اسلام آباد – سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق بیان حلفی کیس میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ”میں نے اخبار کو کوئی بیان حلفی نہیں دیا، ان کا بیان سربمہر تھا جو پتہ نہیں کیسے افشا ہوگیا“
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت کی۔ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم ہائی کورٹ میں پیش ہوئے
کمرہ عدالت صحافیوں اور وکلا سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب کی نظریں عدالت میں پہلی بار پیش ہونے والے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر تھیں کہ وہ ملکی سیاست میں ہلچل مچانے والے اپنے اس حلف نامے کے حوالے سے کیا وضاحت دیں گے، جس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر مریم نواز اور نواز شریف کو 2018ع کے الیکشن سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت نہ دینے کے حوالے سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا
دلچسپ بات یہ تھی کہ آج رانا شمیم نے پچھلی سماعت پر اپنی نمائندگی کرنے والے اپنے بیٹے احمد حسن رانا کو ہٹا کر سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل عبد الطیف آفریدی کو اپنا وکیل نامزد کر دیا تھا۔
حلف نامہ جمع کروانے والے رانا شمیم آج پہلی بار عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان، ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری کے علاوہ پی ایف یو جے اور پاکستان بار کونسل کے عدالتی معاونین بھی پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید بھی معاون کے طور پر پیش ہوئے
سماعت کے دوران اخبار کے مالک نے شوکاز نوٹس پر ہائی کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ جہاں تک متعلقہ خبر کی بات ہے، میں اپنے ایڈیٹر کی بات سے متفق ہوں، ایڈیٹر نے خبر کی اشاعت سے قبل بتایا کہ وہ مطمئن ہیں کہ فریقین کا موقف معلوم کیا گیا ہے، استدعا ہے کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے
اس پر ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت سے متعلق اہم معیار ہم نے فردوس عاشق اعوان کیس میں طے کر دیے ، پچھلی سماعت پر بھی کہا تھا کہ یہ ہمارا بھی احتساب ہے ، آزادی اظہار رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ ڈیوٹیز بھی ہیں
عدالت نے رانا شمیم کو پانچ روز میں شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرانے کا حکم دیا، تو رانا شمیم نے کہا کہ انہیں 12 دسمبر تک وقت دیا جائے کیونکہ انہوں نے اپنے بھائی اور بھابھی کی چالیسویں کی دعا میں شریک ہونا ہے
رانا شمیم نے بارہ دسمبر کے بعد کا وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی وہ بیان حلفی بند ہے، جسے میں نے خود بھی نہیں دیکھا
عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے اپنا بیان حلفی نہیں دیکھا؟
جس پر رانا شمیم نے کہا کہ جو بیان حلفی اس عدالت میں جمع ہوا ہے وہ نہیں دیکھا
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے تین سال بعد بیان حلفی دیا، آپ نے کسی مقصد کے لیے لندن میں دیا ہوگا ، یہ آپ کا بیان حلفی ہے یا نہیں؟ وہی آپ نے جواب میں لکھنا ہے، بیان حلفی کا مقصد کیا تھا، وہ آپ نے بتانا ہے. نا صرف اس عدالت، بلکہ تمام ججز کو آپ کے بیان حلفی نے مشکوک بنادیا ہے، یہ سنگین توہین عدالت ہے، عدالت نے ماضی میں کوشش کی کہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر بحال ہو، آپ بتائیں کہ بیان حلفی ہے یا نہیں؟
اس پر ثاقب نثار سے متعلق بیان حلفی دینے والے رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حیران کن بیان دیتے ہوئے کہا کہ میرا جو بیان حلفی اخبار میں چھپا، وہ ابھی تک دیکھا بھی نہیں، اخبار نے خبر چھاپنے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا تھا، میرا بیان حلفی بند تھا، پتہ نہیں کس نے ان کو دے دیا ، میں نے ان کو بیان حلفی کی کاپی نہیں دی
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بیان حلفی سربمہر تھا، تو پھر اخبار کو یہ بیان حلفی کیسے ملا؟
رانا شمیم نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ جو بیان حلفی اخبار میں رپورٹ ہوا، وہ کون سا ہے؟ میں پہلے اسے دیکھ لوں، بارہ دسمبر کے بعد کی تاریخ رکھ لیں تو میں کافی ایزی ہو جاؤں گا، اس سے پہلے کی ڈیٹ رکھی تو اوریجنل بیان حلفی نہیں آ سکے گا
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے کہا کہ پہلی دفعہ انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ بیان حلفی کسی کو نہیں دیا تھا ، عدالت ان کو کہے کہ اصل بیان حلفی عدالت کے سامنے پیش کریں. یہ دس سال پہلے کی دستاویز نہیں، دس نومبر کی ہے اور اس وجہ سے عدلیہ کے خلاف مہم چل رہی ہے، کس نے بیان حلفی لکھا وہ تو سامنے آئے، میری درخواست ہے کہ یہ رکارڈ پر آجائے کہ یہ نہیں جانتے کہ بیان حلفی میں کیا تھا. رانا شمیم کو تین سال پہلے کا تو یاد تھا کہ کس نے کیا کہا تھا لیکن بیس دن پہلے کا بیاں حلفی یاد نہیں. جس شخص نے بیان حلفی دیا اسے یاد نہیں کہ بیان حلفی میں کیا لکھا ہے، اگر انہیں نہیں معلوم تو پھر یہ بیان حلفی کس نے تیار کروایا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ مختلف بیان حلفی پیش کر دیتے ہیں، تو پھر تو اخبار پر بہت زیادہ ذمہ داری آجاتی ہے، رانا شمیم کے آج کے بیان نے معاملہ کو مزید الجھایا دیا ہے
ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ رانا شمیم اوریجنل بیان حلفی کے ساتھ تحریری جواب داخل کریں۔ عدالت نے اخبار کے ایڈیٹر انچیف، ایڈیٹر اور ایڈیٹر انوسٹیگیشن کے جوابات عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی
عدالت میں رانا شمیم کے بیان حلفی کی کاپی رانا شمیم کے پاس بھی موجود نا ہونے کا انکشاف ہوا۔ رانا شمیم نے کہا کہ کاپی برطانیہ میں ہی ہے، 7 دسمبر تک دستاویزات نہیں پہنچ سکتیں، لہٰذا میرا شوکاز پر جواب ہی آسکے گا، بیان حلفی کی دستاویز نہیں آسکے گی
رانا شمیم کی طرف سے لمبی تاریخ مانگنے پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک ایک دن اہم ہے کیونکہ یہ عدالتوں پر الزامات کا سیزن ہے اس کیس کا جلد فیصلہ ہونا ضروری ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ ’میں توہین پر یقین ہی نہیں رکھتا مگر یہ ایشو پیچیدہ ہو گیا ہے لوگوں کے عدالت پر اعتماد کا معاملہ ہے۔ سیاسی بیانیے سے اس عدالت کو تو محفوظ رکھیں۔’
رانا شمیم کا کہنا تھا کہ لندن سے حلف نامہ منگوانے میں وقت لگے گا جس پر اٹارنی جنرل نے پیش کش کی کہ وہ لندن میں حلف نامہ سفارت خانے میں جمع کروا دیں، میں بروقت عدالت میں پیش کرنے کی زمہ داری لوں گا
عدالت نے سات دسمبر تک رانا شمیم کو اصل بیان حلفی اور شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی.