بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں گزشتہ ماہ سے جاری دھرنا بلوچستان حکومت کے ساتھ مزاکرات اور تحریری معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا ہے ـ اس دھرنے کے قائد جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دھرنے کو کامیاب قرار دیا اور امید ظاہر کی تحریری معاہدے پر جلد عمل کیا جائے گا ـ ہم ذیل میں اس دھرنے مطالبات پر ایک نظر ڈالنے کے بعد بلوچستان کے سیاسی پس منظر میں گوادر تحریک کا جائزہ پیش کریں گے.
دھرنے کے مطالبات
1- غیرقانونی ٹرالرز پر پابندی لگائی جائے
2- ماہی گیروں کو آزادی کے ساتھ سمندر میں جانے دیا جائے
3- گوادر، مکران کوسٹل ہائی وے اور دیگر شاہراؤں پر غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا جائے
4- گوادر میں موجود تمام شراب خانے بند کئے جائیں
5- ایران سرحد سے تجارت میں ایف سی اور کوسٹ گارڈ کی مداخلت بندکی جائے
6- گوادر میں یونیورسٹی کا قائم کی جائے
7- محکمہ تعلیم کے غیر تدریسی عملے کی خالی اسامیوں پر تعیناتی کی جائے
8- جعلی ادویات کی روک تھام کی جائے
9- گوادر کو آفت زدہ قرار دے کر یوٹیلٹی بلز کے بقایا جات معاف اور خصوصی سبسڈی دی جائے
10- کوسٹ گارڈ کی طرف سے پکڑی گئیں گاڑیاں اور کشتیاں واپس کی جائیں
11- گوادر کے تمام علاقوں کو پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے
12- گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبوں میں ملازمتوں پر مقامی افراد کو ترجیح دی جائے
13- دربیلہ متاثرین کے ساتھ معاہدے پر ضلعی انتظامیہ عمل کرے
14- ایکسپریس وے متاثرین کو فوری معاوضہ ادا کیا جائے
15- حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن اور دیگر شرکا پر درج مقدمات واپس اور فورتھ شیڈول سے نام خارج کردیا جائے
16- سمندری طوفان کے متاثرین اور ٹرالرز کے ہاتھوں ماہی گیروں کے جال وغیرہ کے نقصانات کا فوری ازالہ کیا جائے
17- جی ڈی اے کے ڈی جی، ڈپٹی کمشنر گوادر اور اسسٹنٹ کمشنر پسنی کو فی الفور تبدیل کیا جائے
18- وفاقی او صوبائی محکموں میں معذور افراد کے کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے
19- اشیائے خورنوش اور تیل کی ترسیل کے لیے کلکی پوائنٹ کھول دیا جائے
سیاسی پسِ منظر
1- آزادی پسند تحریک
نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچ قومی تحریک میں ایک زبردست ابھار آیا ـ سماج میں تبدیلی کا عمل یکلخت تیز ہوگیا ـ قدیم سیاسی روایات کی جگہ جدید روایتوں نے لی اور نوجوان سیاسی قیادت نے تحریک کی باگ ڈور سنبھال لی
سماج میں مسلح بلوچ قوم پرست تنظیموں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگیا ـ تقریباً تمام آزادی پسند سیاسی تنظیموں پر مسلح قیادت کا کنٹرول بڑھ گیا ـ خارجی تضادات کی شدت کے باعث عوام میں ایک جوش و خروش کا سماں تھا ـ جوش اور جذبات کی فضا نے امیدوں کو آسمان پر پہنچا دیا ـ چند سالوں بعد اندرونی و خارجی عوامل کے باعث اس ابھار کی شدت کم ہونے لگی ـ شدت کم ہوتے ہی ردانقلابی قوتوں یعنی پاکستانی فوج، مفاد پرست سردار، ڈرگ مافیا وغیرہ نے متحد ہوکر سر اٹھایا
رد انقلابی قوتوں نے بڑی بے رحمی کے ساتھ عمل کیا ـ اپریل 2009 کو غیر پارلیمانی بلوچ قوم پرست سیاست ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہوگئی ـ بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی سربراہ غلام محمد بلوچ اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ تربت کے احاطہِ عدالت سے جبراً لاپتہ کئے گئے اور چند دنوں بعد مُرگاپ کے مقام پر تینوں رہنماؤں کی انتہائی مسخ شدہ لاشیں ملیں ـ اس سانحے نے آزادی پسند قوم پرست سیاست پر دور رس اثرات مرتب کئے ـ قیادت کا خلا پیدا ہوا ـ بلوچ نیشنل موومنٹ انتشار کا شکار ہوگئی ـ اس کے بعد جبری گمشدگی اور مسخ لاشوں کی برآمدگی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا
جبری گمشدگی اور مسخ لاشوں نے دہشت کو بڑھاوا دیا ـ سیاسی کارکنوں و لکھاریوں کی ایک بڑی تعداد نے ہجرت کی راہ اپنائی
دہشت کے منڈلاتے سایوں نے بلوچ مزاحمتی سیاست کو منجمد کردیا ـ سماج کا تقریباً ہر شعبہ جمود کا شکار ہوگیا ـ جوش و خروش کی جگہ ناامیدی نے ڈیرے ڈال دیے ـ دانش وروں نے بلوچ قومی تحریک کو ناکام قرار دیا
ناامیدی اور مایوسی کی اس فضا میں ایک دوسری افتاد آن پڑی ـ بلوچ تحریک اندرونی تضادات کے باعث تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتی چلی گئی ـ سردار خانوادوں سے تعلق رکھنے والے اور متوسط طبقے سے متعلق نوجوان قیادت کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی ـ بلوچ سیاست کا میدان بنا سوشل میڈیا ـ سوشل میڈیا چوں کہ ایک نیا میڈیم تھا اس لئے اوائل میں اس کا مثبت استعمال نظر نہیں آیا ـ آزادی پسند تنظیمیں اپنے اندرونی سطحی اختلافات کو فیس بک اور ٹوئٹر پر حل کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے
2- پاکستان نواز قوم پرست
2013 کے انتخابات کے بعد ڈاکٹر مالک بلوچ کی بننے والی مفاہمتی "قوم پرست” حکومت اپنی نااہلی اور ہوش ربا کرپشن کے باعث سماج میں اپنی مقبولیت کھونے لگی ـ نیشنل پارٹی کی مفاہمتی سیاست کو موقع پرستی اور نظریاتی انحراف سے تعبیر کیا گیا ـ عوام کے روز مرہ اور فوری مسائل کا حل آزادی پسندوں کے پاس نہیں تھا جبکہ پارلیمانی قوم پرست بالخصوص نیشنل پارٹی پاکستانی سیاست کے کیچڑ میں دھنس کر غیر مقبول ہوچکی تھی ـ اخراجِ جذبات کے لئے بھی عوام کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا ـ وہ پارلیمانی نظام سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے تھے ـ غیرپارلیمانی سیاست کی دعوی دار جماعتیں بھی اپنے اندرونی تضادات میں الجھ کر عوامی حمایت سے بڑی حد محروم ہوچکی تھیں ـ مسلح تنظیموں کے بے سمت تشدد نے ان کا احترام بھی کم کردیا تھا ـ سماج ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہوچکا تھا
ایسے میں سردار اختر مینگل نے نسبتاً ریڈیکل موقف اپنا کر قوم پرست سیاست میں ارتعاش پیدا کرنا شروع کردیا ـ بلوچستان نیشنل پارٹی بڑی حد تک ان افراد کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جو کسی نہ کسی حد تک موجودہ نظام سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے
بلوچستان میں پاکستانی فوج کا مضبوط کنٹرول ہے ـ وہ معمولی سی سیاسی حرکت کے خلاف بھی پرتشدد ردعمل دیتی ہے ـ فوج نے عوام کے خلاف مسلح ڈیتھ اسکواڈ بنا رکھے ہیں ـ جہاں سرداری نظام مضبوط ہے وہاں سرداروں کے ذاتی مفادات کے تحفظ کو بنیاد بنا کر ان کے مسلح جتھوں کو طاقت فراہم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے ـ 2018 کے عام انتخابات سے قبل رد انقلابی قوتیں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں مجتمع ہوگئیں ـ فراڈ انتخابات کے ذریعے باپ کو بلوچستان کا انتظام سونپ دیا گیا ـ نیشنل پارٹی اور ڈاکٹر مالک بلوچ تقریباً غیر متعلق ہوچکے تھے ـ دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی بھی اس سسٹم کو شکست دینے میں ناکام رہی ـ نتیجہ یہ کہ انقلابی قیادت اور درست سیاسی سمت کے بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ـ
3- دوسرا ابھار
مئی 2020 کو کیچ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ڈنک میں ڈکیتی کی واردات ہوئی ـ خاتونِ خانہ ملک ناز بلوچ مزاحمت کے دوران قتل اور ان کی معصوم بیٹی برمش زخمی ہوگئی ـ ڈاکوؤں کا تعلق فوج کے بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ سے تھا ـ اس سانحے نے عوامی جذبات کو باہر نکلنے کا موقع فراہم کیا ـ نئی نسل کے نوجوانوں نے ناامیدی اور مایوسی کے بادلوں کو چیر کر نئی صبح کا پیغام دیا ـ نوجوان خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد نے سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیا ـ یہ بعد از نواب اکبر خان بگٹی دوسرا زبردست انقلابی ابھار ثابت ہوا ـ البتہ یہ ابھار ماضی کی نسبت مختلف تھا ـ اس نوعی تبدیلی پر آگے بحث کرنے کی کوشش کریں گے
سانحہِ ڈنک کے بعد بلوچستان بھر میں فوجی جبر و دہشت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ـ معصوم برمش ان احتجاجی مظاہروں میں فوج اور اس کی پراکسی تنظیموں و سرداروں کے خلاف مزاحمت و نفرت کی علامت بن گئی
تبدیلی کی اس نئی لہر نے سماج کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ـ خوف و دہشت کے بادل چھٹتے گئے ـ برمش تحریک میں شامل نئی نسل نے پرانی تنظیموں اور شخصیات (آزادی پسند و پاکستان نواز دونوں) کو کاملاً مسترد کردیا ـ اس استرداد سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نئی نسل پرانی تنظیموں اور شخصیات کی بے سمتی اور بچگانہ رویوں کا ادراک رکھتے ہیں ـ یہ بلاشبہ بلوچ قومی شعور کے مثبت ارتقا کی دلیل ہے ـ انہوں نے سابقہ مرکزیت پسند پالیسی سے انحراف کرکے علاقائی سطح پر سماج کی نچلی پرتوں پر مبنی نیٹ ورک بنانے کو ترجیح دی تاکہ فوج اور اس کی پراکسیز کو الجھایا جاسکے ـ اس نیٹ ورک کو بنانے اور پھیلانے میں بلاشبہ نئی نسل کی خواتین کا اہم کردار رہا ـ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئر پرسن بانک کریمہ بلوچ نوخیز خواتین کی آئیڈیل بن گئی
برمش احتجاج کے بعد بھی مختلف واقعات کے خلاف بلوچستان اور کراچی کے بلوچ علاقوں میں بڑے بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے ـ ان واقعات میں اہم ترین کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کا تربت میں فوج کے ہاتھوں قتل اور کینیڈا میں جلاوطن بلوچ رہنما بانک کریمہ بلوچ کی پراسرار شہادت ہے ـ برمش احتجاج چوں کہ نئے انقلابی ابھار کا اہم ترین محرک ہے اس لئے دیگر مظاہرے اسی حرکت کا نتیجہ ہیں ـ
گوادر تحریک
برمش احتجاج نے سماج میں بیداری کی جو نئی لہر پیدا کی اس کا آخری مظہر گوادر میں دیکھنے کو ملا ـ گوادر کو عرصہِ دراز سے پاکستانی حکام مستقبل کے دبئی اور سنگاپور کی صورت پیش کرتے رہے ہیں ـ فوج کے مضبوط کنٹرول کے باعث گوادر کے عوام اس جھوٹے پروپیگنڈے پر پیچ و تاب تو کھاتے رہے لیکن عملی طور پر اپنے مسائل و مشکلات پر خاموش رہے ـ برمش تحریک نے گوادر میں بھی ایک نئی روح پھونک دی ـ پہلے چھوٹے چھوٹے عوامی مظاہرے ہوتے رہے ـ عوامی سطح پر بحث مباحثوں کا سلسلہ شروع ہوا ـ خواتین کی شمولیت بڑھتی گئی ـ پھر ایک دن مقامی محنت کش مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں وسیع احتجاجی تحریک شروع ہوگئی
گوادر تحریک نوعی لحاظ سے مختلف تھی ـ جہاں برمش احتجاج کے بعد گراس روٹ لیول پر نیٹ ورک بنانے کو ترجیح دی گئی اور مرکزیت پسندی سے انحراف کیا گیا وہاں گوادر میں تحریک کا ایک چہرہ نظر آیا ـ یہ چہرہ ایک رجعت پسند پاکستانی پارٹی جماعتِ اسلامی کے مرکزی سیکریٹری جنرل کا تھا ـ ماہی گیر طبقے سے تعلق رکھنے والے ہدایت الرحمن نے البتہ جماعتی رجعت پسندی کے برخلاف ریڈیکل موقف اپنایا ـ انہوں نے عوام کے معاشی و شہری مسائل کو اولیت دی اور ان کے حل کو اس تحریک کا اہم ترین مقصد بنایا
پرانی قوم پرست تنظیموں اور شخصیات سے مایوس، پاکستانی نظام سے نفرت میں لپٹے عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت مولانا ہدایت الرحمان کے ریڈیکل موقف کے گرد مجتمع ہوتی چلی گئی ـ اس کی توقع پاکستانی فوج سمیت یقیناً خود مولانا کو بھی نہیں تھی ـ پارلیمانی قوم پرست بھی اس نئی صورت حال سے گھبرا گئے
فوج نے اپنی پراکسی باپ پارٹی کے ذریعے اس تحریک کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر مولانا نے عوامی حمایت کے بل پر یہ کوشـش ناکام بنا دی ـ اس کے بعد فوج کے اہم ترین اتحادی جماعت اسلامی کو میدان میں اتارا گیا ـ پاکستانی میڈیا نے اس احتجاج کو جماعت اسلامی کی تحریک قرار دیا ـ خود جماعت اسلامی نے بھی ایسا تاثر دینے کی ہرممکن کوشش کی ـ دوسری جانب سینئر ترقی پسند بلوچ سیاست دان یوسف مستی خان کی جوشیلی تقریر اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے جلاوطن رہنماؤں و کارکنوں کی پرزور حمایت نے مولانا کے دھرنے کو آزادی پسندوں کا عوامی مورچہ بنا دیا
غیرمتوقع عوامی ردعمل اور مظاہرین کی جانب سے پاکستان مخالف نعرے بازی نے احتجاج کی نوعیت بدل کر رکھ دی ـ پاکستانی فوج چوں کہ ہتھوڑا پالیسی پر عمل کرتی آرہی ہے اس لئے اسے ہر مسئلہ کیل ہی نظر آتا ہے ـ یہاں بھی پہلے طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ـ تاہم بعد میں ڈپلومیسی کی ضرورت محسوس کی گئی
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈپلومیسی کی ضرورت امریکی کانگریس میں پیش ہونے والے مجوزہ قرار داد کے پسِ منظر میں پیش آئی ـ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو امریکہ نے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لئے دباؤ بڑھانا شروع کردیا ہے ـ ایسے میں گوادر جیسے عالمی سطح پر مشہور شہر میں کسی پرامن عوامی اجتماع کے خلاف طاقت کا استعمال مزید مسائل پیدا کرسکتا تھا ـ اس تناظر میں مولانا کو دیگر طریقوں سے رام کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا
مولانا خود بھی بڑھتے ہوئے عوامی مطالبات جن میں سرِفہرست جبری گمشدگان کی واپسی تھی سے گھبرا گئے تھے ـ انہوں نے عوامی نفرت کا رخ قوم پرستوں کی جانب بڑھانے کی کوشش بھی کی جو ناکام رہی ـ پاکستان نواز اور آزادی پسند دونوں قوم پرست دھڑوں کے ایک حصے نے مولانا کی اس حکمت عملی کو خود پر حملہ تصور کیا ـ انہوں نے مولانا کو متنازع بنانے کی کوشش شروع کردی
دوسری جانب مولانا بھانپ چکے تھے کہ اگر دھرنے کو مزید طول دیا گیا تو وہ اور ان کی جماعت داؤ پر لگ جائیں گے ـ اگر درمیان میں دھرنے کو کسی نتیجے کے بغیر ختم کیا گیا تب بھی مولانا کی سیاسی موت یقینی ہے ـ مسلسل گفت و شنید کے بعد مولانا کو واپسی کا محفوظ راستہ اور مستقبل میں فعال سیاسی کردار دینے پر اتفاق کیا گیا ـ
حرفِ آخر
پاکستان کے نوآبادیاتی نظام کے خلاف بلوچ عوام کی ایک طویل جدوجہد رہی ہے ـ یہ جدوجہد ناکامیوں و کامیابیوں سے عبارت ہے ـ تاریخ کا تجزیہ بتاتا ہے ہر آنے والی نسل نے پرانی نسل کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر جدوجہد کی نوعیت میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں ـ موجودہ نوجوان نسل بھی ماضی قریب کی نسل کی روایت سے انحراف کرتی نظر آرہی ہے ـ اس نسل نے ماضی کی سیاسی تنظیموں کے ساخت اور مرکزیت پر مبنی نظام کو خیرباد کہہ دیا ہے ـ بظاہر یہ سیاسی عمل انتشار کا شکار نظر آتی ہے لیکن یہ محض نظر کا دھوکہ ہے ـ گراس روٹ لیول پر مبنی نیٹ ورک ہی وہ وجہ ہے جس نے گوادر کی تحریک کو توانائی فراہم کی اور تمام روایتی اندازے و تجزیے غلط ثابت کئے
مولانا ہدایت الرحمٰن نے اپنی توجہ کا محور گوادر کے معاشی و شہری مسائل کو بنایا اور خود کو اسی تک محدود رکھنے کی کوشش کی مگر عوام نے شہری حقوق کے حصول کی تحریک کو قومی معاملات کے ساتھ ہم آہنگ کردیا ـ رفتہ رفتہ معاملات مولانا کے ہاتھ سے نکلتے گئے ـ مولانا نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ ریاست مخالف بیانیے سے دامن بچا کر تحریک کو سول رائٹس تک محدود رکھیں مگر وہ ناکام رہے
مولانا کوئی انقلابی رہنما نہیں ہیں ـ ان کی تربیت جماعتِ اسلامی کے رجعتی ماحول میں ہوئی ہے ـ وہ بلوچستان کے معروضی حالات کی پیداوار ہیں جس نے ان کو ایک ریڈیکل موقف اپنانے اور اس کے گرد تحریک منظم کرنے کا راستہ سجھایا ـ ایک مقام پر آکر وہ اس شخص کی مانند پھنس گئے جو دریا میں ڈوبتے شخص کو بچانے کے لئے دریا میں چھلانگ لگانے کے بعد پوچھتا نظر آتا ہے "مجھے دھکا کس نے دیا”
محنت کش طبقے سے تعلق اور ریڈیکل موقف کی وجہ سے انہیں جو سیاسی طاقت ملی وہ پارلیمانی قوم پرستوں کے لئے بھی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے ـ بالخصوص بلوچستان نیشنل پارٹی بجا طور پر ان سے خطرہ محسوس کر رہی ہے
مولانا ہدایت الرحمٰن سے غلام محمد بلوچ یا مولوی عبدالحق بلوچ بننے کی توقع رکھنا عبث ہے ـ وہ بلوچ قومی سیاست کا بھاری پتھر اٹھانے کی نہ صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی خواہش ـ وہ عوامی مطالبات و ردعمل سے بوکھلا گئے تھے اس لئے ناچار انہیں اصلی حکمرانوں کی شرائط پر ڈھیلا ڈھالا معاہدہ کرکے دھرنا ختم کرنا پڑا
دھرنے کے اختتام پر وزیراعلی بلوچستان کی جانب سے پیسوں کی تقسیم پر کافی تنقید ہوئی لیکن اس ویڈیو کی اہم ترین بات پیسوں کی تقسیم تو تھی ہی نہیں ـ اہم ترین نکتہ ایک نوجوان کا بلوچستان یونیورسٹی کے طلبا کی جبری گمشدگی کے حوالے سے بار بار سوال اٹھانا تھا جسے وزیراعلی بلوچستان انتہائی ڈھٹائی سے نظر انداز کرتے رہے ـ دوسری جانب مولانا محض مسکرانے پر اکتفا کرتے رہے ـ یہ وہ سوال ہے جو گراس روٹ لیول پر مبنی نیٹ ورک کی جانب سے ہر جگہ اٹھایا جاتا رہے گا ـ اس سوال کا نہ کوئی مرکز ہے، نہ چہرہ اور نہ ہی کوئی تنظیمی ڈھانچہ ـ یہ بلوچ قومی تحریک کی جدید شکل ہے ـ منتشر لیکن متحد
امکان ہے پارلیمانی سطح پر مولانا اس معاہدے پر عملدرآمد کے مطالبے کے گرد اپنی سیاست جاری رکھیں ـ عین ممکن ہے وہ اس کے بل پر آئندہ انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو ہرانے میں بھی کامیاب ہوجائیں ـ بہرکیف اس سے بلوچ قومی سیاست پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ـ جہاں باپ کا کہدہ بابر گوادر کی نمائندگی کرنے کے باوجود ناکام رہے وہاں ماہی گیر طبقے سے تعلق رکھنے والے مولانا ہدایت الرحمن سے کوئی خطرہ محسوس ہی نہیں کرنا چاہیے ـ آخری تجزیے میں مولانا اپنے طبقے کے ہی وفادار ہیں اور امید ہے رہیں گے.