صوابی: سوا کروڑ لوٹنے والا ملزم کے چھ گھنٹے میں پکڑے جانے کی کہانی

ویب ڈیسک

جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ضلع صوابی میں ایک بینک میں ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی ڈکیتی ہوئی، جس میں ڈاکو سکیورٹی گارڈ کو قتل کر کے بینک کے سینسرز، کیمرے اور بینک کے خفیہ آلات کو بھی ناکارہ بنا گیا، اس کے باوجود وہ چھ گھنٹے کے اندر اندر پکڑا گیا

ملزم کو پکڑنے کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار کے حوالے سے ڈی پی او نجم الحسنین نے بتایا ”جب پولیس کو واقعے کی اطلاع ملی تو سب سے پہلے شبہ یہ تھا کہ سکیورٹی گارڈ کا کسی کے ساتھ آپس کا معاملہ ہوگا، کیونکہ نہ تو قفل توڑے گئے تھے اور نہ ہی ابتدا میں کوئی ظاہری نشانی تھی“

انہوں نے بتایا ”بینک ڈکیتی کرنا کسی عام شخص کا کام نہیں۔ وہاں کافی سینسرز، خفیہ آلات اور کیمرے نصب ہوتے ہیں، جس میں کسی قسم کی معمولی رد و بدل یا حرکت کی صورت میں بینک کے ذمہ داران کو فوری الرٹ کا پیغام چلا جاتا ہے“

ڈی پی او کے مطابق: حیران کن طور پر نہ تو مینیجر اور نہ کیشیئر کے پاس کسی قسم کا الرٹ پیغام گیا، اور رقم نکالتے وقت خفیہ آلات جس کوڈ کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ بھی انہیں موصول نہیں ہوا، تو پھر ملزم کون ہو سکتا ہے، اور آخر وہ کیسے اس قدر آسانی سے نہ صرف بینک کے اندر گھس گیا بلکہ بغیر کوئی قفل توڑے ایک کروڑ بارہ لاکھ کی رقم بھی لوٹ کر باآسانی فرار ہو گیا؟

ڈی پی او نے بتایا کہ انہوں نے دوران تفتیش کیشیئر اور مینیجر پر بھی کڑی نظر رکھی، اور متعلقہ بینک کے سابقہ اور موجودہ تمام ملازمین اور ادارے کی تفصیلات بھی حاصل کر لیں

انہوں نے بتایا ’مقتول چونکہ اسی بینک کے اندر رات گزارتا تھا، لہٰذا بینک چھٹی کے بعد وہ دروازے اندر سے بند کر لیتا تھا۔ اس لیے دروازہ اسی صورت کھل سکتا ہے، جب باہر سے کوئی شخص جان پہچان والا ہو۔ مقتول کی جائے سکونت سے ایک چائے کی پتیلی اور اس میں رکھے پانی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ چائے بنانے لگا تھا‘

ڈی پی او کے مطابق پولیس تحقیقات کے دائرے میں مقتول سکیورٹی گارڈ کی بیوی کو بھی شامل کر لیا گیا، جنہوں نے پولیس کو بتایا کہ شام چھ بجے ان کی اپنے شوہر سے بات ہوئی تھی، جنہوں نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا تھا کہ کوئی جاننے والا آ گیا ہے

’اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ پانچ بجے جب بینک بند ہوا تو اس کے ایک گھنٹے بعد کوئی آیا تھا۔‘ ڈی پی او کے مطابق انہوں نے بینک کی حدود میں چھ بجے کے لگ بھگ آنے والے موبائل فونز کا ڈیٹا اکٹھا کیا تو معلوم ہوا کہ اس دوران جو شخص بینک کی حدود میں آیا تھا وہ کوئی نہیں بلکہ بینک کا سکیورٹی سپروائزر تھا

نجم الحسنین لیاقت نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم کا براہ راست تعلق بینک کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ وہ مختلف بینکوں کو سکیورٹی گارڈز دینے والی کمپنی میں بطور سپروائزر کام کرتا تھا، اور جس کا اس بینک آنا جانا تھا، اور اسی لیے بینک کے ملازمین کے ساتھ اس کی جان پہچان بھی تھی

تقریباً پانچ سال قبل اسی بینک کے ایک مینیجر نے عارضی رخصت لیتے وقت سیف کی چابیاں ملزم مخدوم کے حوالے کی تھیں، جس نے ڈپلیکیٹ چابیاں بنا لی تھیں۔ چونکہ وہ سکیورٹی سپروائزر تھا، لہٰذا اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واردات کی، اور بالآخر پکڑا گیا

متاثرہ بینک کے موجودہ مینیجر اختر اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کیمروں کا ریکارڈ رکھنے والی مشین (ڈی وی آر) کو ملزم اپنے ساتھ لے گیا تھا، جو کہ پولیس نے تمام رقم سمیت برآمد کر لی ہے اور کافی جدوجہد کے بعد ریکارڈنگ بھی نکال لی ہے

اختر اللہ نے بتایا کہ افسوسناک واقعے کے بعد آج ان کے بینک کے تمام آلات اور سینسرز کا ازسر نو جائزہ لیا جا رہا ہے اور نئے بہترین آلات نصب کیے جا رہے ہیں، تاکہ آئندہ کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ دوبارہ پیش نہ آ سکے، جب کہ ملزم جن دوسرے شاخوں میں آتا جاتا رہا ہے اور وہاں اپنے سکیورٹی گارڈز فراہم کیے ہیں، وہاں کی اسکروٹنی ہوگی

پولیس نے بتایا کہ انہوں نے ملزم کو چھ گھنٹوں کے اندر پکڑ لیا اور اس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 396 کے تحت مقدمہ درج کر دیا گیا ہے

ضلعی پولیس افسر ( ڈی پی او) نجم الحسنین کے مطابق 302 سے زیادہ خطرناک دفعہ ہے، جس کی سزا موت ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’دفعہ 302 صرف قتل عمد سے متعلق ہے، جبکہ دفعہ 396 ڈکیتی اور قتل ایک ساتھ دو جرم کرنے کے نتیجے میں لاگو ہوتی ہے۔‘

ڈی پی او کا مزید کہنا ہے کہ عدالت کو تمام ثبوت بھی فراہم کر دیے گئے ہیں، جس کے بعد ملزم کا سزا سے بچنا ناممکن ہوگا

تھانہ زیدہ پولیس حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پچاس سالہ ملزم کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ زیدہ پولیس سٹیشن کے مطابق، ملزم اور مقتول دونوں کا تعلق صوابی کے ایک ہی علاقے پنج پیر سے ہے

واضح رہے کہ اس سے قبل دسمبر 2022ع میں بھی صوابی کے گاؤں چھوٹا لاہور کے ایک شہری ایک کروڑ بیاسی لاکھ روپے بینک لے کر جا رہا تھا کہ مسلح نامعلوم ملزمان نے ان کی آنکھوں میں سرخ مرچ ڈال کر رقم چھین لی تھی

متذکرہ واقعے میں بھی پولیس نے تکنیکی بنیادوں پر تفتیش کرتے ہوئے چوبیس گھنٹے کے اندر رقم برآمد کر کے ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close