اتراکھنڈ – بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعتوں کے تین روزہ اجتماع میں نفرت انگیز تقاریر کے دوران ملک میں اقلیتوں کے خاتمے ، خصوصاً بیس کروڑ آبادی کی حامل مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا گیا ہے
انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں ہندو انتہا پسندوں کی ایک مذہبی تقریب ’دھرم سنسد‘ میں ہونے والی تقریروں کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان ویڈیوز میں تقریب کے شرکاء اقلیتوں کے خلاف انتہائی نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں
بھارتی میڈیا کی کئی رپورٹس میں انتہاپسند جماعتوں کے رہنماؤں کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ ملک میں نفرت انگیز تقاریر کا ایک اور سلسلہ حالیہ اجتماع میں دیکھا گیا
سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا کے سیکریٹری جنرل سادھوی اناپرنا نے نسل کشی کے لیے اسلحے اور اکسانے کا مطالبہ کیا۔ وائر نے ان کی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ”اسلحے کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے، اگر آپ ان کی آبادی ختم کرنا چاہتے ہیں، تو پھر انہیں مار دیں، قتل کرنے کے لیے تیار ہیں اور جیل جانے کو بھی تیار ہیں، پھر ہم فاتح ہوں گے اور جیل جائیں گے“
رپورٹ کے مطابق مذہبی رہنما سوامی آنندسواروپ نے گلیوں میں اشیا فروخت کرنے والے مسلمانوں کو نشانے بنانے کی مثال بھی دی اور کہا کہ ”جس گلی میں ہم رہتے ہیں، ہر صبح مجھے بڑی داڑھی کے ساتھ ایک ملا نظر آتا تھا اور آج کل انہوں نے داڑھی پر رنگ چڑھایا ہوا ہے، یہ ہریدوار مہاراج ہے جہاں کوئی مسلمان خریدار نہیں ہے، تو انہیں اٹھا کر پھینک دو“
وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ حکمرانں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ایشوینی اپادھیے اور بی جے پی ماہیلا مورچا کی رہنما ادیتا تیاگی نے تین روزہ اجتماع میں شرکت کی اور حکمران جماعت کی جانب سے اس اجتماع کو سیاسی طور پر جواز دے دیا
تاہم اپادھیے نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تین روزہ ایونٹ تھا اور میں وہاں ایک دن کے لیے موجود تھا اور اس دوران بمشکل تیس منٹ تک اسٹیج میں رہا تھا اور آئین کے بارے میں بات کی تھی، مجھ سے پہلے اور بعد میں لوگوں نے کیا باتیں کیں، اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں
دی کوئنٹ نے رپورٹ میں بتایا کہ ‘نفرت انگیز تقاریر کے اجتماع’ کے انتظامات ہندوتوا رہنما یاتی نرسنگھانند نے کیے تھے اور یہ اجتماع اتراکھنڈ کے مذہبی شہر ہریدوار میں 17 دسمبر سے 19 دسمبر کے درمیان منعقد ہوا تھا جہاں کئی رہنماؤں نے اقلیتوں کو مارنے اور ان کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کی ہدایت کی
رپورٹ کے مطابق نرسنگھانند نے کہا کہ معاشی بائیکاٹ کارآمد نہیں ہوگا، ہندو گروپس کو اپنے آپ کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے، تلواریں صرف اسٹیج پر ہی اچھی لگتی ہیں، یہ جنگ وہ جیتیں گے جو بہتر اسلحے سے لیس ہوں گے
دی پرنٹ میں اکتوبر میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق نرسنگھانند پر متعدد مرتبہ مسلمان برادری کے خلاف مذہبی منافرت بھڑکانے کا الزام ہے
این ڈی ٹی وی نے رپورٹ میں بتایا کہ ہندو رکشاسینا کے صدر سوامی پرابودھانند گری نے کہا کہ میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاست دانوں، ہماری فوج اور ہر ہندو کو اسلحہ اٹھانا چاہیے اور صفائی ابھیان کرنا چاہیے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا ہے
انڈیا کے این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی کال کی مذمت کی جا رہی ہے لیکن نفرت انگیز تقاریر کرنے والے افراد برسرِ اقتدار جماعت بی جے پی کے ساتھ اپنے روابط ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی تقاریر پر قائم ہیں
ویب سائٹ کے مطابق اس تقریب کے چار دن کے بعد نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی ہے اور نہ ہی کوئی پولیس کارروائی ہوئی ہے
این ڈی ٹی وی کے مطابق جب انھوں نے پرابودھا آنند گیری سے رابطہ کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا: ’میں نے جو کہا میں اس پر شرمندہ نہیں ہوں۔ میں پولیس سے نہیں ڈرتا۔ میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔‘
سوشل میڈیا پر گزشتہ کئی دنوں سے اس اجتماع کی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں اور اس پر کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے
بی بی سی نیوز کی بھارت کی نامہ نگار یوگیتا لمایے نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’انڈیا میں ایک مسلم کامیڈین ایک لطیفے پر جیل بھیج دیا گیا۔ ایک ہندو رہنما جو لوگوں کو یہ نصیحت کرتی نظر آتی ہیں کہ مسلمانوں کو مار دیں اور پھر چینل این ڈی ٹی وی پر یہ کہتی ہیں کہ آئین غلط ہے، انہیں نہیں پکڑا جاتا۔ پولیس کہتی ہے کہ کسی نے شکایت درج نہیں کرائی ہے۔‘
آل انڈیا ترنامول کانگریس کے ترجمان ساکتے گوکھلے کے مطابق انہوں نے ہری دوار کے علاقے جوالا پور میں 17 دسمبر سے لے کر 20 دسمبر تک ہونے والی اس تقریب میں نفرت آمیز تقاریر کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ اگر چوبیس گھنٹوں میں اس تقریب کے منتظمین اور مقررین کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کی گئی، تو وہ جوڈیشیئل مجسٹریٹ کو اپنی شکایت پیش کریں گے
انہوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ان لوگوں کو آرام سے جانے نہیں دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اترا کھنڈ انتخابات میں حصہ لینے والی دوسری جماعتوں کو بھی کہا کہ ان کے خلاف آواز اٹھائیں
گوکھلے نے جو شکایت درج کرائی، اس میں کہا گیا ہے کہ اس تقریب میں ہندو رکشا سینا کے پرابودھا آنند گیری، بی جے پی کی خواتین کے دھڑے کی رہنما اُدتا تیاگی اور بی جے پی رہنما آشوینی اپادھے نے بھی شرکت کی تھی۔ یاد رہے کہ اپادھے پہلے ہی نفرت انگیز تقریر کے ایک مقدمے میں ضمانت پر ہیں
این ڈی ٹی وی کے ویب سائٹ پر چلائی جانے والی ایک ویڈیو میں پرابودھا آنند گیری کو یہ کہتے ہوئے صاف دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ ’میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاستدانوں، ہماری فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانے چاہیئں اور صفائی ابھیان (کلین اپ) کرنا چاہیے۔ کوئی اور آپشن نہیں بچا ہے۔‘
اسی تقریب کی ایک اور ویڈیو میں ایک خاتون مذہبی رہنما کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ’اگر آپ سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انھیں مار دیں.. ہمیں 100 فوجیوں کی ضرورت ہے…‘
انڈین نیشنل کانگریس کے شعبے آل انڈیا پروفیشنلز کانگریس نے ہندوتوا رہنماؤں کی جانب سے مذہبی شہر ہریدوار میں نفرت انگیز تقاریر پر مشتمل اجتماع میں دیے گئے بیانات کی سخت الفاظ میں مذمت کی
انہوں نے کہا کہ کیا یونین آف انڈیا اور دیگر ادارے اس حوالے سے بدستور خاموش تماشائی بنے رہیں گے.