ایک کلو پینگولین پانچ کروڑ میں فروخت، خریدار کون؟

نیوز ڈیسک

ایبٹ آباد – صوبہ خیبرپختونخوا کے محکمہ وائلڈ لائف نے جمعے کو ایبٹ آباد سے چار افراد کو نایاب جانور ’پینگولین‘ کی کھال کروڑوں روپے میں غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا

واضح رہے کہ نایابی کی کگار پر کھڑے پینگولین کی کھال انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے، جس کی ایک وجہ اس کی کھال کے متعلق پائے جانے والے چند مفروضات بھی ہیں

نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ ابھی تک ایسے طبی شواہد موجود نہیں ہیں کہ پینگولین کی کھال یا دیگر جسمانی اعضا انسانی بیماریوں کا تدارک کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود دنیا کے بعض ممالک جیسے کہ چین، گھانا، ویت نام و دیگر  اس کا ادویات میں استعمال کرتے ہیں

علاوہ ازیں پینگولین کا گوشت کھانے کی ترکیبوں میں جب کہ اس کی کھال فیشن اور ملبوسات میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ بعض ممالک جیسے کہ افریقہ میں پنگولین کو سکھا کر اس کو روحانی عبادات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے

ایبٹ آباد میں جاسوسوں کی مدد سے گرفتار کیے جانے والے ان افراد پر تین لاکھ تیس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے، تاہم محکمے کے مطابق وائلڈ لائف ایکٹ 2015ع میں بعض خامیوں کی وجہ سے ایسے افراد نہ صرف بھاری جرمانوں سے بچ جاتے ہیں، بلکہ ان کی ضمانت بھی فوراً ہوجاتی ہے

باوجود اس حقیقت کے کہ کسی بھی جانور یا پرندے کی غیرقانونی فروخت کے عمل کو روکنے کے لیے محکمہ جنگلی حیات کو ایک انتہائی مشکل، پیچیدہ اور طویل حکمت عملی اختیار کرنی پڑتی ہے

اس حوالے سے چیف کنزرویٹر ڈاکٹر محسن فاروق کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والے چاروں افراد جن کا تعلق ضلع ہری پور اور ضلع مانسہرہ سے تھا، کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ تاہم مستقبل میں متعلقہ افراد کو دوبارہ اس غیرقانونی عمل سے روکنے کے لیے مانسہرہ اور ہری پور کے ذیلی محکموں کو ان پر نظر رکھنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں

وزیر ماحولیات و جنگلی حیات اشتیاق ارمڑ کا کہنا ہے کہ پانچ کروڑ روپے میں ایک کلو کھال کا سودا کرنے والے ماحول کو اربوں کا نقصان پہنچا رہے تھے۔ لیکن ہمارے فرض شناس افسران اور اہلکار دھرتی ماں کو بیچنے والے ان عناصر کا مسلسل راستہ روکے ہوئے ہیں

ضلع ایبٹ آباد ڈیویژنل فارسٹ آفیسر (ڈی ایف او) محمد ادریس نے جمعہ کی شام ہونے والی کارروائی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پولیس کی مدد سے اسمگلرز کے قبضے سے کُل ایک کلو تین سو پچاس گرام کھال ضبط کی ہے۔ جس کو ان کا محکمہ فی الحال ٹرافی کے طور پر اپنے میوزیم میں رکھے گا اور بعدازاں اس کی نیلامی کرکے رقم کو ادارے کے لیے محفوظ کر دیا جائے گا

ڈیویژنل فارسٹ آفیسر محمد ادریس کے مطابق ان کا ادارہ کئی اہم کاموں کے لیے اپنے جاسوسوں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ جاسوس ایسے بروکرز، اسمگلروں اور ویب سائٹس پر کڑی نظر رکھتے ہیں جو غیر قانونی طور پر جنگلی حیات کے خرید و فروخت میں ملوث ہوتے ہیں

انہوں نے بتایا کہ جب محکمہ وائلڈ لائف کو اطلاع ملی کہ ضلع ہری پور میں چند افراد پینگولین کے کھال کا سودا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں گرفتار کرنے کے لیے ضروری تھا کہ جاسوسوں کے ذریعے ان کے ساتھ سودا کیا جائے

محمد ادریس کے مطابق ان سمگلرز نے ایک کلوگرام کی قیمت پانچ کروڑ لگائی تھی۔ تاہم یہ افراد سودا کرتے وقت اس قدر محتاط تھے کہ ہمیں ایک طویل صبر آزما اور کھٹن مرحلےسے گزرنا پڑا

انہوں نے بتایا کہ ان افراد کا ٹھکانہ معلوم کرنے کے لیے محکمے نے لاہور، گوجرانوالہ، مظفرآباد اور ایبٹ آباد سے جاسوسوں کو ذمہ داری سونپی تھی۔ تاکہ اسمگلرز کو شک کا موقع نہ ملے۔ یہ اسمگلرز انتہائی چوکس اور چالاک تھے۔ ہم نے انہیں یقین دلانے کے لیے ایبٹ اباد کے ایک ہوٹل میں ایک جعلی انگریزی نام سے بکنگ بھی کی، جس کی اسمگلرز نے جاکر تصدیق کی

محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے مطابق، پاکستان میں پینگولین کی نسل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے اور یہ پاکستان کے صرف چند ایک علاقوں میں پائی جاتی ہے، جن میں ہری پور، بونیر، خان پور، راولپنڈی، اور جہلم شامل ہیں

نیشنل جیوگرافک کے مطابق پینگولین دنیا میں سب سے زیادہ اسمگل ہونے والا جانور ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں بیش بہا قیمت پر فروخت ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں پنگولین مار دیے جاتے ہیں

واضح رہے کہ چیونٹیاں کھانے والے جانور پنگولین کو ’چیونٹی خور‘ بھی کہا جاتا ہے

وائلڈ لائف ایکٹ 2015 کی بعض شقوں پر خود محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے تنقید یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ قانون اس محکمے کےحقیقی مسائل کو حل کرنے میں پوری طرح کارآمد اور معاون ثابت نہیں ہورہا ہے

محکمے کے ضلعی دفاتر کی جانب سے اس میں ترامیم کی نشاندہی کے باوجود ’ریڈ ٹیپ ازم‘ کی شکار یہ فائلیں کئی سالوں سے صوبائی اسمبلی تک نہیں پہنچ سکیں

ڈی ایف او ایبٹ آباد محمد ادریس کے مطابق محکمہ وائلڈ لائف میں کام کرنے والوں کی اکثریت کم تنخواہوں پر دن رات چوکس ڈیوٹی سرانجام دیتی ہے

ان کا کہنا تھا کہ شکاریوں اور اسمگلرز کے اکثر اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود ہمارے اہلکار اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر انہیں روکتے ہیں۔ اثر رسوخ رکھنے والے افراد کی جانب سے ان ملازمین کو اکثر ملازمت سے نکالنے اور ان کی ٹرانسفر کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ لیکن دوسری جانب ایسے افراد کے حوالے سے قانون کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ فوراً بہت کم پیسوں کے عوض چھوٹ جاتے ہیں

محمد ادریس نے بتایا کہ وائلڈ لائف ایکٹ 2015 کے مطابق، جنگلی حیات کی غیر قانونی خرید و فروخت ایک قابل ضمانت جرم ہے، جس کا جرمانہ زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک ہے۔ نئی تجویز کردہ ترامیم کے مطابق، جرمانے کی حد ایک لاکھ سے بڑھاکر بعض شقوں کو ناقابل ضمانت قرار دینے کے ساتھ جیل کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close