1999ع کا ایکشن افسوس ناک، نہیں ہونا چاہیے تھا: سابق کمانڈر ٹرپل ون بریگیڈ

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – بائیس سال قبل 12 اکتوبر 1999ع کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے آپریشن کی نگرانی کرنے والی ”ٹرپل ون بریگیڈ“ کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ستی نے پہلی بار اس دن اور اس سے جڑے واقعات پر بات کرتے ہوئے اسے ایک افسوسناک دن قرار دیا ہے

اپنے ایک تازہ ایک انٹرویو میں فوج کے دوسرے اہم ترین عہدے یعنی چیف آف جنرل اسٹاف سے ریٹائرڈ ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ستی نے کہا کہ 12 اکتوبر ان کی سالگرہ کا بھی دن ہے اور 1999ع میں فوجی ایکشن سے پہلے وہ سالگرہ کے موقع پر قرآن خوانی میں مصروف تھے، جب انہیں معلوم ہوا کہ وزیراعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر جنرل ضیاءالدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کر دیا ہے، جس کے بعد کئی گھنٹے میں وہ آپریشن ہوا جس کے نتیجے میں نواز شریف کا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹیو بن گئے تھے

اکتوبر 2006 سے اکتوبر 2008 تک چیف آف جنرل اسٹاف کے اہم ترین عہدے پر رہنے والے لیفٹننٹ جنرل صلاح الدین ستی کا کہنا تھا کہ 12 اکتوبر کو وہ بریگیڈئیر کے طور پر راولپنڈی کی اہم ترین ”ٹرپل ون بریگیڈ“ کے کمانڈر تھے۔ جولائی 1999ع میں جب انہیں سیاچن سے بلا کر ٹرپل ون بریگیڈ کا کمانڈر تعینات کیا گیا تھا تو اس وقت سے ہی فوج اور سول حکومت کے درمیان تناؤ کی باتیں زبان زد عام تھیں

’جب میں (جولائی 1999) میں ٹرپل ون بریگیڈ میں آیا تھا تو اس وقت یہ عام بات تھی کہ حکومت اور فوج میں بہت زیادہ غلط فہمی پیدا ہو چکی ہے

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جنرل ضیاءالدین بٹ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور میڈیا کا استعمال کر کے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ شاید ہم لوگوں کی جانب سے نواز شریف کا تختہ الٹنے کی تیاری ہے

جنرل ستی کے مطابق تیاری اس طرح نہیں تھی، جس طرح میڈیا میں تاثر تھا۔ اپنی ذاتی تربیت کے حوالے سے بہرحال ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس واقعے سے دوسال قبل ٹین کور میں چیف آف اسٹاف رہا تھا اور اس زمانے میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ صدر فاروق لغاری کے حکم پر الٹا گیا تھا اور فوج بھی حرکت میں آئی تھی تو اس وجہ سے بطور چیف آف اسٹاف ٹرپل ون بریگیڈ کے حوالے سے پورا علم تھا کہ اس کام کو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے

جنرل ستی نے کہا کہ ہمیں اس قسم کا کوئی مینڈیٹ دیا گیا تھا نہ کوئی ایسی بات تھی۔ کہیں میں نے یہ بھی پڑھا تھا کہ شاید باقاعدہ کوئی تاریخ مقرر تھی فوجی انقلاب کی، جس پر ہمیں کچھ کرنا تھا اور شاید نہیں کیا، لیکن میں چونکہ خود بریگییڈ کمانڈر تھا، میں بغیر کسی جھجک کے اور بغیر ایک لفظ کے جھوٹ کے یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ ہمیں کبھی بھی اس طرح کا کوئی آرڈر نہ دیا گیا اور نہ ہی کوئی ایسی بات تھی

جنرل صلاح الدین ستی کے مطابق اخباروں میں 12 اکتوبر سے پہلے ہی یہ خبریں چھپنا شروع ہو گئی تھیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں تعینات فوجی اہلکاروں کے پاس پراسرار جاسوسی کے آلات دیکھے جا رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں تھا، بلکہ اصل بات یہ تھی کہ وزیراعظم نواز شریف کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈئیر جاوید ملک نے مجھے کچھ عرصہ قبل فون پر کہا تھا کہ وہ چند روز قبل وزیراعظم کے ساتھ ترکی کے دورے پر گئے اور وہاں دیکھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں تعینات فوجی گارڈز بہت سمارٹ ہوتے ہیں اور ہلکے پھلکے ہتھیاروں اور آلات سے لیس ہوتے ہیں، تو آپ بھی اس حوالے سے کچھ کریں

جنرل ستی چونکہ ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کے طور پر وزیراعظم اور ایوان صدر کی سکیورٹی کے ذمہ دار تھے، تو انہوں نے کہا کہ بریگیڈئیر جاوید ملک کی بات چیت کے بعد ایک نئی یونٹ کوہاٹ سے وزیراعظم آفس کی سکیورٹی کے لیے بھیجی گئی، جس کے پاس پرانے وائرلیس سیٹوں کے بجائے ہلکے پھلکے واکی ٹاکی تھے، جن کے ساتھ وہ بہت سمارٹ لگتے تھے

جنرل ستی کے مطابق اخباروں میں جاسوسی کی خبروں کی اشاعت کے علاوہ انہیں وزیراعظم ہاؤس میں سکیورٹی پر تعینات ایک بریگیڈئیر نے بھی فون کر کے باقاعدہ کہا کہ ’کیا ہماری مانیٹرنگ ہو رہی ہے؟ ’میں نے انہیں بتایا کہ میں آپ کو واکی ٹاکی سیٹ بھیج دیتا ہوں تاکہ آپ دیکھ لیں کہ یہ مانیٹرنگ کے آلات ہیں یا صرف بات چیت کے لیے ہیں۔‘
بقول ان کے ’میں نے انہیں کہا کہ آپ دیکھ لیں پہلے، کیونکہ اگر ہم نے ہٹا دیا تو آپ یہی کہیں گے کہ چونکہ ہم نے نشاندہی کی، تو اس لیے انہوں نے وہ آلات چھپا دیے، اس لیے دیکھ لیں کہ کیا چیز ہے۔‘

جنرل ستی کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف کے والد میاں شریف نے اپنے بیٹوں کو اور جنرل پرویز مشرف کو بلا کر ان کا تصفیہ کرایا اور کہا کہ آپ سب آپس میں بھائی ہیں اور اس کے بعد جنرل مشرف کو عمرے پر بھی لے کر گئے، تو یہی تاثر تھا کہ ہر چیز طے ہوگئی ہے، اب کوئی مسئلہ نہیں رہا. اسی وجہ سے جنرل پرویز مشرف دورے پر سری لنکا چلے گئے تھے، جب پیچھے سے یہ ساری کارروائی ہوئی

جنرل صلاح الدین کے مطابق یہ بڑی ہی افسوسناک بات تھی کہ چند لوگوں کے ساتھ ایک کمرے میں مل کر فوج کے نئے سربراہ کا اعلان کیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ فوج میں ایک باقاعدہ طریق کار ہوتا ہے، جانے والے کو بھی موقع دیا جاتا ہے کہ وہ الوداعی طور پر اپنے لوگوں سے بات کر سکے، اسی طرح نئے آنے والے کو بھی مناسب ڈیکورم کے تحت اعزاز سونپا جاتا ہے اور سب کے سامنے

12 اکتوبر 1999 کے دن کو پیش آنے والے واقعات کے بارے میں جنرل ستی نے بتایا کہ اس دن اپنی سالگرہ پر انہوں نے گھر میں عصر کے بعد ختم قرآن رکھا تھا. ابھی میں نے آدھا سپارہ پڑھا ہوگا کہ بچے نے آ کر بتایا کہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر ضیاءالدین بٹ کو آرمی چیف بنا دیا گیا ہے، یہ سن کر میں نے فوراً کور کمانڈر روالپنڈی لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد کو فون کیا مگر وہ گالف کھیلنے گئے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی اہلیہ سے کہا کہ فوراً ان تک پیغام پہنچائیں کہ ایسا ہوا ہے تو ہمارا ردعمل کیا ہوگا

جنرل ستی نے کہا کہ اس کے پانچ سے دس منٹ بعد جنرل محمود کی کال آ گئی اور انہوں نے کہا کہ ’آرمی کے جوان پی ٹی وی بھیج دیں تاکہ آرمی چیف کی تبدیلی کی خبر رکوا دی جائے‘

بریگیڈیئر ستی نے مزید بتایا کہ کچھ جوانوں اور افسر نے پی ٹی وی جا کر نشریات رکوا دیں جس کے بعد وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید ملک وہاں ہتھیار لے کر پہنچے اور وہاں کے افسر کو پستول دکھا کر کہا آپ ایسا نہیں کر سکتے

بریگیڈیئر صلاح الدین ستی نے کہا کہ 12 اکتوبر کو وہ خود بطور کمانڈر وزیراعظم ہاؤس تو کیا اسلام آباد بھی نہیں گئے، بلکہ موبائل پر آپریشن کنٹرول کیا اور وہیں سے ساری ہدایات دیتے اور اطلاعات لیتے رہے

انہوں نے بتایا کہ ایوان صد سے یونٹ پی ٹی وی بھیجنے کے علاوہ کچھ جوان وزیراعظم ہاؤس کے دروازے وغیرہ پر بھی بھیجے گئے، مگر ہمارا کوئی بھی جوان وزیراعظم ہاؤس کے اندر شام تک داخل نہیں ہوا، جب تک جنرل محمود وہاں خود نہیں پہنچے

انہوں نے بتایا کہ باقی نفری کو ایئرپورٹ بھیجا گیا تھا اور چند ایک اہم وزرا تھے، جن کو ٹرپل ون بریگیڈ کے جوانوں نے حفاظتی تحویل میں زیادہ تر ان کے گھروں میں ہی لیا تھا، کسی کو اٹھا کر لایا نہیں گیا تھا

ان کے مطابق ’پھر شام کو جنرل محمود پہلی دفعہ وزیراعظم ہاؤس کے اندر گئے، ان کے ساتھ میجر جنرل علی جان اورکزئی اور کچھ لوگ (سپاہی ) بھی تھے اور وہ وزیراعظم نواز شریف کو وہاں سے لے کر آئے

وزیراعظم ہاؤس کے اندر کے ماحول کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس وقت تناؤ کی کیفیت پیدا ہوئی، جب بھیجے گئے سپاہیوں اور کمانڈنگ افسران کا نئے نامزد آرمی چیف جنرل ضیا الدین سے سامنا ہوا۔ جنرل ضیا الدین اپنے ساتھ سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے ریٹائرڈ کمانڈوز کی ٹیم بھی وزیراعظم ہاؤس لے کر گئے ہوئے تھے، جو مسلح تھی اور متحرک بھی تھی. جنرل ضیاءالدین کی ٹیم کے لوگ (ریٹائرڈ کمانڈوز) بہت زیادہ حرکت کر رہے تھے، تو مجھے سی او نے کہا کہ سر یہ بہت متحرک ہیں اور یہ نہ ہو کہ کہیں فائر ہو جائے، پھر کنٹرول کرنا مشکل ہوگا، تاہم جب جنرل ضیاءالدین کو میرے کمانڈنگ آفیسر کی طرف سے کہا گیا کہ اپنے لوگوں کو روکیں، ورنہ کسی کی جان کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، تو انہوں نے بات مان لی اور انہیں وہیں پر نظر بند کر دیا گیا، بعد میں طبعیت خراب ہونے پر سی ایم ایچ بھی لے جایا گیا

جنرل صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اگر ہماری پہلے سے تیاری ہوتی تو جنرل ضیاءالدین وزیراعظم ہاؤس کے اندر کیسے جاتے۔ تاہم ہماری فوج ایک پروفیشنل آرمی ہے، الحمدللہ اس سارے عمل میں ایک گولی بھی نہیں چلی

انہوں نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی کہ وہ ایک بہت ہی بدقسمت واقعہ تھا، میں یہی لفظ استعمال کر سکتا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو نواز شریف ایک دھیمے مزاج کے بہت ہی میچور وزیراعظم لگے تھے۔ ایک بریگیڈئیر کے لیے وزیراعظم بہت بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ فوج میں تو آرمی چیف بھی وزارت دفاع کے ماتحت ہوتا ہے، میں ان کی دل سے عزت کرتا تھا

اس سوال پر کہ کیا بعد میں وزیراعظم نواز شریف نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا

جنرل صلاح الدین ستی نے اپنے بارے میں جنرل پرویز مشرف کے بہت منظور نظر افسر ہونے کے تاثر کے حوالے سے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی، چونکہ جنرل مشرف ان کے سینیئر تھے، تو وہ ان کی باقی سینیئرز کی طرح بہت عزت کرتے تھے۔ ان کے ساتھ بطور نائب یعنی چیف آف جنرل اسٹاف کام کیا اور انہیں بہت پروفیشنل اور بہادر آفیسر پایا

جنرل ستی نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان سے جتنی محبت جنرل مشرف میں دیکھی اتنی بہت کم لوگوں میں دیکھی

ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کسی سے ڈرتے نہیں تھے اور سب سے پہلے پاکستان کا صرف نعرہ ہی نہیں لگاتے تھے، اس پر دل سے یقین رکھتے تھے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close