غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف دو سالوں میں درجہ حرارت میں دو درجے اضافہ ہو گیا ہے۔
کیا کسی کے پاس وقت ہے کہ وہ بیٹھ کر سوچے پانچ دس سال کے بعد یہاں زندگی کیسی ہو گی؟ کوئی اور ملک ہو تو شاید برداشت کر جائے ، ہم تو ہیں ہی ایک زرعی ملک… ہمارا کیا بنے گا!؟
یہی کوئی دس سال پہلے کی بات ہوگی۔جاڑے میں مارگلہ کی پگڈنڈی پر دور تک جانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ دسمبر کی دوپہر میں جنگل کی چھاؤں میں سستانے بیٹھتے تو دانت بجنا شروع ہو جاتے تھے۔ مارگلہ کا جاڑا اب بھی حسین ہے اور سردی یہاں آتی ہے، تو آ کر خیمے ڈال لیتی ہے.. مگر سچ یہ ہے کہ وہ پہلے سی بات کہاں..
نومبر کے وسط میں ہی درہ کوانی کی چھوٹی سی ندیا پر صبح سویرے ’ککر‘ جم جاتا تھا۔ اب یہ مناظر جنوری میں کہیں ملتے ہیں۔ یا پھر دسمبر کی جھڑی لگ جائے تو ندی برفاب ہو جاتی ہے، لیکن اس کا دورانیہ اب بڑا مختصر ہوتا ہے۔
کچھ سال اور پیچھے چلے جائیں.. جہاں کہیں اپنا بچپن گم ہوا پڑا ہے۔ گاؤں کے اسکول کے باہر وسیع و عریض میدان تھا۔دسمبر کی چھٹیوں سے پہلے یہ عالم ہوتا تھا کہ میدان میں ’ککر‘ کی تہہ لگی ہوتی تھی اور ہم اسے اکٹھا کر کے اپنے تئیں سلیٹیاں بنا لیا کرتے تھے۔ دسمبر کی چھٹیوں میں گاؤں میں ٹیوب ویل کے گرد اور ’کوہل‘ کے کناروں پر گویا قدرت برف کا سفوف چھڑک دیا کرتی تھی۔ پاؤں برف ہو جاتے تھے اور سرِ شام آگ جلا کر محفلیں آباد ہوا کرتی تھیں۔ اب گاؤں میں سردیاں مہمان کی طرح آتی ہیں اور رخصت ہو جاتی ہیں.. کہاں کا جاڑا اور کہاں کی سردی؟
گلوبل وارمنگ بھی ایک حقیقت سہی، لیکن اس سے بھی خوفناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بڑھتی اس وارمنگ کی شرح بین الاقوامی شرح سے زیادہ ہے۔ اس صدی کے ان بیس سالوں میں پاکستان میں قریب 160 ’ہیٹ ویو‘ Heat waves آ چکی ہیں۔ یہ اوسط غیر معمولی حد تک پریشان کر دینے والی ہے۔ گرمی کی شدت بڑھے گی تو انسان متاثر ہوگا اور گرم موسم کا دورانیہ بڑھے گا تو ملک کی زرعی پیداوار کا سارا تناسب درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ یہی عالم رہا تو چند ہی سالوں میں گندم کی پیدوار شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ گندم کی پیداوار متاثر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا سادہ سا مطلب فوڈ سیکیورٹی کا خاتمہ اور معاشی تباہی ہے۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ گندم اور چینی بیرون ملک سے خریدنے کے لیے ہم 10 ارب ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کی ساری شرائط صرف ایک ارب ڈالر کے قرض کے لیے مانی جا چکی ہیں۔ گندم کی پیداوار تھوڑی سی بڑھا لی جاتی تو یہ ایک ارب ڈالر بچائے جا سکتے تھے اور آئی ایم ایف کی شرائط کے منطقی نتائج سے سے عوام الناس کو برباد اور تباہ ہونے سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔
ماحولیات ہمارے لیے ایک اجنبی سا اور فضول سا موضوع ہے۔ہم اسے سنجیدہ نہیں لیتے۔ لیکن ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور ورلڈ بنک کے اعدادو شمار کے مطابق صرف ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال قریب 4 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ ناک سے لکیریں کھینچ کر آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر حاصل کیے جا سکے ہیں۔ نقصان کے اس تخمینے میں اگر ماحولیات سے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات اور بیماریوں اور ان کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کو بھی شامل کر لیا جائے تو اندازہ کیجیے بات کہاں سے کہاں جا پہنچے گی؟
درخت کٹ رہے ہیں ، پرندے مر رہے ہیں، کس کو پرواہ ہے۔ شاپنگ بیگز نے جو تباہی مچا رکھی ہے اس کا کسی کو احساس تک نہیں۔ چند روز ماحولیات کی وزارت نے بیرونی دنیا کو متاثر کرنے کے لیے ٹویٹر پر کارروائی ڈالی کہ پلاسٹک کے شاپرز کا استعمال منع ہے۔ اب شاپرز تو دستیاب ہیں، زرتاج گل صاحبہ کہیں دکھائی نہیں دے رہیں۔ ۔ اسلام آباد کی بڑی مارکیٹوں تک ہی اس پابندی کو یقینی بنا لیا جاتا تو کوئی بات ہوتی۔ لیکن یہاں ہر طرف یہ غلاظت پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ مارگلہ ٹریلز پر جاتے ہیں اور وہاں بھی شاپرز پھینک آتے ہیں۔ کتنے ہی معصوم پرندے ان کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔’ فلورا اینڈ فانا‘ برباد ہو گیا لیکن شاپرز ختم نہیں ہو سکے۔کبھی کبھی اس معاشرے کی جہالت اور سفاکی سے خوف آتا ہے۔ یوں لگتا ہے انسان نہیں یہ ’دوپائے‘ ہیں۔
ان دنوں آلودگی کا عالم یہ ہے کہ لاہور میں سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔اسلام آباد جیسے صاف ستھرے شہر میں بلیو ایریا میں کھڑے ہو کر دیکھیں تو ڈیڑھ فرلانگ پر واقع مارگلہ کا پہاڑ نظر نہیں آتا۔ اعدادو شمار کے مطابق اگر چہ اسلام آباد کی ہوا کا معیار لاہور سے دو گنا بہتر ہے لیکن اسلام آباد کی آب و ہوا کا لاہور جیسے گنجان آباد شہر سے کیا مقابلہ؟ ہوا میں آلودگی کا یہ عالم ہے کہ رات کو سائیں تو سانس بند ہونے لگتی ہے۔
ہمارے ہاں مجال ہے کہ کسی چینل پر یہ بتایا جاتا ہو کہ آج فلاں شہر میں IQI یعنی ایر کوالٹی انڈکس یہ رہا۔ ایر کوالٹی ہمارے لیے سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی نہ ہی یہ کوئی خبر ہے۔ ہمارے لیے موسم اور ماحول کی کہانی بس اتنی سی ہے کہ کہاں بارش ہوئی کہاں موسم خشک رہا اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں دھوپ کہاں ہو گی اور بادل کہاں کہاں گرج چمک کے ساتھ برسے گا۔ایر کوالٹی انڈکس یہاں ایک چونچلے سے ز یادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا۔
ہم جلوس نکالتے ہیں تو ٹائر جلا کر فضا آلودہ کر دیتے ہیں۔پیٹ کا جہنم بھرتے ہیں تو شاپر گاڑی سے سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ پارک میں پھول نظر آ جائیں تو اسے توڑ لیتے ہیں۔ درخت کاٹ کر گھر میں فرنیچر بنا لیتے ہیں۔ پرندوں اور جانوروں کا شکار کر کے گاڑی کا بونٹ بھر کر اس کی تصاویر شیئر کرتے پھرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہم نے بطور قوم بس وزارت بہبود آبادی سے حساب برابر کیے ہیں ، تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بتایا کہ مارگلہ اور ماحولیات پر لکھے گئے میرے کالموں کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ایجنڈے کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔میں ان کا مشکور ہوں۔اگر اسلامی نظریاتی کونسل اہل مذہب میں اس بارے حساسیت پیدا کرنے میں کردار ادا کر سکے اور مسجد و منبر سے ماحول کو موضوع بنایا جائے تو سماجی سطح پر بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ ہر اس مدرسے میں جہاں گنجائش ہو اگر ’قرآنک گارڈن‘ کے تصور کو فروغ دیا جائے تو بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔یہ تصور بعض جگہوں پر عملی شکل اختیار کر چکا ہے اور بعض مدارس نے اپنے قرآنک گارڈن میں ہر وہ درخت اور پودا لگایا ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔
درخت دوست اور ماحول دوست معاشرے کا قیام انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے۔ سمجھنے کی بات مگر یہ ہے کہ یہ کام محض حکومت کے کرنے کا نہیں، یہ فریضہ پورے معاشرے کو ادا کرنا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز