شہد کی مکھیاں تو بڑی چالاک نکلیں، بہترین شہد خود پی جاتی ہیں

برلی میککوئے

اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ شہد کی مکھیوں کو شہد کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا ہے، تو آپ کو حیرت تو نہیں ہو گی؟

شہد کی مکھیاں نہ صرف شہد پیدا کرتی ہیں بلکہ اسے سب سے زیادہ استعمال بھی کرتی ہیں۔ اور یہ اس کام میں بھی بہت ہوشیار ہوتی ہیں۔ آپ کسی بیمار مکھی کو مختلف اقسام کے شہد پیش کریں تو وہ فوراً اسی شہد کا انتخاب کرے گی جس کے بارے میں اسے معلوم ہو گا کہ یہ انفیکشن سے لڑنے کے لیے سب سے بہتر ہے۔

دوسری طرف اگر انسانوں کی بات کی جائے تو اُنھیں شہد کی باریکیوں کے بارے میں اب بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہے۔

یونیورسٹی آف الینوائے میں ماہرِ حشرات مے بیرینبم کہتی ہیں کہ صرف کچھ دہائیوں پہلے تک زیادہ تر ’کارآمد غذائیں‘ جو بنیادی غذائیت سے بڑھ کر طبی فوائد فراہم کرتی ہیں، اُن میں شہد کا ذکر نہیں ہوتا تھا

’یہاں تک کہ مگس بان اور شہد کی مکھیوں پر ریسرچ کرنے والے بھی اسے مٹھاس سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔‘

مگر تب سے اب تک وسیع پیمانے پر تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ شہد میں ایسے کئی نباتاتی کیمیکلز پائے جاتے ہیں جو شہد کی مکھیوں کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ شہد میں موجود اجزا مکھیوں کی عمر بڑھاتے ہیں، سخت حالات مثلاً سردی کے خلاف اُنھیں مزید مضبوط بناتے ہیں اور انفیکشنز سے لڑنے اور زخموں کو مندمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔

ان نتائج سے ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ ہم حالیہ برسوں میں قدرتی ماحول کی تباہی، کیڑے مار دواؤں اور جراثیم کے مکھیوں پر اثرات سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں۔

بیرینبم کہتی ہیں کہ ’یہ بہت ہی حیران کُن مادہ ہے اور مجھے لگتا ہے کہ لوگ اب بھی اسے پوری طرح سمجھ نہیں پائے ہیں۔‘

یہ ڈبل روٹی پر بہت اچھا لگتا ہے اور چائے کا لطف بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس گاڑھے مادے میں سب سے زیادہ چینی ہی ہوتی ہے مگر اس میں ایسے انزائمز، وٹامنز، معدنیات اور نامیاتی مادوں کی بہتات ہوتی ہے جو ہر شہد کو اس کی انفرادیت فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ شہد کی مکھیوں کو بھی زبردست طبی فوائد مہیا کرتے ہیں۔

مگر صرف شہد کی مکھیاں ہی شہد پیدا نہیں کرتیں بلکہ بھنورے، بغیر ڈنک والی مکھیاں اور یہاں تک کہ کچھ بھڑیں بھی شہد پیدا کرتی ہیں۔ مگر صرف (ایپیس نوع کی) شہد کی مکھیاں ہی اتنا شہد پیدا کر پاتی ہیں کہ وہ ہماری دکانوں تک پہنچ پاتا ہے۔ اور یہ صلاحیت ان میں راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس میں کروڑوں سال لگے ہیں۔

شہد کی مکھیوں اور بھڑوں کے درمیان لگ بھگ 12 کروڑ سال کے درمیان ارتقا کے باعث فاصلہ پیدا ہوا اور اسی دوران پھولدار پودوں نے بھی زبردست نشوونما پائی

پھولوں کے اس تنوع اور کیڑوں کے برعکس مکھیوں کے اپنے لارووں کو پولن ذرات کھلانے کے رجحان میں تبدیلی کی وجہ سے مکھیوں میں وہ ارتقا ہوا جس کی وجہ سے آج ان کی 20 ہزار سے زیادہ اقسام جانی جاتی ہیں۔

اس کے بعد شہد کی تیاری میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مکھیوں کو مزید کچھ کیمیائی ترکیبیں اور رویے سیکھنے پڑے۔ شہد کی مکھیوں نے پھولوں کے رس اور پولن کو ملانا شروع کیا جس سے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا آسان ہوا۔

اس کے علاوہ ان میں موم خارج کرنے والے غدود بھی پیدا ہونے لگے جس کے باعث یہ پھولوں کے رس اور پولن ذرات کو الگ الگ حصوں میں جمع کر پاتی تھیں۔

پینسلسوانیا سٹیٹ یونیورسٹی میں ماہرِ حشرات کرسٹینا گروزینگر کہتی ہیں کہ ’موم بہت ہی لچکدار تعمیراتی مواد ہے۔’ کرسٹینا مکھیوں کے سماجی رویوں اور صحت پر اثرانداز ہونے والے عوامل پر تحقیق کرتی ہیں۔

شہد کا چھتہ بناتے وقت مکھیاں موم کو چھ کونوں والے خانوں کی صورت میں ترتیب دیتی ہیں جو کسی چیز کو محفوظ کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے کیونکہ چھ کونوں والے خانے ایک دوسرے کو مضبوط سہارا دیتے ہیں۔ کرسٹینا کہتی ہیں کہ یہ ‘انجینیئرنگ کا ایک عجوبہ ہے۔‘

کئی چھوٹے اور یکساں خانے بنانے کا ایک اور بھی فائدہ ہے۔ بڑی سطح کا مطلب ہے کہ پانی جلد بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کم پانی کا مطلب جراثیم کی کم افزائش ہے۔

اور ان خانوں میں جس شہد کو محفوظ کرنا ہوتا ہے، اس کی تیاری کا کام مکھی کے پھولوں کا رس چوسنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔

دیکھنے میں ایسا لگ سکتا ہے کہ مکھی وہ رس پی رہی ہے مگر یہ اس کے معدے میں نہیں جاتا، کم از کم روایتی معنوں میں تو نہیں۔ یہ اسے اپنے کروپ یعنی شہد کے لیے مخصوص الگ معدے میں محفوظ کر لیتی ہے جہاں یہ مختلف انزائمز کے ساتھ مل جاتا ہے۔

سب سے پہلے انورٹیز نامی انزائم اپنا کام شروع کرتا ہے جو رس میں موجود سکروز کے مالیکیولز کو توڑ کر آدھا کر دیتا ہے جس سے سادہ مٹھاس یعنی گلوکوز اور فرکٹوز پیدا ہوتی ہیں۔ (تحقیق کے مطابق یہ انزائم مکھیوں کے جینز پیدا نہیں کرتے بلکہ ممکنہ طور پر ان کے جسم میں موجود کوئی جراثیم یہ انزائم پیدا کرتے ہیں۔)

چھتے پر لوٹنے کے بعد مکھی یہ سامان دوسری مکھیوں کی اسمبلی لائن کے سامنے اگل دیتی ہے۔ یہ سارا کام منھ سے منھ کے ذریعے ہوتا ہے اور ہر قدم پر اس میں پانی کم سے کم ہوتا جاتا ہے جبکہ مزید انزائمز شامل ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ رس مکمل طور پر جراثیم سے پاک ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد یہ ملغوبہ ان خانوں میں محفوظ کر دیا جاتا ہے اور پھر مکھیاں اپنے پر تیزی سے پھڑپھڑاتی ہیں جس سے اور بھی پانی بخارات بن کر اُڑ جاتا ہے۔

اس کے بعد ایک اور انزائم گلوکوز آکسیڈیز اپنا کام شروع کرتے ہوئے کچھ گلوکوز کو گلوکونیک ایسڈ میں تبدیل کر دیتا ہے جو شہد کو محفوظ رکھنے کا کام کرتا ہے۔

یہ کیمیائی ردِعمل شہد کی تیزابیت بڑھا دیتا ہے اور ہائیڈروجن پرآکسائیڈ پیدا کرتا ہے جس سے جراثیم کی نشونما رک جاتی ہے مگر اس کی زیادہ مقدار زہریلی ثابت ہو سکتی ہے۔

اس کے بعد ممکنہ طور پر پولن اور خمیر سے آنے والے کچھ مزید انزائمز کا کام شروع ہوتا ہے جو کچھ ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کو توڑ دیتے ہیں جس سے اس کی سطح برقرار رہتی ہے۔

بالآخر خانے کو موم سے ڈھک دیا جاتا ہے۔ نرس مکھیاں اس تیار شہد کو چھتے کے دیگر رہائشیوں کو پہنچاتی رہتی ہیں اور باقی کو سرد اور برسات کے دنوں کے لیے محفوظ رکھا جاتا ہے۔

میٹھی دوا
نوّے کی دہائی میں بیرینبم کی پھولوں کے رس میں دلچسپی پیدا ہوئی جس کے بعد اُنھوں نے شہد پر کام شروع کیا۔

وہ جانتی تھیں کہ پھولوں کے رس میں پودوں کے کیمیائی مادے یعنی فائٹوکیمیکلز ہوتے ہیں جو کیڑوں کو بھگاتے ہیں اور پودوں کی نشونما اور غذائیت جذب کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

اُنھیں خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوس کر اس سے شہد بناتی ہوں گی تو ہو سکتا ہے کہ یہ فائٹوکیمیکلز بھی مکھیوں کے ساتھ آ جاتے ہوں۔ وہ یہ جاننا چاہتی تھیں کہ اگر ایسا ہو رہا تھا تو اس کے مکھیوں پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔

چنانچہ بیرینبم نے شہد میں موجود کیمیکلز پر غور کرنا شروع کیا۔ سنہ 1998 میں اُن کی ٹیم نے پایا کہ مختلف اقسام کے شہد میں مختلف اقسام کے اینٹی آکسیڈینٹس ہوتے ہیں اور اس کا انحصار اس پھول پر ہوتا ہے جس سے رس لے کر شہد بنایا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ: ‘اس نے میری دلچسپی میں اضافہ کیا۔’ بعد میں اُن کے گروپ نے پایا کہ جن مکھیوں کو شہد میں موجود دو فائٹوکیمیکلز (پی کومیریک ایسڈ اور کوئرسیٹین نامی اینٹی آکسیڈینٹ) سے ملا میٹھا پانی پلایا گیا، وہ اُن مکھیوں کے مقابلے میں کیڑے مار دواؤں کا بہتر مقابلہ کر سکتی تھیں جنھیں صرف میٹھا پانی پلایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ فائٹوکیمیکلز والا پانی پینے والی مکھیوں کی عمر بھی دوسری مکھیوں کے مقابلے میں زیادہ پائی گئی۔ بیرینبم اور اُن کے ساتھیوں نے سنہ 2017 میں اپنی یہ تحقیق انسیکٹس نامی جریدے میں شائع کروائی۔

دیگر تحقیقوں میں شہد میں موجود اضافی فائٹوکیمیکلز کے فوائد سامنے آئے ہیں۔ ایبسیسیک ایسڈ سے مکھیوں کی قوتِ مدافعت مضبوط ہوتی ہے، زخم بھرنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے، اور سرد موسم کے خلاف برداشت پیدا ہوتی ہے۔

دیگر فائٹوکیمیکلز مکھیوں پر جراثیم کا اثر کم کر دیتے ہیں ورنہ جراثیم مکھیوں کی آبادیوں میں کمی کی سب سے بڑی وجہ بنتے ہیں۔

مثال کے طور پر فنگس سے متاثرہ مکھیوں کو اگر تھائم پودوں سے حاصل کیا گیا فائٹو کیمیکل تھائمول بطور سیرپ پلایا جائے تو اس سے اُن میں پھپھوندی کے ذرات کی تعداد نصف سے بھی کم ہو جاتی ہے۔

اس کے علاوہ فائٹو کیمیکلز یورپی اور امریکی فاؤل بروڈ نامی بیماری کی وجہ بننے والے بیکٹیریا کی نشونما بھی روکتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ ورنہ امریکی فاؤل بروڈ کی بیماری اتنی تباہ کُن اور اتنی تیزی سے پھیلنے والی ہوتی ہے کہ اسے روکنے کے لیے پورے کے پورے چھتوں کو آگ لگا دینے کی تجویز دی جاتی ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ کچھ فائٹو کیمیکلز مدافعت بہتر بنانے والے اور زہریلے مادوں کا اخراج کرنے والے جینز کے کام میں مدد دے کر اپنے اثرات دکھاتے ہیں۔

مثال کے طور پر سنہ 2017 میں جرنل آف اکنامک اینٹومولوجی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق جب مکھیوں کو اینابیسائن نامی فائٹوکیمیکل کا حامل رس پلایا گیا تو جراثیم کش پروٹین پیدا کرنے والے ایک جین نے ان پروٹینز کی پیداوار بڑھا دی۔

اس کے علاوہ فائٹوکیمیکلز مکھیوں کے اندر اور اوپر رہنے والے اچھے جراثیم کو خوش رکھ کر بھی مکھیوں کی اچھی صحت کا سبب بن سکتے ہیں۔ گذشتہ سال جرنل آف اپلائیڈ مائیکروبائیولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کیفین، گیلک ایسڈ، پی کومیریک ایسڈ اور کیمپفیرول مکھیوں کے پیٹ میں موجود اچھے جراثیم کے تنوع اور تعداد کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

اور شہد کی مکھیوں میں اچھے جراثیم کی تعداد کا تعلق اُن پر متعدد انفیکشنز کی شدت کے کم ہونے سے پایا گیا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب شہد کی مکھیاں بیمار ہوں تو وہ زیادہ صحت بخش شہد کا انتخاب کرتی ہیں۔

ماہرِ حشرات سلویو ارلر اور اُن کی ٹیم نے جراثیم سے متاثرہ مکھیوں کے سامنے چار مختلف اقسام کے شہد رکھے۔

ارلر جرمنی کے جولیس کوئیہن انسٹیٹیوٹ میں کام کرتے ہیں۔ ‘ہم نے اُنھیں انتخاب کی آزادی دی۔’

محققین نے پایا کہ بیمار مکھیوں نے سورج مُکھی کے پھولوں سے تیار شہد منتخب کیا جو کہ اس انفیکشن کے لیے بہترین دوائی بھی تھا اور اس میں سب سے زیادہ قدرتی اینٹی بائیوٹک خصوصیات تھیں۔

ٹیم نے بیہیویئرل ایکولوجی اینڈ سوشوبائیولوجی نامی جریدے میں اپنے نتائج شائع کروائے۔

مگر کیا مکھیاں خود اپنا علاج کر سکتی ہیں؟
شہد سے قوتِ مدافعت میں اضافے اور دیگر فوائد کے باوجود مکھیاں اب بھی مشکلات کی شکار ہیں۔

اپریل 2020 اور اپریل 2021 کے درمیان امریکہ میں مگس بانوں نے مکھیوں کی اپنی 45 فیصد آبادیاں گنوا دیں۔ سنہ 2006 میں بی انفارمڈ پارٹنرشپ نامی غیر منافع بخش تنظیم نے جب سے یہ سروے شروع کیا ہے، تب سے یہ اب تک کا دوسرا بدترین سال رہا ہے۔

ویسے تو مگس بان چھتوں میں کچھ شہد چھوڑ دیتے ہیں مگر بظاہر شہد کی ورائٹی ہونا بھی ضروری ہے۔ تحقیق میں پایا گیا ہے کہ مختلف اقسام کے شہد جو بلیک لوکسٹ درخت کے پھولوں، سورج مُکھی یا متعدد اقسام کے پھولوں سے بنتے ہیں، وہ مختلف اقسام کے بیکٹیریاز کو ختم کرتے ہیں۔

سلویو ارلر کہتے ہیں کہ یہ ورائٹی کسی میڈیکل سٹور کی طرح ہوتی ہے۔ ‘ہم فارمیسی جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سر درد کے لیے یہ اور پیٹ درد کے لیے یہ چاہیے۔ اور فارمیسی میں ہمیں یہ سب کچھ ایک جگہ مل جاتا ہے۔’

مگر بیرینبم کہتی ہیں کہ مکھیاں اپنی یہ شہد کی فارمیسی صرف تب بنا سکتی ہیں جب درست پھول دستیاب ہوں، اور وہ بھی نہ صرف تعداد اور ورائٹی میں، بلکہ کاشت کے پورے موسم کے دوران۔

بیرینبم نے 2021 کے اینوئل ریویو آف اینٹومولوجی میں مکھیوں کی صحت پر شہد کے اثرات کے بارے میں مشترکہ طور پر ایک جائزہ تحریر کیا ہے۔

بڑے زرعی رقبوں پر مکھیوں کو پودوں کی ورائٹی نہیں مل پاتی جہاں ہر سال مکھیوں کو بادام، سیب، کدو اور ناشپاتیوں کے پولنز کی تقسیم کے لیے لایا جاتا ہے۔

امریکہ کے محکمہ زراعت کی ہنی بی ہیلتھ لیبارٹری میں ماہرِ حشرات آرتی شیشادری کہتی ہیں کہ طرح طرح کے پھول دستیاب ہونے سے مکھیوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔

اب محکمہ زراعت زرعی زمینوں کے مالکان کو کنزرویشن ریزرو پروگرام کے تحت فوائد کی پیشکش کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی زرعی زمینوں کے کچھ حصے کو جنگلی حیات کے لیے محفوظ علاقہ بنائیں۔ آرتی کہتی ہیں کہ ‘زراعت کو جاری رہنا ہے مگر اسے پولن منتقل کرنے والے کیڑوں کو بھی سہارا دینا ہوگا۔’

مکھیوں کی غذائی ضروریات پوری ہونے سے اُن کے تمام مسائل حل نہیں ہو جائیں گے مگر سلویو ارلر کہتے ہیں کہ مکھیوں کی اپنی دوائی تک رسائی یقینی بنانے سے مدد مل سکتی ہے۔

اُن کا خیال ہے کہ مگس بان مختلف پھولوں سے تیار کردہ شہد چھتوں میں چھوڑ دیں تو اس سے مکھیوں کے اپنے میڈیکل سٹور میں سال بھر کی ضرورت کا سامان موجود رہے گا۔

اور مے بیرینبم جنھوں نے برسوں قبل اپنی تحقیقات اس لیے شروع کی تھیں کیونکہ اُنھیں محسوس ہوا کہ شہد کو اُس کا مقام نہیں مل رہا تھا، کہتی ہیں کہ معلومات حاصل کرنا درست سمت میں ایک قدم ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ بالآخر اسے توجہ مل رہی ہے۔’

نوٹ : یہ مضمون ابتدائی طور پر”نوایبل میگزین“ میں شائع ہوا جو اینوئل ریویوز کی آزادانہ صحافت کی کاوش ہے۔ یہاں بی بی سی کے شکریے کے ساتھ شایع کیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close