امریکا اور آسٹریلیا کے بعد برطانیہ اور کینیڈا کا بھی ونٹراولمپکس کا بائیکاٹ، کیا کچھ اثر پڑے گا؟

ویب ڈیسک

لندن – امریکا اور آسٹریلیا کے بعد برطانیہ اور کینیڈا بھی بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کرنے والے ممالک میں شامل ہوگئے ہیں

آسٹریلیا، پھر برطانیہ اور کینیڈا میں حکومتوں نے چار سے 20 فروری کو ہونے والے سرمائی اولمپکس میں حکام بھیجنے سے انکار کا اعلان کیا ہے۔ چین کے خلاف اس اقدام میں امریکا نے پیر کو ابتدا کی تھی

برطانوی میڈیا کے مطابق برطانیہ اور کینیڈا نے بھی بیجنگ میں ہونے والے ونٹر اولمپکس 2022 کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے

اس حوالے سے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بیجنگ ونٹراولمپکس میں کوئی برطانوی وزیر شرکت نہیں کرے گا۔ ونٹر اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کی وجہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ کینیڈا کا ونٹر اولمپکس کا بائیکاٹ چین کے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی، کیونکہ ہم ماضی میں متعدد بار چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں

یاد رہے کہ سب سے پہلے امریکا نے بیجنگ ونٹر اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد آسٹریلیا بھی سفارتی بائیکاٹ میں شامل ہوگیا تھا

چین نے امریکا کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کے سفارتی بائیکاٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کسی امریکی سفارتکار کو بیجنگ ونٹراولمپکس کے لئے مدعو کیا ہی نہیں کیا گیا تھا

واضح رہے کہ انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں ایک عرصے سے چین میں کھیلوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس کی وجہ وہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بتاتی ہیں۔ ان خلاف ورزیوں میں سنکیانگ کے علاقے میں اویغور مسلمانوں پر مظالم، جنہیں کچھ نے نسل کشی سے بھی تشبیہ دی ہے، ہانگ کانگ میں جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن، تائیوان پر بڑھتا فوجی اور سفارتی دباؤ اور حال ہی میں ٹینس اسٹار پینگ شوائی کے حوالے سے تنازع شامل ہے

کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی نے اس حوالے سے کہا کہ مزید ممالک کو بھی اسی طرح کی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول ’چین کو سخت اشارہ بھیجنا ضروری ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قابل قبول نہیں ہیں۔‘

چین کا رد عمل

چین نے ان فیصلوں کے خلاف بیانات بھی دیے ہیں۔ بدھ کو آسٹریلیا کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ ون بِن نے امریکا کی ’اندھی پیروی‘ کرنے پر آسٹریلیا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا: ’چاہے وہ آئیں یا نہ آئیں، کسی کو پروا نہیں ہے۔‘

اسی طرح برطانیہ کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد چین نے بدھ کو برطانیہ پر الزام لگایا کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے سرمائی اولمپکس میں برطانوی وزرا کی شرکت نہ کرنے کا اعلان کرکے اولمپک جذبے کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اولمپکس2022 کو داغدار کرنے کی کوشش کی

روئٹرز کے مطابق لندن میں چینی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے کہا کہ چینی حکومت نے برطانوی حکومت کے عہدیداروں اور وزرا کو بیجنگ میں اولمپکس میں شرکت کی دعوت نہیں دی ہے

ان کا مزید کہنا تھا بیجنگ سرمائی اولمپکس اولمپک ایتھلیٹس اور سرمائی کھیلوں کے شوقین افراد کا اجتماع ہے، کسی بھی ملک کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کا آلہ نہیں

اولمپک سفارتی بائیکاٹ سے کیا حاصل ہوتا ہے؟

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ اور کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت دینے کا مقصد میزبان ممالک کو جھٹکا دینا ہے

بیجنگ اولمپک کے آغاز میں دو ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، ایسے میں چین کو حکومتی بائیکاٹ ایک چھوٹا سا جھٹکا لگا ہے

ان سیاسی ہتھیاروں کا شریک کھلاڑیوں پر اثر صفر کے قریب ہونا چاہیے اور ناظرین کو اپنے نشریاتی مواد میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آنا چاہیے

ان کا مقصد میزبان ممالک جیسے کہ چین کے غرور کو ٹھیس پہنچانا سمجھا جاتا ہے

اب تک بیجنگ میں ہونے والے اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کرنے والے چاروں ممالک دیرینہ سفارتی اتحادی ہیں، جو چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور خاص طور پر اس کے مسلم اکثریتی اویغور عوام کے ساتھ سلوک پر توجہ مرکوز کروانا چاہتے ہیں، جسے کچھ لوگ نسل کشی کہتے ہیں

بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) جس کے قائدین کو عالمی سیاست میں اس کے ممکنہ مقام کا گہرا احساس ہے۔ آئی او سی کے رہنما یہ کہہ کر اولمپک برانڈ کو چمکدار بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ایونٹ ہی ایسا واحد ایونٹ ہے، جس نے دنیا کے لیے امن و دوستی کی مثال کے طور پر دو سو سے زیادہ قومی ٹیموں کو اکٹھا کیا

اولمپک مشن

اولمپک چارٹر قواعد اور ضمنی قوانین کا ضابطہ ہے جو آئی او سی کو چلاتا ہے اور ’اولمپک کھیلوں کے لیے شرائط طے کرتا ہے۔‘

’آئی او سی کے مشن اور کردار‘ سے متعلق قاعدہ اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد کرتا ہے کہ کسی بھی بائیکاٹ کو اس کے اصولوں کی تذلیل کیوں سمجھا جاتا ہے

اس کے مطابق: ’اولمپک تحریک کے اتحاد کو مضبوط بنانے، اس کی آزادی کے تحفظ، اس کی سیاسی غیر جانبداری کو برقرار رکھنے، فروغ دینے اور کھیل کی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنا۔‘

آئی او سی کے لیے سیاسی غیر جانبداری کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اولمپک کے میزبان ملک کو اس کی پالیسیوں اور کھیلوں سے ہٹ کر طرز عمل کی وجہ سے کھیلوں کے انعقاد سے نہیں روکا جانا چاہیے

آئی او سی کے سینیئر رکن جوآن انتونیو سمارانچ نے رواں ہفتے کہا کہ ہم ہمیشہ سیاسی دنیا سے زیادہ سے زیادہ احترام اور اپنے کھیلوں، اولمپک ورلڈ اور نظریات میں کم سے کم ممکنہ مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں

بائیکاٹ کی تاریخ

آئی او سی پر 1976 تا 1984 تک ایک سو سے زیادہ ممالک کی جانب سے مشترکہ طور پر تین سمر گیمز کا مکمل بائیکاٹ کرنے کے پرانے گھاؤ ابھی تک ہیں

1976 کے مونٹریال اولمپکس میں زیادہ تر افریقی ممالک نے نیوزی لینڈ کے خلاف اس لیے احتجاج کیا تھا، کہ اس کی رگبی ٹیم نے اپارتھائیڈ دور کے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تھا

1980 کا ماسکو اولمپکس امریکا اور دیگر درجنوں ٹیموں کے بغیر ہوا، جو سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے

جس کے بعد سوویت بلاک اور کچھ اتحادیوں نے 1984 میں لاس اینجلس اولمپکس کے بائیکاٹ کے ساتھ اس کا جواب دیا تھا

چار دہائیاں قبل ہزاروں کھلاڑی اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے سے محروم رہے تھے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close