلکہ جو جگہ بچے گی، وہ دوسری چیزوں کے لیے استعمال ہو سکے گی
رالنسن کا کہنا ہے کہ لگژری گاڑیوں کی مارکیٹ میں آنے کے پیچھے وجہ ان کے اصل مقصد تک رسائی ہے، جو کہ الیکٹرک گاڑیوں کا بڑے پیمانے پر استعمال ہے۔ ایسا کرنے کے لیے وہ اپنی کمپنی کی ٹیکنالوجی بھی فروخت کرنے کے لیے راضی ہیں تاکہ انہیں خریدنے والی کمپنی کم قیمت میں الیکٹرک گاڑیاں بنا سکے
لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے پہلے انہیں اپنی کمپنی کو مضبوط کرنا ہے، جو کہ اس وقت منافع میں نہیں بلکہ نقصان میں ہے اور اسے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مشکلات کی تفصیلات اس رپورٹ میں شائع کی جاتی ہیں جو کہ یہ اپنے ممکنہ شیئر ہولڈرز کو دیتے ہیں تاکہ انہیں اپنے سرمائے سے جڑے نقصان اور خطرے کا بخوبی علم ہو
نیو یارک ٹائمز کی طرف سے شائع کی گئی ایسی ہی ایک 44 صفحوں پر مشتمل رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ کمپنی کو بڑے پیمانے پر گاڑیوں کی پروڈکشن کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے پاس کسٹمر سروس کا عملہ ہے اور کمپنی کا بہت زیادہ انحصار رالنسن پر ہے
ساتھ ہی مارکیٹ میں بہت سی کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں کے میدان میں آ رہی ہیں، جن کے پاس بڑے پیمانے پر پروڈکشن کا لمبے عرصے کا تجربہ ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ لوسڈ موٹرز لگژری گاڑیوں کی مارکیٹ سے نکل کر کم قیمت والی گاڑیاں بنانے کے میدان میں بھی قدم رکھتی ہے یا نہیں؟