ٹھٹہ میں ایک بار پھر پان اگانے کا رجحان بڑھنے لگا

نیوز ڈیسک

ٹھٹہ – سندھ کے شہر ٹھٹہ کے علاقوں میرپور ساکرو اور کیٹی بندر میں کچھ عرصہ قبل پان کی کاشت کی جاتی تھی، لیکن بعد ازاں کئی وجوہات کی بنا پر اس رجحان میں کمی دیکھی گئی

لیکن اب کئی زمیندار روایتی اجناس کو خیرباد کہہ کر دوبارہ پان کی کاشت کی طرف لَوٹ رہے ہیں

ان اجناس میں سری لنکا میں پایا جانے والا پان کا پودا ’سیلون‘، بھارت میں پایا جانے والا پودا ’سانچی‘ اور مقامی طور پر پیدا کی جانے والی پان کی اقسام بھی شامل ہیں

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے ہی ایک کاشت کار تنویر احمد کا کہنا ہے کہ وہ اسکول میں تھے جب بڑے بھائی حاجی علی اصغر نے پان اگانے کا کام شروع کیا، لیکن 1995 سے 2014 تک یہ کام کرنے کے باوجود اس میں آمدن ہی نہیں ہورہی تھی تو انہوں نے کاشت ختم کردی

تنویر احمد نے بتایا کہ دو سال پہلے رمضان میں جب وہ پان خریدنے منڈی گئے تو وہاں پان کے پتوں کی قیمت پانچ ہزار روپے سے چھ ہزار روپے فی کلو تک تھی

انہوں نے کہا کہ پان کی کاشت کا شوق انہیں پہلے سے ہی تھا، تو قیمت سننے کے بعد انہوں نے ڈھائی سو پودوں کا ایک فارم تیار کیا اور کاشت شروع کر دی

ٹھٹہ سندھ کا وہ علاقہ ہے، جہاں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ آکر سمندر میں گرتا ہے۔ اس علاقے میں جہاں کسی دور میں دریا ٹھاٹھیں مارتا تھا، اب ڈیموں اور بیراجوں کے باعث وہاں پانی کا بہاؤ کم ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے روایتی فصلوں کے بجائے کم پانی والی فصلیں کاشت کرنا شروع کردی ہیں، ان فصلوں میں پان کے پتے کی کاشت بھی شامل ہے

سینتیس سالہ تنویر احمد نے بتایا کہ وہ اس سے پہلے ٹماٹر اور سبز مرچ وغیرہ کی کاشت کرتے تھے، لیکن منڈی میں پان کی قیمت جاننے کے بعد انہوں نے پان اگانے کی ٹھان لی

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی ایک ایکڑ زرعی زمین پر پان کا فارم بنا رکھا ہے۔ اس وقت ان کے فارم میں تین سو اسی سری لنکا کے پان کے پودے جبکہ ایک سو بیس پاکستانی پودے لگے ہوئے ہیں

تنویر احمد کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کے پاس ہزار پودے ہیں جن میں ایک سو بیس پودے انہوں نے خود تیار کیے ہیں۔ ان کو زیادہ گرمی نہیں چاہیے، دھوپ زیادہ آئے گی تو پتے پیلے ہوجاتے ہیں، جن کی مارکیٹ میں کوئی ویلیو نہیں رہتی۔ جب سبز رنگ کے ہوتے ہیں تو پھر ان کے ریٹ صحیح ملتا ہے

انہوں نے بتایا کہ جون، جولائی اور اگست کے تین ماہ کاشت کاروں کے پاس پانی نہیں ہوتا، پھر فصلوں کے لیے بور لگائے جاتے ہیں، جس کا پانی کبھی کبھار کڑوا بھی نکل آتا ہے۔ ایسے میں انہیں میٹھے پانی کے ٹینکر منگوانے پڑتے ہیں جن کی فی ٹینکر قیمت پانچ سے چھ ہزار روپے ہوتی ہے۔ انہیں اپنے فارم کے لیے کم از کم چار، پانچ ٹینکروں کی ضرورت ہوتی ہے

تنویر احمد کہتے ہیں کہ ان کے فارم میں پیدا ہونے والے پان کے پتے ہزار روپے فی کلو کے حساب سے منڈی میں بکنے چاہییں، اگر اس سے کم قیمت ملے تو یہ نقصان ہوتا ہے

ملک بھر میں پان بہت شوق سے کھایا جاتا ہے، یہ خصوصاً شادی بیاہ یا موسیقی کی محفلوں میں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کو کراچی میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے، اسی لیے پان کے پتوں کی سب سے بڑی منڈی بھی کراچی میں ہی ہے، جہاں تنویر احمد اور دیگر زمیندار پان کے پتے بیچنے کے لیے جاتے ہیں

تنویر احمد کہتے ہیں کہ ان جیسے کاشت کاروں کے لیے پان کی کاشت کرنا ایک طرف گٹکے کی وجہ سے مشکل ہو رہی ہے اور دوسری طرف سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ جیسے ممالک سے پان کے پتوں کی درآمد کی وجہ سے بھی انہیں منڈی میں کم قیمت مل رہی ہے

انہوں نے کہا کہ حکومت نہ صرف گٹکا بنانے اور اس کی فروخت پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروائے، بلکہ دیگر ممالک سے پان کے پتوں کی درآمد کو بھی ختم کرے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close