کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت پر فیصلوں پہ عمل کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک ماہ تک جاری رہنے والی جنگ بندی میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا ہے. ٹی ٹی پی کے اس اعلان سے امن کی ابتدائی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے
ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے، جس میں چھ نکاتی معاہدے کی تفصیلات بتائی گئی ہیں. بیان میں کہا گیا یے کہ ان کا 25 اکتوبر 2021 کو "اسلامی امارت افغانستان”(آئی ای اے) کی حمایت سے حکومت کے ساتھ سمجھوتہ ہوا تھا
معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں نے قبول کیا تھا کہ آئی ای اے ثالث کا کردار ادا کرے گی اور دونوں فریق پانچ رکنی کمیٹیاں تشکیل دیں گے، جو ثالث کی نگرانی میں آئندہ کے لائحۂ عمل اور دونوں جانب کے مطالبات پر بات چیت کریں گی
ٹی ٹی پی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقوں نے یکم نومبر سے 30 نومبر 2021 تک ایک ماہ کی جنگ بندی، حکومت کی جانب سے 102 "قیدی مجاہدین” کی رہائی، انہیں اسلامی امارات افغانستان کے ذریعے ٹی ٹی پی کے حوالے کرنے اور یکم نومبر 2021ع کو جنگ بندی کے حوالے سے مشترکہ بیان جاری کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ حکومت نہ صرف فریقین کے درمیان طے شدہ فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی بلکہ اس کے بجائے سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسمٰعیل خان، لکی مروت، سوات، باجوڑ، صوابی اور شمالی وزیرستان میں چھاپے مار کر عسکریت پسندوں کو ہلاک اور حراست میں لے لیا
کالعدم ٹی ٹی پی نے واضح طور پر کہا کہ ’ان حالات میں جنگ بندی میں توسیع ممکن نہیں ہے‘
اس سے قبل ایک آڈیو میں مفتی نور ولی محسود نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ رات 12 بجے کے بعد حملے دوبارہ شروع کردیں، جنگ بندی 9 نومبر کو عمل میں آئی تھی
آڈیو میں مفتی نور کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ چونکہ ٹی ٹی پی کو ثالثوں یا حکومت کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا، اس لیے نصف شب کے بعد، ان کے جنگجو جہاں بھی ہوں، دوبارہ حملے شروع کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں
ٹی ٹی پی کا جنگ بندی ختم کرنے کا فیصلہ کئی دہائیوں سے ریاست کے خلاف جنگ لڑنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کی حکومتی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے
اس سے قبل سرکاری ذرائع نے کہا تھا کہ دونوں فریقوں نے ’رسمی بات چیت‘ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے اور ہر ایک نے مذاکرات کرنے والوں کے پانچ ناموں کو حتمی شکل دے دی ہے
حکومتی مذاکراتی ٹیم میں دو سینئر سول افسران شامل تھے جن کا تنازع والے علاقوں میں خدمات انجام دینے کا خاصہ تجربہ تھا، جب ٹی ٹی پی نے کہا کہ اس نے مذاکرات کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، تو بظاہر لگتا ہے کہ حکومت نے کمیٹی کو نوٹیفائی کرنے میں وقت لگایا
ذرائع نے بتایا کہ جنگ بندی سے قبل اور اس دوران دونوں فریقوں کے درمیان کافی غیر رسمی بات چیت ہوئی تھی اور ایک دوسرے کو یقین دلانے کے لیے اعتماد سازی کے بعض اقدامات پر اتفاق کیا گیا تھا
واضح رہے کہ افغان طالبان پاکستان اور متعدد دھڑوں پر مشتمل کالعدم عسکریت پسند تنظیم کے درمیان اہم ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے پاکستانی حکام کو کئی آپشنز کی پیشکش کی ہے، لیکن وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کو مذاکرات کے ذریعے شامل کیا جائے اور پرامن طریقے سے اپنے ملک واپس آنے پر آمادہ کیا جائے
مقامی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اگست کے وسط میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کے حملوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، جس میں مسلسل کمی دیکھی گئی ہے
خیبرپختونخوا حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے ان حملوں میں مزید 28 فیصد کمی دیکھی گئی
جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں واحد قابلِ ذکر شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر اور ٹی ٹی پی سے وابستہ علیم خان خوشحالی کی جانب سے کیے گئے چوبیس حملے ہیں، خیال رہے کہ حافظ گل بہادر ٹی ٹی پی کا حصہ نہیں اور اس نے جنگ بندی کا علیحدہ معاہدہ کیا تھا
اس ضمن میں ایک خاص اقدام کچھ معمولی جنگجوؤں کی رہائی تھی، حکومت نے شدت پسندی کو ختم کرنے کے مراکز میں قید ایک سو کے قریب عسکریت پسندوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا
اس میں تقریباً بارہ قیدیوں کی پہلی کھیپ کو چھوڑا جاچکا ہے اور توقع ہے کہ دوسری کھیپ کو اگلے چند روز میں رہا کر دیا جائے گا، جس کے بعد آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید رہائیاں عمل میں لائی جائیں گی
ذرائع کا کہنا تھا کہ شدت پسندی چھوڑنے والے عسکریت پسندوں کی اسکریننگ کی گئی ہے اور انہیں ہر دو ہفتے بعد ان کے علاقوں کے پولیس اسٹیشنز میں رپورٹ کرنے کا بھی کہا گیا ہے، جبکہ ان کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھی جائے گی، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ ماضی میں جو کچھ کرتے رہے ہیں، اس پر واپس نہ جائیں
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی سخت گیر عسکریت پسند کو رہا نہیں کیا جائے گا
ذرائع کا کہنا تھا کہ غیر رسمی بات چیت کے دوران دوسری جانب پر واضح کیا گیا ہے کہ کچھ ریڈ لائنز ہیں، جن پر مذاکرات نہیں ہوسکتے، پاکستان ایک آئینی جمہوریت ہے اور انہیں اسے قبول کرنا اور اس کی پاسداری کرنی ہوگی
اس کے علاوہ کوئی گروہ بندی یا دوبارہ گروہ بندی، محفوظ پناہ گاہوں، مسلح دستوں کی نقل و حرکت یا ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی
تاہم ٹی ٹی پی نے اپنی شرائط طے کی ہیں، جن میں شریعت کا نفاذ اور قبائلی علاقوں کو انضمام سے پہلے کی حیثیت میں بحال کرنا شامل ہے
ذرائع نے کہا کہ ’وہ اسے جانتے اور سمجھتے ہیں، قبائلی علاقے اب انضمام شدہ اضلاع ہیں اور وہ جانتے ہیں واپسی کا کوئی راستہ نہیں، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، حالات ان کے چلنے، برقرار رہنے اور بچنے کے لیے سازگار نہیں ہیں.