گزشتہ دو دہائیوں سے نئی دہلی میں بھارتی سیاست کو کور کرتے ہوئے مجھے یہ احساس تو ہو گیا ہے کہ اس خطے میں شاید ہی سیاست سے بہتر کوئی دوسرا منافع بخش پیشہ یا کاروبار ہو۔
میں نے دیکھا ہے کہ ایک مفلس اور نادار فرد پر جب سیاست کی دیوی مہربا ن ہو جاتی ہے، تو راتوں رات دولت کی دیوی اس کی چوکھٹ کو چوم لیتی ہے۔ چند برس قبل حق اطلاعات کے قانون اور امیدواروں کے ذریعے فائل کیے گیے حلف ناموں اور دیگر ذرائع سے حاصل کی گئی دستاویزات کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک رکن اسمبلی کی دولت میں پانچ سالوں میں 50 ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح لوک سبھا کے ممبران کے حلف نامے، جو میں نے خود چیک کیے، ان کے مطابق 2009 ء اور 2014ء کے درمیان اوسطاً ایک ممبر کی آمدن میں 1200گنا اضافہ ہوا تھا۔ اگر ان کا مشاہدہ کیا جائے، تو بھارت میں ایک ممبر پارلیمان کو تمام الاؤنس اور تنخواہ کے ساتھ بس ماہانہ ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب رقم ملتی ہے، جو اس کے ایک دن کے خرچ سے بھی کم ہوتی ہے۔
سینٹر فار میڈیا اسٹیڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء کے انتخابات میں بھارت میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600 بلین روپے خرچ کیے جبکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270 بلین روپے خرچ کیے۔ ماضی کی طرح سیاسی پارٹیاں اب بھی عوامی چندے پر چلتی ہیں لیکن الیکشن میں نامزد امیدوار اپنے حلقے میں چندے کی کوئی مہم نہیں چلاتا۔ ان حالات میں وافر مقدار میں یہ فنڈز کون فراہم کرتا ہے، یہ ایک معمہ ہے؟
سن 2024ء کے عام انتخابات میں بھارت میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کے امکانات ہیں۔ دہلی کے نواح میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے فارم ہاؤسز تو کسی عجائب گھر سے کم نہیں ہیں۔ بطور صحافی سیاست دانوں کی پرائیویٹ پارٹیوں میں جانے کی وجہ سے ان فارم ہاؤسز کو اندر سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان میں سوئمنگ پول سے لے کر دنیا کی وہ تمام آرائشیں موجود ہیں، جن کی کوئی فرد تمنا کر سکتا ہے۔
ان پارٹیوں میں قیمتی شراب و کباب کی محفلیں جمائی جاتی ہیں۔ ان پارٹیوں اور ان میں شامل افراد کو دیکھ کر یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ طاقت اور دولت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
لیکن اگر آپ سیاسی جماعت جوائن کرتے وقت کارکنان کے عہد اور حلف کو دیکھیں تو وہ روئے زمین پر سب سے زیادہ صالح انسان نظر آئیں گے۔ کانگریس ہو یا بی جے پی یا کوئی علاقائی پارٹی، غرض ہر پارٹی نئے ممبران کو متعارف کرواتے ہوئے ان سے یہ عہد لیتی ہے کہ وہ ایک مثالی انسان بنیں گے۔
انہیں شراب سے پرہیز کرنے، کھادی (کاٹن) کاتنے اور پوری عمر صرف یہی کپڑے پہننے کا عہد کرنا پڑتا ہے۔ نیز سبھی مذاہب کا احترام کرنے اور مذہبی رواداری برقرار رکھنے کا حلف بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ حال ہی میں جب کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے پارٹی کے ریاستی سربراہان کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ان سے پوچھا کہ میٹنگ میں کون اس اُمید سے آیا ہے کہ میٹنگ کے بعد شراب پیش کی جائے گی؟ اس سوال نے اس کمرے میں موجود تقریباً سب لوگوں کو حیران کر دیا۔ تب میٹنگ میں موجود اراکین کو پارٹی جوائن کرتے وقت کے حلف یاد دلائے گئے اور ان کو احساس دلایا گیا کہ کس حد تک وہ اس عہد کو نبھاتے ہیں۔
شراب نوشی سے پرہیز کرنا کانگریس کے عہدنامے میں رکھی گئی نو شرائط میں شامل ہے۔ ممبران کو مذہب یا ذات پات کی تفریق کے بغیر ایک مربوط معاشرے میں یقین رکھنے کے علاوہ، جسمانی مشقت سمیت دیگر کام انجام دینے کا بیڑہ اٹھانا ہو گا۔ سیکولرازم، سوشلزم اور جمہوریت کو فروغ دینا اور چھوت چھات سے پرہیز کرنے کا بھی عہد لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کے تمام ورکروں اور لیڈروں کے لیے لازم ہے کہ ان میں مہاتما گاندھی کی طرح کھادی کاتنے کے قابلیت بھی ہونی چاہیے۔
اسی طرح حکمران بی جے پی کے آٹھ نکاتی عہد میں مثبت سیکولرازم اور انسانیت پسندی پر یقین رکھنے کی قسم دلائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عہد لیا جاتا ہے کہ کارکن ذات، جنس یا مذہب کی بنیاد پر دوسروں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کر یں گے۔
مگر عملی زندگی میں اس کے کارکنان اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں۔ وہ رواداری کا عہد تو کرتے ہیں مگر کسی بھی اختلافی آواز کو برداشت نہیں کرتے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے اراکین اس حلف کو یاد کر کے اس پر عمل کریں تو بھارت عملی طور پر دنیا کے لیے قابل فخر مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ جو لوگ ان پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ یہ حلف پڑھتے ہی نہیں ہیں۔
بائیں بازو شاید وہ واحد سیاسی جماعت ہے، جہاں نئے کارکنوں کو پارٹی میں داخلے کے بعد چھ ماہ کا ٹریننگ کورس مکمل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد سال کے آخر میں اس کا امتحان ہوتا ہے، جس میں کارل مارکس اور دیگر لیڈران کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ پھر اگلے چھ ماہ تک اس کو آبزرویشن میں رکھا جاتا ہے، جس کے بعد ہی مکمل ممبر شپ تفویض ہوتی ہے۔
مہاتما گاندھی نے 1937ء میں اس وقت کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ کو سادگی اپنانے کی تلقین کی تھی۔ اپنے خط میں انہوں نے لکھا تھا،
”کانگریسیوں کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ سادگی پر ان (گاندھی) کی ہی اجارہ داری ہے، جس کا مظاہرہ وہ 1920ء سے دھوتی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں رام اور کرشن کو مثال کے طور پر اس لیے پیش نہیں کر سکتا کہ یہ قبل از تاریخ کے نام ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہا رانا پرتاپ اور شیوا جی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیا طرز عمل اپنایا۔ البتہ پیغمبر اسلام، حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی، اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکش اور سادہ زندگی گزاری، اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ حضرت عمر نے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔ اگر کانگریسی وزراء بھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے، جس پر وہ 1920ء سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے، اس سے غریبوں کی اُمیدیں روشن ہو سکتی ہیں اور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔ میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب بدحالی ہرگز نہیں، سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے، جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ پاک صاف اور باوقار رہنے کے لیے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی۔”
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہاتما گاندھی کی ان نصیحتوں کو یورپی ممالک کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن ہمارے لیڈروں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے سے بھلا رکھا ہے، جس کا انجام آج عوام کو بدحالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو