کراچی – کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کو بتایا گیا ہے کہ اس وقت کے ایس ایس پی راؤ انوار اس مقام پر موجود تھے، جہاں نوجوان نقیب اللہ محسود اور دیگر تین نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا
یہ بات مقدمے کے دوسرے تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے استغاثہ کے گواہ کے طور پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے سامنے اپنے بیان میں کہی
واضح رہے کہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کے تقریباً چوبیس ماتحت اہلکاروں پر 13 جنوری 2018ع کو نقیب، صابر، نذرجان اور اسحٰق کو ’طالبان جنگجو‘ قرار دے کر جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کا الزام ہے
عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے فون کے کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) اور جیو فینسنگ سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ 13 جنوری 2018 کو رات 2 بج کر 41 منٹ سے صبح 5 بج کر 18 منٹ تک جائے وقوع پر موجود تھے
اس سے قبل 4، 5، 8 اور 9 جنوری کو بھی نیو سبزی منڈی پولیس چوکی کے ارد گرد بھی ان کی موجودگی کا انکشاف ہوا
تفتیشی افسر کے مطابق نقیب اور دیگر افراد کو اس پولیس چوکی میں غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا
تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ سی ڈی آر اور جیو فینسنگ سے واقعے سے ایک روز قبل جائے وقوع پر شکیل فیروز، اظہر اور امان اللہ مروت نامی پولیس افسران کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا
انہوں نے کہا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 161 کے تحت گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جن کی روشنی میں پولیس اہلکار ان پر عائد الزامات میں ملوث پائے گئے
بیان ریکارڈ کروانے کے بعد جج نے دفاع کی جانب سے ایس ایس پی رضوان احمد سے جرح کے لیے مقدمے کی سماعت 3 جنوری 2022 کو طے کردی
استغاثہ کے مطابق مقدمے میں شامل پولیس اہلکاروں نے نقیب اور دیگر افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا اور بعد میں انہیں دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ستائیس سالہ نقیب اللہ کے قتل پر سول سوسائٹی نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا اور اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ان ہلاکتوں کا ازخود نوٹس لیا تھا
راؤ انوار کی جانب سے ہلاک شدگان کے دہشت گرد ہونے کے دعوے کے برعکس، عدالت نے نقیب اور دیگر افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا
مارچ 2019ع میں انسداد دہشت گردی عدالت نے راؤ انوار اور دیگر پولیس اہلکاروں پر چار افراد کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے اور ان سے اسلحے اور دھماکا خیز مواد کی جعلی برآمدگی پر فرد جرم عائد کی تھی
اس کے علاوہ امان اللہ مروت، شیخ محمد شعیب، گدا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، رانا شمیم اور ریاض نامی پولیس اہلکاروں کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں.