دیکھو، ہمارے پاس سلاموں کے جواب دینے کا وقت نہیں

حسنین جمال

سڑک پہ چلتے ہوئے ایویں کوئی بندہ آپ کو سلام کر دے تو آپ جواب دیں یا سوچیں گے کہ یہ ہے کون؟

نجف کے دادا میں ایک بات بڑی عجیب لگتی تھی مجھے۔ جو مرضی بندہ انہیں سلام کرتا وہ جواب میں وعلیکم السلام تو بولتے ہی تھے، ساتھ یہ ضرور کہتے ’بڑی مہربانی‘

اچھی طرح یاد ہے، میں نے ایک بار پوچھا بھی تھا نجف سے کہ یار یہ کیا چکر ہے، مطلب ایویں کوئی بندہ جا رہا ہے، اس نے دور سے ایک عدد سلام کیا ہے اور دادا سینے پہ ہاتھ رکھ کے اسے وعلیکم السلام سمیت گھر چھوڑ کے آتے ہیں۔ یہ ’بڑی مہربانی‘ کیا چیز ہے اور وجہ کیا ہے اس کی؟

وہ غریب میرے جتنا ہی تھا اس وقت اور میں ہوں گا کوئی ساتویں آٹھویں میں، تو اس نے اپنی عقل جوگا جواب دیا کہ یار گاؤں میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ مجھے سمجھ آ گئی۔

پھر بڑے ہوتے ہوتے ایک عجیب چیز ہوئی، یہ جو ’بڑی مہربانی‘ والا کام تھا، یہ میں نے بھی کرنا شروع کر دیا۔ آپ نہیں مانیں گے لیکن جب بھی راہ چلتے کوئی سلام کرے تو جواب دیتے ہوئے وعلیکم کے بعد میں لاشعوری طور پہ ’بڑی مہربانی‘ بول دیتا ہوں، لیکن اس کے بعد فوراً اللہ بخشے نجف کے دادا یاد آ جاتے ہیں

زمانے زمانے کی بات ہے، پہلے یہ سیکھنا سکھانا بھی آسان ہوا کرتا تھا۔ آج کل بندہ اپنے بچوں کو یا تو ’گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ‘ پڑھا سکتا ہے اور یا ’بڑی مہربانی‘ سکھا سکتا ہے۔ اخلاق بھی وقت کے ساتھ بدلتا نہیں تو شاید اپ ڈیٹ ضرور ہو جاتا ہے

اتنا ضرور ہے کہ تب جو لوگ ہوتے تھے، وہ واقعی میں بڑے مہربان ہوتے تھے اور ان کے پاس شاید رک کے جواب دینے کے لیے وقت بھی ڈھیر سارا ہوتا تھا

سڑک پہ آپ نے کبھی تانگہ جاتے دیکھا ہے؟ اس میں جو آگے گھوڑا ہوتا ہے، اسے ایک عینک نما چیز پہنائی ہوتی ہے مالکوں نے، اس سے گھوڑے کی توجہ نہیں بھٹکتی اور وہ بس سامنے دیکھتا ہوا سڑک پہ چلتا جاتا ہے۔ گھوڑے کی یونیفارم میں عینک نما اس چیز کو کھوپے کہتے ہیں۔ تو ہمیں اب موبائلوں نے کھوپے پہنا دیے ہیں۔ راستے پہ چلتے ہوں، دفتر میں کسی نے بات کرنی ہو یا گھر میں کوئی راہ دیکھتا ہو، ہمارے کھوپے اتریں گے تو ہم نے دائیں بائیں دیکھنا ہے نا۔۔ تو بس اسی فارمولے کے تحت ہم سلام کا جواب بھی ہاتھ سے مکھی اڑانے کے اسٹائل میں دے دیتے ہیں یا دوروں دوری سر ہلا دیتے ہیں۔ وہ ’بڑی مہربانی‘ کہنے والا زمانہ ہی شاید اب نہیں رہ گیا

سلام دعا یا مہربانی وغیرہ والا یہ سارا کلچر لوگوں سے مل کے بنتا ہے۔ ابھی ہم لوگ مل کے بھی نہیں مل رہے ہوتے۔ یاد کریں، اپنے دفتر کے گارڈ کا نام یاد ہے آپ کو؟ ہم جیسے انسان اب صرف ان لوگوں کے نام یاد رکھتے ہیں، جو ہمارے نام نہیں یاد رکھتے۔۔ یا وہ اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ انہیں ہمارے نام یاد رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی

ہم میں سے کئی ایسے بھی ہیں، جو خالی فون کی بجتی گھنٹی دیکھ کے سُن ہو جاتے ہیں۔ اٹھانے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں کہ یار اب کیا کام آ گیا۔ کوئی پرانا دوست فون کر دے تو جتنی دیر بات چلتی ہے، انتظار ہوتا ہے کہ اصل مدعا کیا ہے۔ اگر اس غریب نے صرف حال چال پوچھنے کو فون کیا ہو تو بعض اوقات شدید حیرت ہوتی ہے۔ بات پھر وہی ہے۔۔۔ اخلاق ہو یا انسان پنا، سب چیزیں اپ ڈیٹ ہوتی ہیں وقت کے ساتھ

آپ کسی نوجوان سے پوچھ کر دیکھ لیں، اسے واٹس ایپ ٹیکسٹ پر بات کرنے میں سہولت ہوگی مگر فون لیتے ہوئے اس کی جان جائے گی اور وائس نوٹس بھیجنے والا بھی اولڈ فیشنڈ سمجھا جائے گا۔ نئی ریسرچیں بہت ساری ہیں جو اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بچے اب فون اٹھانے سے چالو ہیں، انہیں صرف ٹیکسٹ پہ بات کرنی ہے۔ یہ والے بچے اور ان کے بڑے ہم لوگ، اب ہم کیا ہی کسی کو سلام کا جواب دیں گے اور پھر بڑی مہربانی بھی کہیں گے!

دو تین بار ملک سے باہر جانا ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایویں لفٹ میں، قریب سے گزرنے پہ یا سڑک پہ چلتے چلتے بھی لوگ آپ کو دیکھ کے سلام کے اسٹائل میں سر ہلکا سا ہلا دیتے ہیں یا دوستانہ مسکراہٹ سے نواز دیتے ہیں۔ یہ ہمارا کلچر تھا۔ گلی میں کراس پڑتا تو دونوں بندے لازمی سلام دعا کرتے تھے۔ اب شاید ہم لوگ ڈرنے لگے ہیں ایک دوسرے سے یا پھر چہروں کے بغیر بات کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ فیسبک پہ کسی کے ان باکس میں گھس کے سلامیں کریں گے لیکن ساتھ گزرتے بندے سے حیا آئے گی

پھر ہم کہتے ہیں کوئی بات کرتا نہیں ہے، کوئی بندہ بات نہیں سنتا۔ سوال اتنا ہے کہ جب کوئی بات کرنے والا ہی نہیں ہوگا تو بات کس سے ہوگی؟ گفتگو سلام دعا سے ہی شروع ہوتی ہے کہ نہیں؟

اور ہاں، جس زمانے میں سلام کا جواب وعلیکم سمیت ’بڑی مہربانی‘ سے دیا جاتا تھا، تب، اگر آدمی گھر سے نکلتا تو اسے آس پاس کی گلیوں میں سارے مکانوں کا پتہ ہوتا تھا کہ فلاں گھر میں کون رہتا ہے اور وہ پرلے والے میں کون ہے، کم از کم دائیں بائیں کی چار پانچ گلیاں اور ہر گلی کے شروع والے چھ سات مکان آپ آرام سے جانتے تھے۔ اس وقت بندا بندے کا دارو ہوتا تھا۔ ایویں بے مقصد ملتے تھے، بغیر کسی کام کے گپیں مارتے تھے اور شاموں کو خبرنامے دیکھ کے سو جاتے تھے

اب بات کرنے سے پہلے بھی فائدے کے امکان دیکھے جاتے ہیں۔ یہ فائدہ ہمارے ’ڈجیٹل قیمتی وقت کا حاصل‘ ہے

وہ وقت، جسے بچا کے ہم نے صرف دماغ کی دہی بنانی ہوتی ہے مزید!

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close