ملک ریاض کی برطانوی ویزا کی اپیل بھی مسترد، این سی اے کا فیصلہ برقرار

نیوز ڈیسک

لندن – بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی برطانوی ویزا کی منسوخی کے خلاف دائر کردہ اپیل بھی ایک برطانوی عدالت نے مسترد کر دی ہے۔ اس موضوع پر پاکستانی سوشل میڈیا پر زبردست بحث جاری ہے، لیکن الیکٹرانک میڈیا پر اس حوالے سے کوئی خبر نشر نہیں کی گئی

برطانیہ کی عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض کے دس سالہ ملٹی انٹری وزٹ ویزا منسوخ کرنے کے ہوم آفس کے فیصلے کو اس بنیاد پر برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی بھلائی کے لیے ان کی برطانیہ سے بے دخلی  ہی بہتر ہے

واضح رہے کہ ہوم آفس نے ملک ریاض اور ان بیٹے کے ویزوں کی منسوخی کا فیصلہ نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات اور ملک ریاض کے ساتھ 2019 میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے پر غور کرنے کے بعد لیا تھا

این سی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے بانی کے ساتھ اپنی تحقیقات اور تصفیہ کے اعلان کے ایک ہفتے بعد ہوم آفس نے 10 دسمبر 2019 کو ویزے منسوخ کر دیے

برطانوی ہوم آفس نے ملک ریاض کو دیا گیا دس سالہ ملٹی پل ویزا منسوخ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک ریاض اور ان کے صاحب زادے احمد علی ریاض مبینہ طور پر کرپشن کے معاملات میں ملوث ہیں

ملک ریاض کے پاس 28 جولائی 2011 سے 28 جولائی 2021 تک کا برطانوی ویزہ موجود تھا، جب کہ ہوم آفس کی جانب سے یہ ویزا 10 دسمبر 2019 کو منسوخ کیا گیا تھا۔ اس کے خلاف ملک ریاض نے برطانوی عدالت میں اپیل دائر کی تھی

ملک ریاض کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے اپنے حکم نامے میں عدالت نے ہوم آفس کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے

اپیل کو مسترد کرتے ہوئے برطانیہ کے عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہوم آفس کا یہ نتیجہ کہ ملک ریاض اور ان کا بیٹا بدعنوانی اور مالی/ تجارتی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں، بحریہ ٹاؤن کے معاملات میں ان کی شمولیت پر مبنی ہے

عدالت اور ہوم آفس دونوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات، نیب انکوائریز اور بحریہ ٹاؤن سے منسلک جے آئی ٹی رپورٹ پر بہت زیادہ انحصار کیا

عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے تنازع کو حل کرنے کی کوشش میں ملک ریاض کے وکلا نے ہوم آفس کو ایک پری ایکشن پروٹوکول (پی اے پی) پٹیشن دائر کی، جس میں 31 جنوری 2020 کو ان کے ویزوں کی منسوخی کا تازہ فیصلہ لیا گیا تھا

اس کے بعد انہوں نے اپر ٹریبونل (امیگریشن اینڈ اسائلم چیمبر) میں عدالتی نظرثانی کی درخواست دائر کی

17 نومبر 2020 کو ٹریبونل نے ملک ریاض کے عدالتی نظرثانی کے دعوے کو مسترد کر دیا اور ہوم آفس نے ویزوں کی منسوخی کے بارے میں اپنے فیصلے میں ٹھیک پایا

ملک ریاض اور ان کے بیٹے نے اس کے بعد رائل کورٹس آف جسٹس میں سات بنیادوں پر ایک اپیل دائر کی جس نے عدالتی نظرثانی پر ٹریبونل کے فیصلے کو برقرار رکھا

فیصلے میں ہوم آفس کی جانب سے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کو لکھے گئے مراسلے کو شامل کیا گیا جس میں انہیں ویزوں کی منسوخی کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا

ملک ریاض اور ان کے بیٹے نے عدالت کے فیصلے کے خلاف مزید کہا کہ برطانیہ کے ہوم آفس اور ٹربیونل نے غلط نتیجہ اخذ کیا کہ اکثریت کی رائے نے بدعنوانی کے سنگین اور ٹھوس ثبوت فراہم کیے ہیں

خیال رہے کہ این سی اے کا کام منی لانڈرنگ اور برطانیہ و بیرونِ ملک ہونے والی مجرمانہ سرگرمی سے حاصل ہونے والے غیر قانونی رقوم کی تحقیقات کرنا ہے

برطانیہ اور بیرونِ ملک ہونے والی مجرمانہ سرگرمی سے حاصل ہونے والے غیر قانونی رقوم کی صورت میں چوری شدہ پیسہ متاثرہ ریاستوں کو لوٹا دیا جاتا ہے

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ‘کالے دھن’ کے حوالے سے جاری تحقیقات کے دوران ملک ریاض کچھ عرصے کے لیے ادارے کے زیرِ تفتیش رہے تھے۔ 3 دسمبر 2019ء کو ادارے نے اعلان کیا کہ ملک ریاض کے ساتھ عدالت کے باہر 19 کروڑ پاؤنڈ (اب تک کی سب سی بڑی رقم) کا تصفیہ کیا گیا ہے اور مزید یہ بھی بتایا گیا کہ اس ‘تصفیے میں جرم تسلیم کرنے کا پہلو نہیں نکلتا‘۔

این سی اے سے ہونے والی ڈیل کا پاکستانی شہریوں کے ساتھ خاص تعلق اس وقت قائم ہوگیا جب ملک ریاض نے ٹوئیٹ میں بتایا کہ، ‘میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا’۔

یہاں اس بات کو بھی یاد کیا جاسکتا ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا تھا کہ ان کے ریئل اسٹیٹ ادارے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ نے کراچی کے ضلع ملیر کے مضافات میں ہزاروں ایکڑوں پر محیط زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے تو چند ماہ قبل مارچ 2019ء میں ملک ریاض کی جانب سے سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے بطور جرمانہ دینے کی پیش کش کی گئی، جسے قبول کرلیا گیا

لیکن عجیب صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب برطانیہ کی این سی اے کی طرف سے کالے دھن کے حوالے سے جاری تحقیقات کے بعد ملک ریاض کے ساتھ عدالت کے باہر 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیہ ہونے پر یہی رقم پاکستان میں سپریم کورٹ کے عائد کیے گئے جرمانے کے ضمن میں جمع کرائے جانے کی خبریں منظر عام پر آئیں، یعنی واضح طور پر نظر آنے والی صورتحال کے مطابق ملک ریاض نے دو الگ الگ معاملات میں عائد کیے گئے جرمانوں کو ایک ہی رقم کی ادائیگی سے بھگتا لیا

دوسری جانب اس فیصلے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک طرف تو زبردست بحث جاری ہے اور عدالتی فیصلے کی تعریف کی جا رہی ہے، تاہم ساتھ ہی یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا اس معاملے میں بالکل خاموش کیوں ہے؟

برطانیہ میں مقیم پاکستانی مصنفہ عائشہ صدیقہ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں عدالتی فیصلے کے دو صفحات کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانوی ہائی کورٹ نے ہوم آفس کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کو صوبہ سندھ میں کرپشن کے معاملے پر دس سالہ ویزے کی منسوخی کا حکم دیا ہے

ایک پاکستانی صارف لکھتے ہیں، ملک ریاض کی خبر کسی پاکستانی نیوز چینل پر دکھائی نہیں دے رہی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close