گُم شُدہ شہر کی کہانی (افسانہ)

محمد جمیل اختر

آدھی رات کو اس نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی تو اسے یوں محسوس ہوا، جیسے وہ ساری عمر دستک دیتا رہے گا اور یہ دروازہ کبھی نہیں کھلے گا

وہ جوان ہوگیا تھا لیکن اس کا دل پانچ سال کے بچے جیسا تھا، اس نے بہت چاہا کہ وہ بڑا ہوجائے لیکن ہر بار ناکام رہا۔ اب جبکہ وہ ایک پینتیس سال کا جوان آدمی تھا تو وہ کوشش کرتا کہ ہر اس صورتِ حال سے بچے جس سے لوگوں کو اس کے ’پانچ سالہ دل‘ کے بارے معلوم ہوجائے

جب تک یہ آدمی دروازے پر کھڑا ہے، اتنی دیر میں ہم درج ذیل تین باتیں جان لیتے ہیں:

افشین نے ایک عمارت کے چوتھے فلور سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی

افشین کے باپ نے چار لاکھ کا انگلش بل ڈاگ منگوا لیا

افشین نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر لکھا ’میں ان زہریلے مچھروں سے تنگ ہوں، شاید میں جلد مرجاؤں‘

بھلا ان باتوں کا آپس میں کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟ بہت سی باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی۔۔

اس کہانی کو لکھنے کے لیے مجھے مکمل خاموشی چاہیے، جو ایک کمرے کے مکان میں میسر نہیں۔۔ سو مجھے بار بار گلی میں جاکر سگریٹ پھونک کر کرداروں کے بارے سوچنا پڑتا ہے۔ اس لیے آپ کو وقفوں وقفوں میں مختلف کرداروں کی کہانی پڑھنا ہوگی

میری بیوی کا خیال ہے کہ کہانیاں لکھنے سے گھر نہیں چل سکتا، میرا بھی یہی خیال ہے لیکن میں اب کیا کر سکتا ہوں؟ وہ مجھے بتا رہی ہے کہ اس کے بھائی نے اپنا مکان لے لیا ہے۔ ہم کب تک کرائے کے ایک کمرے میں رہیں گے؟ لیکن میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں

میں سگریٹ پینے گلی میں چلا جاتا ہوں۔ واپس آیا تو میری بیوی کی آنکھ لگ چکی تھی

چلیے آئیے ہم کہانی کی جانب لوٹتے ہیں

اب جب کہ وہ بڑا ہو چکا تھا لیکن اس کا دل بالکل بچوں جیسا ہونے کی وجہ سے وہ راتوں کو روتا رہتا۔ اس کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ اخبار نہ پڑھے لیکن جب کبھی لوگ اس کے سامنے کسی خبر پر بحث کرتے تو وہ کوئی جواب نہ دیتا، شاید لوگ موضوع بدل لیں

قتل و غارت اور دھماکوں کی خبروں سے وہ بے انتہا اداس ہوجاتا لیکن اس شہر کے لوگ زندگی کی بجائے موت کے بارے میں زیادہ گفتگو کرتے۔ وہ جلدی جلدی اپنے گھر پہنچتا اور ساری رات کانوں میں ہیڈفون لگا کر گانے سنتا رہتا۔ پھر کمبل میں منہ چھپا کر روتے روتے سو جاتا

جوں جوں اس کی عمر بڑھتی جارہی تھی، شہر بدلتا جا رہا تھا اور قتل و غارت کی خبریں بڑھ گئی تھیں۔ وہ دعا کرتا کہ ’یاخدا اس شہر کو کوئی قانون عطا فرما‘

وہ نوجوان ابھی تک دروازے پر کھڑا کانپ رہا ہے لیکن دروازہ کھل نہیں رہا۔ کوئی تو دروازہ کھولے کہ بڑی مشکلوں کے بعد اسے اپنا گھر ملا تھا۔ یہاں پہنچنے سے پہلے وہ شہر کی کئی گلیاں دوڑتا رہا تھا، دراصل اس کے پیچھے کتے پڑ گئے تھے۔ ایک گلی کے سِرے پر چند لڑکے کتوں کی لڑائی کرانے کا سوچ رہے تھے، رات کافی بیت چکی تھی اور اس نے دیکھا کہ تمام کتے نیند میں اونگھ رہے ہیں، لڑکوں نے کتوں کو چابک رسید کیے تو کتوں نے بھونک بھونک کر سارا شہر جگا دیا

وہیں ایک بچی رو رہی تھی

’یہ رو کیوں رہی ہے؟‘، اس نوجوان نے سوچا، شاید وہ بھی کتوں سے ڈر گئی ہے۔ وہ اسے حوصلہ دے کر چپ کرانا چاہتا تھا لیکن اس کا اپنا ڈر کے مارے بُرا حال تھا، سو اس کی آواز اندر ہی دب گئی۔ وہ ننھی لڑکی دوڑ کے آگے بڑھ جاتی ہے لیکن یہ کیا وہ پھر واپس آرہی ہے؟ شاید آگے گلی بند تھی یا پھر آگے بھی کتے تھے۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے شہر کو کتوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ حالانکہ افشین نے اسے درج ذیل تین باتیں بتائی تھیں:

– اس شہر میں ایسے مچھر ہیں، جن کے سر آدمیوں کی طرح ہیں اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے

– میرے باپ نے میری ماں کو طلاق دے دی ہے، وہ باہر سے کتے امپورٹ کرتا تھا لیکن میری ماں کو اعتراض تھا سو اس نے طلاق دے دی

– اب میں جہاں رہتی ہوں وہاں ہر طرف مچھر ہی مچھر ہیں، مجھے امید ہے تم مجھے اس شہر سے ضرور دُور لے جاؤ گے

اس ننھی لڑکی کی آنکھوں میں ایسا خوف تھا، جو کتوں اور لڑکوں کے سوا ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا تھا

وہ آدمی، کہ جس کا دل پانچ سال کے بچے جیسا تھا، ڈر گیا۔ اس نے سوچا ’ان کتوں کو کوئی روکتا کیوں نہیں؟‘

لیکن اس شہر میں اب کوئی کسی کو نہیں روک سکتا تھا

یہ بالکل نیا شہر تھا، پرانا شہر آہستہ آہستہ معدوم ہوتے ہوتے آج مکمل طور پر گم ہو گیا تھا

وہ وہاں سے بھاگا کہ اسے پرانا شہر ڈھونڈنا تھا

’کیا یونہی بھاگتا جاؤں، بھاگتا جاؤں تو مجھے گُم ہوا شہر مل جائے گا؟‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا

’نہیں، نہیں، نہیں۔ گم ہوئے شہر کبھی نہیں ملتے‘ اندر سے جواب ملا تھا

وہ اس نئے شہر سے بھاگ جانا چاہتا تھا، چند روز پہلے افشین نے اسے بتایا تھا کہ ’وہ تو اس شہر سے دُور جانے والی ہے، بہت دُور بلکہ خواب میں اس نے ایک گاڑی بھی پکڑ لی تھی، جس پر وہ بغیر ٹکٹ سوار ہو گئی تھی اور اس نے کئی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے یہ شہر پار کر لیا تھا۔ خواب میں انسان بہت تیز سفر کرتا ہے، صدیوں بھرا دن لمحوں میں کٹ سکتا ہے‘

’ہوسکتا ہے یہ زندگی عرصہِ خواب ہو؟‘، اس نے افشین سے پوچھا تھا

’نہیں بالکل نہیں، یہاں ایک ایک لمحہ صدی بن گیا ہے، یہ خواب نہیں ہوسکتا‘، افشین نے کہا

’اس سے پہلے کہ دالیں سبزیوں کے بھاؤ، سبزیاں گوشت کی قیمت پر بکیں اور گوشت ہماری قوتِ خرید سے باہر ہو جائے، ہمیں اس سے پہلے اس شہر سے بھاگ کر شادی کرلینی چاہیے‘ افشین نے کہا

’لیکن میری تو شادی ہو چکی ہے اور میرا ایک بچہ بھی ہے۔ لیکن اگر پھر بھی تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو تو سنو، ہم ضرور شادی کر لیں گے، بس کچھ رقم میرے ہاتھ آ جائے، میں پیسے جمع کر رہا ہوں، مجھے کچھ وقت چاہیے‘

’وقت ہی تو نہیں ہے‘ افشین نے کہا اور اس کے پاس واقعی وقت نہیں تھا۔ اس نے آج ایک بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی تھی۔ اس شہر میں اب ایسا کوئی قانون نہیں تھا، جس سے یہ ثابت کیا جاسکتا کہ اس نے بلڈنگ سے چھلانگ لگائی تھی یا اسے مچھروں نے نیچے پھینکا تھا؟

وہ ڈرا ہوا لڑکا بھاگتا بھاگتا ایک گلی میں داخل ہوا، جو اس کی اپنی گلی ہی کی طرح تھی، لیکن اس کا گھر کہیں موجود نہیں تھا۔ صبح تک تو اس کا گھر اسی گلی میں موجود تھا، معلوم نہیں اب اس کا گھر کہاں ہے؟ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکا ہاتھ میں کتے کی رسی پکڑے اس کے سامنے آ گیا۔ لڑکے اور کتے کی آنکھوں میں وحشت صاف دکھائی دے رہی تھی

’دیکھو مجھ سے لڑنا مت، مجھے لڑنا نہیں آتا‘ اس نے گھبرا کر کتے والے نوجوان سے التجا کی

لڑکے نے اس کا گریبان پکڑ لیا اور ایک زوردار تھپڑ اسے رسید کیا

’دیکھو مجھے چھوڑ دو میں ڈرا ہوا انسان ہوں، میرے ماں باپ بھی ڈرے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے سکھایا تھا کہ کسی سے مت لڑنا‘

لڑکے نے اسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا ’تم اتنے بڑے ہوگئے ہو اور ابھی بھی ڈرتے ہو، یہ لو کتا اور شہر کی گلی گلی میں گھومو‘

’کتا۔۔؟ نہیں، نہیں مجھے کتوں سے خوف آتا ہے‘

’خوف؟ کس بات کا خوف؟ اب تو شہر میں انسانوں سے زیادہ کتے ہیں‘

وہ وہاں سے بھاگا تو کتے والے لڑکے نے پیچھے سے آواز لگائی، ’نئے شہر میں رہنے کے لیے ہمارے جیسے ہو جاؤ، ورنہ تمہیں شہر چھوڑنا پڑے گا‘

وہ بھاگتا رہا، بھاگتا رہا حتٰی کہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ لیکن اب دروازہ نہیں کُھل رہا تھا

’آپ رات کے اس وقت باہر کیوں گئے تھے؟‘ میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں دراصل میری بیوی کی آنکھ پھر کھل گئی ہے

’سگریٹ پینے گیا تھا‘ میں نے اسے بتایا

’چار پیسے جو کماتے ہو، وہ بھی دھوئیں میں اُڑا دیتے ہو۔ اس بچے کو دیکھو، کل کو اس نے اسکول جانا ہے، کچھ بننا ہے۔ کیا تم نے اس بارے میں کچھ سوچا ہے؟‘ لیکن میرے پاس ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں

رکیے! میں سگریٹ پی کر آتا ہوں

’اب پھر باہر جا رہے ہو؟ تم کبھی بھی ہمارے بارے میں نہیں سوچتے‘

میں اپنے ایک کمرے کے مکان سے باہر آ جاتا ہوں۔ باہر بے انتہا سردی ہے لیکن میرے اندر آگ جل رہی ہے۔ سگریٹ سلگا کر میں نے سامنے دیکھا تو ایک آدمی تھر تھر کانپ رہا تھا

’کیا ہوا؟ خیریت تو ہے؟‘ میں نے پوچھا

آدمی نے سر اُٹھایا

’تم؟؟؟‘

’تم یہاں کیا کر رہے ہو، تم تو کہانی میں تھے‘ میں نے اس سے پوچھا

اس آدمی نے میرا گریبان پکڑ لیا

’تم نے مجھے یہاں اکیلا کھڑا کرکے اچھا نہیں کیا۔ شہر میں ہر طرف کتے ہی کتے دندنا رہے ہیں اور یہ چوٹیں دیکھو جو بھاگ بھاگ کر لگی ہیں۔ اب یہ دروازہ کھلواؤ ورنہ میں خوف سے مرجاؤں گا‘ وہ رونے لگ گیا

’لیکن تم تو کہانی میں تھے، تم یہاں کیسے پہنچے ہو؟‘

’دروازہ کھلواؤ، میں مرجاؤں گا۔ یہ شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہا‘ وہ چِلّایا

’جب اتنا حوصلہ نہیں تھا تو محبت کیوں کی تھی؟‘ میں بھی چلّایا

’میں نے تو اسے بتایا بھی تھا کہ میرا دل ایک پانچ سال کے بچے جتنا ہے، میں ان کتوں اور مچھروں سے لڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔‘

’خدا کے لیے دروازہ کھلواؤ، میرا دل خوف سے پھٹ جائے گا‘۔

’اندر آجائیے، باہر بہت سردی ہے‘، میری بیوی نے کھڑکی سے آواز لگائی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close