نئی دلی – اختلافات اپنی جگہ مگر کاروبار اپنی جگہ.. اس بات کی واضح مثال ایک حالیہ خبر سے سامنے آئی ہے، جب بھارت اور چین کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے ماحول کے درمیان دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات مزید گہرے ہوتے دکھائی دیے ہیں
رپورٹ کے مطابق رواں سال بھارت اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت ایک سع ارب ڈالرز سے بھی تجاوز کر چکی ہے، لیکن دونوں طرف سے اس پر زیادہ بات نہیں کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے، مشرقی لداخ میں سرحدی کشیدگی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں
بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق یہ دوطرفہ تجارت جو سنہ 2001ع میں 1.83 ارب امریکی ڈالرز تھی، وہ رواں سال کے گیارہ ماہ میں بڑھ کر ایک سو ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے کاروبار کے لیے ایک بڑا موقع ہے، کیونکہ دونوں ممالک نے اختلافات کے باوجود اپنی تجارت کے لیے تعلقات کو بہتر کیا ہے
اس ضمن میں چین کے جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز (جی اے سی) کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت اور چین کی باہمی تجارت 114.263 ارب ڈالرز رہی ہے، جس میں جنوری اور نومبر 2021 کے درمیان 46.4 فیصد اضافہ ہوا ہے
چین کے لیے بھارت کی برآمدات 26.358 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جس میں ہر سال 38.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور چین سے بھارت کی درآمدات 49 فیصد اضافے کے ساتھ 87.905 ارب ڈالرز تک ہو گئی ہیں
لیکن اس سب کے باوجود یہ خبر بھارتی معیشت کے لیے اتنی خوش کن نہیں ہے، کیونکہ دو طرفہ تجارت ایک سو ارب ڈالر سے تجاوز تو کر گئی ہے، لیکن ان گیارہ مہینوں کے دوران بھارت کا تجارتی خسارہ بھی تیزی سے بڑھا ہے۔ تجارتی خسارے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت نے چین کو جتنا سامان فروخت کیا ہے اس سے زیادہ خریدا ہے
تجارتی خسارہ بھارت کے لیے انتہائی تشویشناک ہے، جو بڑھ کر 61.547 ارب ڈالرز ہو گیا ہے۔ رواں سال اس میں 53.49 فیصد کا اضافہ ہوا ہے
بہرحال تجارتی خسارے پر بھارت کی تشویش کے باوجود عملی طور پر اس رکارڈ کو ورچوئل درج کیا گیا ہے
بدقسمتی سے دو-طرفہ تجارت میں اس رکارڈ اضافے پر دونوں ممالک مشرقی لداخ میں جاری سرحدی کشیدگی کے باعث ایک دوسرے پر ”پٹاخے“ پھوڑ کر جشن منا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات پہلے سے زیادہ سست ہیں
اس سارے تناظر میں دفاعی تجزیہ کار برہما چیلانی نے اس تجارتی حجم کے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان کاروبار میں اضافے پر تنقیدی سوال اٹھایا ہے
اپنی ٹویٹ میں چیلانی نے لکھا ہے ”مودی حکومت چین کی جانب سے سرحدی تجاوزات کے باوجود سنہ 2021ع میں چین کے ساتھ تجارت میں 50 فیصد اضافے کا جواز کیسے پیش کرتی ہے، جس میں جنوری اور نومبر کے درمیان چین کے حق میں 61.5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، جو کہ موجودہ مالی سال میں بھارت کے کل دفاعی اخراجات کے تقریباً برابر ہے۔“
واضح رہے کہ گذشتہ سال پانچ مئی کو بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی شروع ہوئی تھی، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پینگونگ جھیل کے علاقے میں پرتشدد فوجی جھڑپیں ہوئیں اور دونوں ممالک کے متعدد فوجی مارے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے علاقوں میں کئی ہزار فوجی اور بھاری فوجی سازو سامان کی تعیناتی کی ہے
کئی دَور پر مشتمل فوجی اور سفارتی بات چیت کے بعد دونوں فریقوں نے رواں سال فروری میں پینگونگ جھیل کے شمال اور جنوب میں اور اگست میں گوگرا کے علاقے میں پیچھے ہٹنا شروع کر دیا
31 جولائی تک دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کا بارہواں دور ہوا۔ چند دنوں کے بعد دونوں افواج نے گوگرا میں اپنے ”ڈس انگیجمنٹ“ کا عمل مکمل کر لیا تھا۔ اور اسے خطے میں امن و امان کی بحالی کے لیے انتہائی اہم قرار دیا گیا
پہاڑی علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ دونوں فریقوں نے پچاس سے ساٹھ ہزار فوجیوں کو تعینات کر رکھا ہے
اس تنازعہ کی صورتحال میں امید کی سب سے بڑی کرن ڈبلیو ایم سی سی (ورکنگ میکانزم فار کنسلٹیشن اینڈ کوآرڈینیشن) تھی، جس کے تحت دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ فوجی کمانڈرز رابطے میں رہے اور کشیدگی کو قابو میں رکھا
لداخ کی سرحد کے قریب کشیدگی نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے علاوہ باقی تمام تعلقات کو ٹھپ کر دیا تھا
رواں سال نومبر میں سنگاپور میں ایک پینل مباحثے میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے لداخ سرحدی کشیدگی کا واضح حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے تعلقات کے خاصے خراب دور سے گزر رہے ہیں، کیونکہ چین نے بہت سے ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے معاہدوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور ان کے پاس ابھی تک کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے تعلقات کو کس طرف لے جاتے ہیں لیکن اس کا جواب دینا ان کا کام ہے
چین میں بھارت کے سابق سفیر وکرم مسری نے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ چھ دسمبر کو اپنے ورچوئل الوداعی پروگرام کے دوران چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے سامنے مسری نے کہا تھا کہ (موجودہ) چیلنجز کے سبب بھارت-چین تعلقات کی عظیم صلاحیت کو شکست ملی ہے
لداخ کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے مسری نے وانگ سے کہا کہ ہمارے تعلقات میں امکانات اور چیلنجز شامل ہیں، یہاں تک کہ پچھلے سال بھی کچھ چیلنجز تھے جو ہمارے تعلقات میں ہمارے امکانات پر اثرانداز ہوئے
یاد رہے کہ جنوری سنہ 2019 میں مسری نے انڈیا کے سفیر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انہیں یہ ذمہ داری اس وقت ملی جب دونوں ممالک سفارتی کوششوں کے ذریعے سنہ 2017 کے ڈوکلام تنازعے سے باہر آئے تھے
یہ تعطل سنہ 2018 میں ووہان میں بھارتی وزیراعظم مودی اور چینی صدر شی جنپنگ کے درمیان پہلی غیر رسمی سربراہی ملاقات اور سنہ 2019 میں بھارت کے شہر چینئی میں ہونے والی دوسری کانفرنس کے طویل مدتی ترقی کے ایجنڈے کے بعد ختم ہوا۔ تاہم، پھر مشرقی لداخ میں کشیدگی شروع ہو گئی تھی
نئی دہلی واپس آنے سے پہلے وکرم مسری نے میڈیا کے ساتھ ایک غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ کس طرح مودی اور شی جن پنگ نے چینئی سربراہی اجلاس کے دوران دو اہم اقدامات کو نافذ کرنے کی توقع کی اور اتفاق کیا تھا
دونوں ممالک نے ایک اعلیٰ سطحی اقتصادی اور تجارتی مکالمہ (HETD) میکانزم قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کی صدارت چین کے نائب وزیر اعظم اور بھارتی وزیر خارجہ نے کرنا تھی۔ یہ دو طرفہ تجارت اور تجارتی شراکت داری کے ساتھ بھارت کے تجارتی خسارے کے مسائل کو بھی دیکھتا
چین نے ایسا اعلیٰ سطحی طریقہ کار صرف امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے قائم کیا تھا
اس کے ساتھ ہی دونوں رہنماؤں نے سنہ 2020 کو ’انڈیا-چین کلچرل پیپل ٹو پیپل ایکسچینج’ کا سال قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان مختلف سطحوں پر تبادلے کے لیے ستر تقاریب کا انعقاد کیا جانا تھا۔ ان میں ایک دوسرے کی مقننہ، سیاسی جماعتوں، ثقافت اور نوجوانوں کی تنظیموں اور فوجوں کو سمجھنا شامل تھا
بعد ازاں مشرقی لداخ کی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات متاثر ہوئے اور دونوں اقدامات ناکام ہو گئے
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر چین کے نقطہ نظر کے موضوع پر وانگ نے مسری سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ’باہمی تعلقات کے بغیر دونوں فریقوں کو ایک ساتھ لانا بہت مشکل ہے، چاہے درمیان میں کوئی رکاوٹ نہ بھی ہو
ان کا کہنا تھا کہ چین اور بھارت کو ایک دوسرے کا ساتھی اور دوست بننا چاہیے، اور ایک دوسرے کے لیے خطرہ نہیں بننا چاہیے
دوسری جانب ملکی سطح پر چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا نومبر میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں پارٹی کی گذشتہ سو برسوں میں اہم کامیابیوں کے حوالے سے ایک ‘تاریخی قرارداد’ منظور کی گئی۔ اس نے صدر شی جن پنگ کو رکارڈ تیسری بار صدارت سونپنے کا راستہ بھی ہموار کر دیا
پارٹی کی سو سالہ تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی تیسری ‘تاریخی تجویز’ تھی۔ اس سے قبل کی قراردادیں پارٹی کے بانی ماؤ زے تنگ اور ان کے جانشین ڈینگ سیوپنگ کی قیادت میں جاری کی گئی تھیں
سی پی سی کی انیسویں مرکزی کمیٹی کے چھٹے مکمل اجلاس میں اس تجویز کا جائزہ لیا گیا اور اسے قبول کر لیا گیا.