ریکوڈک پر اِن کیمرا بریفنگ، ’ہمیں بڑی بھیانک تصویر دکھائی گئی‘

ویب ڈیسک

کوئٹہ – بلوچستان میں سونے اور تانبے کے اربوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک منصوبے سے متعلق نئے ممکنہ معاہدے اور پیش رفت پر صوبے کی اسمبلی کو اِن کیمرا بریفنگ دی گئی ہے

اس حوالے سے ایک سوال پر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے کوئی معاہدہ خفیہ نہیں رکھا اور ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ بلوچستان کا حصہ اس منصوبے میں زیادہ ہو، مگر اپوزیشن رہنما اور وکلا ان کی بات سے متفق نظر نہیں آتے

کوئٹہ میں سرکاری سطح پر بننے والےایک پارکنگ پلازہ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ریکوڈک کے حوالے سے عالمی کیس ہار چکے ہیں

واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت بلوچستان کی سیاست اور میڈیا پر زیر بحث ہے۔ دو روز قبل بلوچستان اسمبلی کا ان کیمرہ سیشن بلایا گیا، جس میں حکومت نے اراکین اسمبلی کو اس حوالے سے بریفنگ دی تھی

نو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اِن کیمرا اسمبلی اجلاس میں حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے بیالیس اراکین اسمبلی نے شرکت کی جبکہ تیرہ ارکان غیر حاضر رہے۔ اس موقع پر کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری میڈیا کے نمائندوں کو اجلاس کی کوریج کی اجازت نہیں دی گئی

اجلاس سے ایک روز قبل سیکریٹری اسمبلی کی جانب سے چار نکات پر مشتمل ایس او پیز جاری کیے گئے تھے، جن پر عمل کرتے ہوئے تمام ارکان اسمبلی کو اپنے موبائل فون اسمبلی کے گیٹ پر ہی عملے کو جمع کرانے کا پابند کیا گیا

ارکان اسمبلی پر اسٹاف ممبر ساتھ لے جانے اور اسمبلی سیکریٹریٹ اور ایم پیز ہاسٹل میں بھی تمام وزٹرز اور سرکاری و غیر سرکاری مسلح محافظوں کے داخلے پر پابندی لگائی گئی تھی

بلوچستان حکومت کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق اس بریفنگ کا اہتمام صوبائی حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا، جس کا مقصد عوامی نمائندوں کو قومی اہمیت کے حامل اس منصوبے پر اعتماد میں لینا تھا

ترجمان کے مطابق 9 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس طویل سیشن میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دیگر متعلقہ وفاقی اداروں کے حکام نے بریفنگ دی اور ان کیمرا بریفنگ کے ذریعے اراکین اسمبلی کو مشاورت اور رائے دینے کا پلیٹ فارم مہیا کیا گیا

ترجمان نے اس اقدام کو صوبائی حکومت کا جرات مندانہ اقدام قرار دیا اور کہا کہ ”موجودہ صوبائی حکومت بند کمروں میں فیصلے کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔“

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنوری 2013 میں ریکوڈک کے ذخائر استعمال کرنے کے آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) اور بلوچستان حکومت کے معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا

عدالت نے قرار دیا تھا کہ جولائی 1993 میں ہونے والا یہ معاہدہ ملکی قوانین کے خلاف ہے اور اس کے بعد اس میں کی گئی تمام بھی ترامیم غیر قانونی اور معاہدے کے منافی ہیں

سنہ 2011 میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے کمپنی کی جانب سے کان کنی کے لیے لائسنس کی درخواست مسترد کی تھی۔ بلوچستان حکومت اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے جنوری 2012ء میں ورلڈ بینک گروپ کے انٹرنیشنل سینٹر برائے سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) سے رجوع کیا

سرمایہ کاری سے متعلق اس عالمی ثالثی عدالت نے سات سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے جولائی 2019 میں پاکستان پر تقریبا چھ ارب ڈالر جرمانہ عائد کیا، جو پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کے دو فیصد کے برابر رقم ہے۔
اس کے فوری بعد ٹی سی سی نے اس فیصلے کے نفاذ کے لیے کارروائی شروع کردی تھی اور برٹش ورجن آئی لینڈ کی عدالت نے دسمبر 2020 میں پی آئی اے کے نیویارک اور پیرس میں ہوٹل سمیت پاکستانی اثاثوں کو منجمد کرنے کا حکم دیا تاہم بعد میں یہ فیصلہ منسوخ ہوا اور پاکستان نے عالمی عدالت سے مئی 2021 تک مشروط حکم امتناع بھی حاصل کر لیا۔
گذشتہ کئی ماہ سے ٹیتھیان کاپر کمپنی اور پاکستانی حکومت کے درمیان عدالت سے باہر معاملات طے کرنے کی کوششوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تقریباً ایک ماہ قبل 30 نومبر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اراکین نے قرارداد کے ذریعے ریکوڈک سے متعلق نئے مجوزہ معاہدے پر بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا

اس اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین نےخدشہ ظاہر کیا تھا کہ وفاقی حکومت بلوچستان حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر ریکوڈک پر نیا معاہدہ کرنے جا رہی ہے اور ریکوڈک اور صوبے کے دیگر قدرتی وسائل اور معدنیات کے حقیقی مالک ہونے کے باوجود فیصلہ سازی میں بلوچستان کے لوگوں کو شامل نہیں کیا جا رہا

وکلا کا بلوچستان ہائی کورٹ میں جانے کا اعلان

اس معاملے پر سب سے پہلا رد عمل وکلا کی طرف سے آیا۔ بلوچستان بار کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کے کسی بھی غیر آئینی اقدام کے خلاف تحریک چلائیں گے

بلوچستان بار کے چیئرمین قاسم گاجیزئی نے کہا کہ ریکوڈک کے خفیہ معاہدے کے حوالے سے اسمبلی اجلاس پر وکلا کو ہی نہیں، بلکہ بلوچستان کے تمام عوام کو تحفظات ہیں

انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کے حوالے سے خفیہ معاہدہ کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے

قاسم گاجیزئی نے کہا کہ سیندک اور چائنہ سے خفیہ معاہدے کی طرح ریکوڈک کو بھی سی پیک طرز پر ڈیل کیا جا رہا ہے. معاملات وفاق میں طے کرنے کے بجائے صوبے کو خودمختار بنایا جائے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد خفیہ معاہدے سے احساس محرومی میں اضافہ ہوگا

انہوں نے کہا کہ عوام کی تائید و حمایت کے برعکس فیصلے کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں

جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی نے بھی وکلا کے ہمراہ ہائی کورٹ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ریکوڈک کے حوالے سے کسی بھی خفیہ معاہدے کے خلاف ہر فورم پر جدوجہد کریں گے

یاد رہے کہ بلوچستان بار کی کال پر وکلا نے ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان اسبملی کے ان کیمرہ بریفنگ کے خلاف منگل کے روز عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا

سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کیا کہتے ہیں

آج وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا ایک سوال پر کہنا تھا کہ ان کیمرہ اسمبلی سیشن کےحوالے سے نیشنل پارٹی سے رابطہ کیا گیا تھا۔ چونکہ ان کا اسمبلی میں نمائندہ نہیں ہے تو وہ چاہتے تھے کہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ یا ان کا کوئی نمائندہ شریک ہوتا تاکہ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے

اس حوالے سے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا ہے کہ میں یہاں خاران میں ہوں، میں نہیں جانتا کہ کس سے رابطہ کیا گیا

ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کیمرہ سیشن کا مطلب ہی یہی ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے ایسا معاہدہ ہونے جارہا ہے، جو بلوچستان اور یہاں کے عوام کے مفاد میں نہیں ہے

انہوں نے بتایا کہ ہمارے دور حکومت میں ہم ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی کے ساتھ عدالت کے باہر معاہدہ کرنے جارہے تھے، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اگر اس وقت ہم یہ معاہدہ کر لیتے تو یہ معاملہ دو سے تین ارب ڈالر میں حل ہو جانا تھا۔ جو جرمانہ ابھی تک لگا ہے اس حد تک معاملہ نہ جاتا

انہوں نے بتایا کہ آئینی صورت میں کسی بھی کمپنی سے معاہدہ کرنا صوبے کے اختیار میں ہے۔ ریکوڈک کا معاہدہ بھی بلوچستان حکومت کو کرنا چاہیے لیکن اطلاع ہے کے اسے وفاق یا چینی کمپنی کو دیا جارہا ہے۔

مالک بلوچ کہتے ہیں کہ ان کیمرہ سیشن بلانے کا مقصد کیا ہے؟ اس سے واضح ہے کہ کچھ ایسے معاملات ہیں، جن کو عوام کے سامنے نہں لایا جاسکتا ہے

انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس معاہدے کے خدوخال واضح نہیں، جب سامنے آئیں گے تو بہتر رد عمل دے سکتے ہیں

مالک بلوچ نے بتایا کہ جب ان کی حکومت میں کمپنی سے بات چیت کررہی تھی تو یہ بات سامنے آئی کہ کمپنی کے ساتھ بلوچستان کا 25 فیصد حصہ رکھا گیا تھا۔ جس میں صوبے کو بھی سرمایہ کاری کرنا تھی

سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا ردعمل

نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ریکوڈک کا ایک منصوبے کے تحت سودا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے

نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ سیندک منصوبے سے نہ مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچ سکا اور نہ ہی بلوچستان کے عوام کی حالت بدل سکی اسی لیے اپنے دور میں ریکوڈک معاہدے کی مخالفت کی۔ ’بہتر یہ ہے کہ مقامی سطح پر ریفائنری بنا کر منصوبے کو خود چلایا جائے

یار محمد رند کا موقف

وفاق میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے اجلاس میں شرکت کے بعد بتایا کہ ریکوڈک سے متعلق ہمیں بڑی بھیانک تصویر دکھائی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کے تحت پاکستان کی وفاقی حکومت کو غیرملکی کمپنی کو دس ارب ڈالر جبکہ بلوچستان کو چار ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے اور رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں یومیہ ساٹھ لاکھ ڈالر سود لگے گا، جبکہ امریکا میں روز ویلٹ ہوٹل سمیت پاکستان کے بیرون ملک اثاثے بھی ضبط یا منجمد ہوں گے

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر ان کی نیت یہی ہے کہ اسی کمپنی کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں گے اور جرمانہ حکومت کے حصے میں سے کاٹا جائے گا

سردار یار محمد رند نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک پر از سرنو معاہدے کے نکات حوصلہ افزا نہیں لگ رہے، ماضی کی حکومت کی غلطیوں کا خمیازہ صوبے، ملک اور عوام نے بھگتنا ہے

پی ٹی آئی رہنما نے مطالبہ کیا ہے کہ ریکوڈک پر از سرنو معاہدے سے قبل ٹُرتھ کمیشن بنا کر ماضی میں ہونے والے غلط فیصلوں اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اس منصوبے پر ان کیمرا بریفنگ کے بجائے عام اجلاس میں حقائق اور نئے معاہدے کے نکات بلوچستان اور پاکستان کے عوام کے سامنے لائے جائیں اور عوام کو اعتماد میں لے کر فیصلے کیے جائیں

بلوچستان اسمبلی میں دوسری بڑی حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی احمد نواز بلوچ سے جب پوچھا گیا کہ وہ بریفنگ سے مطمئن ہیں یا نہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے

ثناءاللہ بلوچ کا کیا کہنا ہے

جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء اللہ بلوچ، جو بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے، کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی نے 2019 اور ایک ماہ قبل دوسری مرتبہ اس حوالے سے قرارداد منظور کی تھی، اسمبلی کے ارکان کو اس اہم مسئلے پر اعتماد میں لینا ہماری کامیابی ہے

ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کا کیس تقریباً ایک دہائی سے عدالتوں میں چلا آ رہا ہے۔ وفاقی حکومت اس کیس کو دیکھ رہی تھی اور صوبے میں چند ہی لوگوں کو اس سلسلے میں معلومات تھیں

انہوں نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ بریفنگ میں کیا بتایا گیا، لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ عالمی سطح پر بولی دیے بغیر اس منصوبے پر دوبارہ کام نہیں کیا جا سکتا

نامور قانون دان امان اللہ کنرانی کیا کہتے ہیں

ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ اور عالمی عدالت میں بلوچستان حکومت کی نمائندگی کرنے والے سابق ایڈووکیٹ جنرل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے ریکوڈک پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وفاقی اداروں کے نمائندوں کی جانب سے بلوچستان اسمبلی کو بریفنگ دینے کے اقدام پر سخت تنقید کی ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا آنا اور اسمبلی کو بریفنگ دینا غیرآئینی اور صوبائی خودمختاری کے منافی ہے۔‘ ان کے بقول 1948 کے آئل اینڈ گیس ریگولیشنز کے سیکشن 5 ،1970 کے بلوچستان مائننگ کنسیشن رولز اور آئین کے تحت معدنیات بشمول ریکوڈک بلوچستان کی ملکیت ہے۔ اس پر فیصلے کا اختیار بھی وفاق نہیں بلکہ صوبے کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’2013 میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ریکوڈک کے تمام ریکارڈ کو غائب کر دیا گیا. اب اس منصوبے سے متعلق تمام فیصلے بھی وفاق کے کچھ ادارے لے رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو بھاری جرمانے کے نام پر ڈرایا جا رہا ہے۔ ’عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے ہو بہو قبول نہیں کیے جاتے۔ بیرون ملک عدالتی فیصلے پاکستان کے 2011ء کے فارن ڈگری قانون کے تحت عمل درآمد سے پہلے متعلقہ ہائی کورٹ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ بھی بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش کیا جاتا تو وہ سپریم کورٹ کے جنوری 2013ء کے فیصلے کو برقرار رکھتی۔‘

تاہم ترجمان حکومت بلوچستان نے ان کیمرا بریفنگ پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت صوبے کے حقوق و وسائل کے تحفظ کے لیے پوری طرح پر عزم ہے

سینیئر صحافی کا موقف

سینیئر صحافی و تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ ’اس اہم منصوبے پر منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیا جانا بہتر اقدام ہے مگر طریقہ کار غلط ہے جس سے شکوک و شبہات اور خدشات جنم لے رہے ہیں کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔‘

ان کے بقول ’ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے اپنے دور میں عالمی عدالت میں پاکستان کی وکالت کرنے والے احمر بلال صوفی کے ذریعے اوپن بریفنگ کا اہتمام کیا تھا۔‘

شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ’اس خفیہ بریفنگ کی چیزیں بھی باہر آئیں گی مگر ہوسکتا ہے وہ صحیح طریقے سے سامنے نہ آئیں، جس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

تاہم حزب اختلاف کے ثناء اللہ بلوچ سمجھتے ہیں کہ ان کیمرا بریفنگ کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں. ان کے بقول ’شاید کچھ ایسی باتیں ہیں جو ابھی حتمی نہیں ہوئیں یقیناً بلوچستان اسمبلی کے سامنے آپشن رکھے گئے ہوں گے، اس لیے جب تک حتمی فیصلہ نہیں ہوتا، یہ کہنا درست نہیں کہ بلوچستان کے مفادات کا سودا کیا جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان اسمبلی کے تمام اراکین کو خریدا نہیں جا سکتا، ایم پی ایز اپنی جماعتوں کے پاس جائیں گے۔ اگر نیا معاہدہ بلوچستان اور پاکستان کے مفادات سے متصادم، عالمی قوانین اور رائلٹی پرافٹ سے ہٹ کر ہوا تو ہم قبول نہیں کریں گے اور ہر فورم پر احتجاج کریں گے۔‘

ریکوڈک منصوبہ کیا ہے؟

‘ریکوڈک’ ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں ٹیتھیان کی اراضیاتی پٹی پر واقع ہے۔ یہ پاکستان میں سونے، چاندی اور تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے چند بڑے قیمتی زیر زمین ذخائر میں ہوتا ہے. ریکوڈک اصل میں بلوچی نام ’ریکئے ڈِک‘ کی بگڑی ہوئی صورت ہے، جس کے معنی ”ریت کا ٹیلہ“ کے ہیں

ایک رپورٹ کے مطابق ریکوڈک میں ایک کروڑ تیس لاکھ ٹن تانبے کے ذخائر اور دو کروڑ تیس لاکھ اونس سونا موجود ہے

ٹھیتان کاپر کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق ریکوڈک کا ’اقتصادی طور پر قابلِ کان کن حصہ‘ 2.2 ارب ٹن جبکہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق چار ارب ٹن سے زائد ہے، جس میں اوسطاً تانبا 0.53 فیصد ہے جبکہ سونے کی مقدار 0.3 گرام فی ٹن ہے۔ اس منصوبے کی کل عمر کا تخمینہ چھپن سال لگایا گیا ہے

کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا، تاہم امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ذخائر کا تخمینہ کئی گنا کم ظاہر کیا ہے۔ ان کے بقول جیالوجیکل سروے آف پاکستان اور پاکستانی جوہری سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ریکوڈک میں 600 کلومیٹر رقبے پر پھیلے ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے

ریکوڈک معاہدے پر تنازع کیا ہے؟

سال 1993 میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بروکن ہلز پروپرائیٹری (پی ایچ پی) نامی امریکی کمپنی کے مابین چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ بی ایچ پی نے معدنیات کی کھوج کے لیے لائسنس حاصل کر کے کم گہری کھدائی پر ہی سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کر لیے تھے۔

چاغی ہلز ایکسپلوریشن معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے سال 2000ع میں منکور ریسورسز نامی کمپنی کو منصوبے میں شامل کیا۔ بعد میں تمام شیئرز ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے خرید کر اس کمپنی کی ملکیت حاصل کر لی

ٹیتھیان کاپر کمپنی دراصل دنیا میں کانکنی کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک کینیڈا کے بیرک گولڈ اور چلی کے اینٹوفاگاسٹا منرلز پر مشتمل کنسورشیم کی مشترکہ ملکیت ہے

امان اللہ کنرانی کے مطابق ’اس کنسورشیم نے قرض برطانوی بینکوں سے لیے۔ ان کے ماہرین چلی اور کینیڈا کے ہیں جبکہ دفاتر آسٹریلیا میں ہیں۔‘

ان کے بقول ٹی سی سی نے اپنی رجسٹریشن آسٹریلیا میں اس لیے کرا رکھی تھی، کیونکہ آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان 1998ع میں سرمایہ کاری کے تحفظ کا دو طرفہ معاہدہ (بی آئی ٹی) دستخط ہوا تھا

قانون دان امان اللہ کنرانی کے مطابق کمپنی اس بی آئی ٹی کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اس لیے جب بلوچستان حکومت نے انہیں لائسنس نہیں دیا اور سپریم کورٹ نے معاہدہ کالعدم قرار دیا تو انہوں نے عالمی ثالثی عدالت کے ذریعے آسٹریلیا کے ساتھ ہونے والے اسی معاہدے کی بنیاد پر مقدمہ جیتا اور عدالت نے 1993عچسے 2011ع تک ہونے والے اخراجات اور نقصانات کی مد میں اربوں ڈالر جرمانہ عائد کیا

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ٹی سی سی نے 2006ء سے اس منصوبے پر کام شروع کیا اور 220 ملین امریکی ڈالر یعنی 39 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی

حکومت کا مؤقف تھا کہ 1993ع میں معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہوا تھا، لیکن غیر ملکی کمپنی نے رشوت دے کر بلوچستان مائننگ کنسشین رولز میں غیر قانونی ترامیم کرائیں اور مزید کام کرانے کے لیے ایک دوسری کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کر لیا، جس کے تحت 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ علاقے میں ہونے والی تمام دریافتوں کی آمدنی کا 75 فیصد حصہ کمپنی کو جبکہ کل آمدنی کا صرف پچیس فیصد حصہ اور دو فیصد رائلٹی بلوچستان کو ملنا تھی۔
کمپنی کی جانب سے معاہدے میں ایک شق یہ بھی شامل کرائی گئی تھی کہ وہ تمام خام سونے اور تانبے کو ریفائننگ کے لیے پاکستان سے باہر لے جائے گی

رئیسانی حکومت نے کمپنی کی جانب سے ان مبینہ بے قاعدگیوں، مقامی سطح پر خام مال کی پروسیسنگ کے لیے ریفائنری نہ لگانے اور حصہ بڑھانے سے انکار کے بعد 2011ع میں ٹی سی سی کی کانکنی کے لیے لائسنس کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
جنوری 2013 میں سپریم کورٹ نے بھی معاہدے میں بے ضابطگیوں اور قوانین کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ معاہدے کو کالعدم قرار دیا

نومبر 2020ع میں پاکستان کے احتساب کے قومی ادارے (نیب) نے 1993ع میں کیے گئے معاہدے میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر مقدمہ بنایا

کوئٹہ کی احتساب عدالت میں دائر مقدمے میں سابق گورنر بلوچستان اور سابق چیف سیکریٹری سمیت حکومتِ بلوچستان کے سابق اعلیٰ حکام اور غیر ملکی کمپنی کے عہدے داروں سمیت چھبیس افراد کو نامزد کیا گیا

نیب کے مطابق اس معاہدے کی شرائط کو مزید مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف غیر قانونی طریقے سے بلوچستان مائننگ کنسیشن رولز میں ترامیم کی گئیں، بلکہ بار بار غیر قانونی طور پر ذیلی معاہدے کرکے بلوچستان حکومت کے عہدے داروں اور افسران نے ٹیتھیان کاپر کمپنی نامی نئی کمپنی کو فائدہ پہنچایا

پاکستانی حکومت نے عالمی عدالت میں ٹی سی سی پر کرپشن کے انہی الزامات کو بطور ثبوت بھی پیش کیا، تاہم عدالت نے ان الزامات کو رد کیا اور فیصلہ ٹی سی سی کے حق میں دیا

سات سال تک جاری رہنے والے اس مقدمہ بازی سے پاکستان اور بلوچستان حکومت کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اربوں روپے کے اضافی اخراجات ضرور ہوئے۔
بلوچستان اسمبلی میں محکمہ معدنیات حکومت بلوچستان کی جانب سے پیش کردہ معلومات کے مطابق 2013ع سے 2020ع تک مقدمے کی پیروی پر بلوچستان حکومت کے پانچ ارب تینتیس کروڑ روپے کے اخراجات آئے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close