ايک تصویر ایک کہانی۔ 22

گل حسن کلمتی

کوہستان کے جنگل میں قائم ایک لائبریری

آج ذکر ان تصاویر کا، جو جنگل میں قائم ایک لائبریری کی ہیں. کراچی سے 95 کلو میٹر شمال کی جانب حیدرآباد کی طرف جاتے ہوئے موٹر وے ایم۔9 سے دادا بھائی کے سامنے سے ایک راستہ مول شہر کی جانب نکلتا ہے، وہاں سے مڑا جائے تو 22 کلو میٹر پر سَرِی کا شہر آتا ہے (جسے ایف ڈبلیو او والوں نے بگاڑ کر سارِی کر دیا ہے) ، شہر ختم ہوتے ہی برساتی نالے کے پار دائیں ہاتھ پر”گوٹھ ملھ خان پالاری“ کا بورڈ نظر آئے گا، یہ لائبریری اسی گوٹھ میں ہے. خوبصورت پہاڑوں کے بیچ یہ گاؤں چاچا ملھ خان اور اس کے بیٹے در محمد پالاری کی وجہ سے مشہور ہے.

ملھ خان پالاری سال 2011ع کو 120 سال کی عمر میں وفات پا گئے. وہ ایک رواداراور کلچرڈ آدمی تھے. اس کے بیٹے درمحمد پالاری علم دوست اور ادب دوست آدمی تھے ، وہ کوھستان کے ادب / لوک ادب کے رکھوالے تھے۔ 1946ع سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک مختلف اخبارات اور کتابیں خریدتے اور جمع کرتے رہے۔ سب سے بڑی خوبی ان کی یہ تھی کہ انہوں نے اس جنگل میں تعلیم کے لئے کام کیا. آج سَرِی اور اس کے آس پاس دیہاتیوں میں جو تعلیم نظر آرہی ہے، اس شمع کو روشن رکھنے کے لئے انہوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا. اس کی سب سے بڑی دلچسپی، یا یوں کہیے کہ زندگی کا بڑا مقصد ہی یہ تھا کہ پورے کوھستان کے لوگ تعلیم حاصل کریں۔استاد ان کے آئیڈیل تھے۔ اس کا ایک مشن تھا، نوجوان ادب میں دلچسپی لیں. وہ شاہ لطیف کے پیام بر تھے. انہوں نے پوری دنیا کے ترقی پسند ادب کو پڑھا ۔ انقلاب کو پڑھا ، وہ یہ سب کچھ خاموشی سے کرتے رہے۔ وہ مہمان نواز اور ترقی پسند دوست تھے۔
درمحمد پالاری ایک سال قبل تین دسمبر 2020ع کو ہم سے جدا ہو گئے۔

وفات سے پہلے انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری کا کمرہ بنایا تھا. اگست 2020 کو جب وہ میری امی کی وفات پر فاتح خوانی پر آئے، تو انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2020ع کے آخر میں لائبریری کا افتتاح کریں گے، ایک ادبی پروگرام رکھیں گے ، سندھی اور اردو ادیبوں کو دعوت دوں گا۔

لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور اسی دسمبر میں وہ ہم سے رخصت ہوگئے. ان کے پاس کتابوں ایک ذخیرہ تھا. میں سوچتا رہا کہ پتا نہیں ان ہزاروں کتابوں کا کیا ہوگا؟ ان کے بیٹے سب پڑھے لکھے ہیں، جب بھی ملتے تھے، ان سے لائبریری پر بات ہوتی تھی۔
آج جب 3 دسمبر کو ان کی پہلی برسی کی دعوت ملی، تو دوستوں کے ساتھ وہاں پہنچا. سب سے پہلے درمحمد پالاری کے بیٹوں نے لائبریری دکھائی، جو انہوں نے درمحمد کے کتابوں سے سجا رکھی تھی. اس لائبریری کا کوئی نام نہیں تھا، میں نے تجویز دی کہ اس کا نام”درمحمد پالاری میموریل لائبریری“ رکھا جائے۔

اس لائبریری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سندھی کتابوں کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ترقی پسند ادب کی کتابوں کا بھی وسیع ذخیرہ ہے. قرآن شریف ، گیتا ، بائبل سمیت مذہبی کتابیں بھی موجود ہیں۔

وہ ہمیشہ کتابیں خریدنے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے، وہ کہتے تھے ” جو کتاب خریدتا ہے، وہ پڑھتا ہے، مفت کتابیں لینے والے پڑھتے نہیں“

اس لائبریری میں پچاس ھزار سے زائد مختلف موضوعات پر سندھی، اردو ، عربی ، فارسی اور انگریزی کی کتابیں اور رسائل ہیں۔ اس لائبریری کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ یہاں پر جی۔ایم سید، ابراھیم جویو، عبدالواحد آریسر سے لے کر سبین محمود، پرویز ھود بھائی، وسعت اللہ خان کی تصاویر رکھی ہوئی ہیں. چی گویرا، لینن، مارکس، فیدرل کاسترو، بگھت سنگھ، ھشو کیول رامانی، باغی شاعر نذرل اسلام، کامریڈ نظیر عباسی، بی ایم کٹی اور بہت سے سیاستدانوں ، ترقی پسند شخصیات، فلاسفر، شاعروں اور ادیبوں کی تصاویر بھی موجود ہیں. ان سب سے درمحمد کی نظریاتی وابستگی اور قربت تھی.

میں نے ان کے بیٹوں کو یہ تجویز دی کہ اس کو پبلک لائبریری بنایا جائے ، تاکہ آس پاس کے اسٹوڈنٹس اور ریسرچر آسانی سے اس سے مستفیض ہو سکیں۔ مجھے امید ہے اس کے بیٹے درمحمد پالاری کے اس علم دوست مشن کو آگے بڑھائیں گے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close