کراچی – پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے قرضے کی نئی قسط ملنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں لیکن دوسری جانب حکومت کی جانب سے عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں
مشیرِ خزانہ شوکت ترین نے اشارہ دیا ہے کہ نئی قانون سازی کے تحت بعض سیکٹرز میں ٹیکس سے استثنیٰ کو ختم کیا جائے گا
کراچی میں میڈیا سے اپنی گفتگو میں شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کا حصول یقینی بنانے کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے ملک میں کئی سیکٹرز میں ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کے مطالبے میں کسی حد تک وزن ہے
شوکت ترین نے کہا کہ ٹیکس استثنیٰ ختم کر کے اشیا پر سیلز ٹیکس لاگو کیا جانا ضروری ہے، تاکہ ٹیکس کا نظام خراب نہ ہو اور اگر وہ ٹیکس نیٹ میں آنے والی اشیا انتہائی غریب طبقہ استعمال کرتا ہے تو انہیں ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے استثنیٰ کے خاتمے کی صورت میں مہنگائی کے نئے طوفان کا خدشہ ہے، جس سے آئندہ دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمت اور کھاد کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے
اس حوالے سے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں حکومت منی بجٹ کے ذریعے تقریباً آٹھ سو ارب روپے کی آمدن پیدا کرنے کی خواہش مند ہے اور یہ رقم پیٹرول کی قیمت پر لگ بھگ ساڑھے تین سو ارب لیوی ٹیکس نافذ کرنے، تقریباً تین ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے سے حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ دو سو ارب روپے ترقیاتی اخراجات سے رقم بچائی جائے گی
اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کو تین ہزار ارب روپے کے لگ بھگ رقم قرضے اور سود کی ادائیگی میں خرچ کرنا ہے، جب کہ سولہ سو ارب روپے دفاعی بجٹ کے لیے مختص ہیں، جس میں کمی کے کوئی آثار نہیں
سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے خیال میں ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے اور پیٹرولیم پر لیوی ٹیکس کے بھی نفاذ سے عام آدمی کے بجٹ پر منفی اثر پڑے گا۔ ان کے بقول کھانے پینے کی اشیا ہی بچی تھیں، جن پر سیلز ٹیکس نافذ نہیں تھا، اب حکومت اس پر بھی ٹیکس لگانے جا رہی ہے
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے حال ہی میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر قرضے کے پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر قرضے کی نئی قسط جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو تجاویز پر پیشگی اقدامات اٹھانے کا کہا ہے۔ جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی ڈیوٹی عائد کرنے، ترقیاتی منصوبوں پر ہونے والے اخراجات میں دو سو ارب روپے کی کمی لانے سمیت مختلف سیکٹرز میں ‘ٹریک اینڈ ٹریس’ سسٹم نافذ کرنے کے اقدامات شامل ہیں
گزشتہ ماہ حکومت نے پہلے ہی بجلی کی قیمت میں ایک روپے 68 پیسے فی یونٹ اضافہ اور روپے کی قدر میں بھی گراوٹ کرنا پڑی ہے
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں ٹیکس چھوٹ کے خاتمے سے یقینی طور پر اس کا اثر مہنگائی بڑھنے کی صورت میں نکلے گا۔ ان کے بقول ایسا کرنے سے غذائی اشیا مہنگی ہونے، ایندھن کی قیمت میں اضافے کے باعث ٹرانسپورٹیشن اخراجات بڑھنے کا سبب بنے گا
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں دس فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے اور حکومت کو گردشی قرضوں کا حجم کم کرنے کے لیے آئندہ برس بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانی پڑیں گی
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح صفر ہے۔ اور اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے، تو لیوی ٹیکس عائد کرنے کے بعد اس کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے گا
یاد رہے کہ اس وقت پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلے ہی ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں.